عرفان مسیح کاش تم ذہنوں کی غلاظت بھی صاف کر جاتے‎

Irfan Masih

Irfan Masih

تحریر : عماد ظفر
عرفان مسیح شہر کی گند اور غلاظت کو صاف کرنے کا کام کرتا تھا. خود بدبو اور تعفن کےڈھیر میں اتر کر اس چیز کو ممکن بناتا تھا کہ شہر میں کسی گٹر کے بند ہونے سے کوئی تعفن نہ پھیلے. میرے اور آپ کے گند کو عرفان مسیح جیسے ہزارہا افراد اپنے ہاتھوں سے صاف کرتے ہیں اور بدلے میں بمشکل اتنی تنخواہ حاصل کر پاتے ہیں جس سے ان کے گھروں کا چولہا کسی نہ کسی طور بمشکل چلتا ہی رہتا ہے.

عرفان مسیح اور اس کے تین ساتھی ایک گٹر کی صفائی کے دوران دم گھٹنے سے بیہوش ہو گئے اور انہیں طبی امداد کیلئے ایک سرکاری ہسپتال پہنچا دیا گیا.. وہاں موجود ڈاکٹروں نے عرفان مسیح اور اس کے ساتھیوں کا علاج یہ کہ کر کرنے سے انکار کر دیا کہ جب تک ان کے جسموں سے غلاظت اور تعفن کو دور نہیں کیا جاتا وہ مریضوں کے پاس بھی نہیں آئیں گے. عرفان مسیح کو نہلا دھلا کر صاف کرنے کا عمل جاری تھا کہ اس کی موت واقع ہو گئی. جس بدبو اور تعفن کے باعث ڈاکٹر حضرات نے اس کا علاج کرنے دے انکار کیا وہ خود ان کی بدبو اور غلاظت تھی جسے عرفان مسیح صاف کرتا تھا.

عرفان مسیح تو چلا گیا لیکن معاشرے کیلئے ان گنت سوالات چھوڑ گیا. وطن عزیز میں چار سو عرفان مسیح جیسے ہزارہا سینیٹری ورکرز کی زندگی کی اہمیت کیا صرف کیڑے مکوڑوں جیسی ہے؟ کیا ہمارے جسم سے نکلی ہوئی غلاظتوں کے ڈھیر کو صاف کرنے والے عرفان مسیح جیسے لاتعداد سینیٹری ورکرز صرف اور صرف شہر کی غلاظت صاف کرنے والے تیسرے درجے کے وہشہری ہیں جنہیں شودر سمجھ کر نہ تو سماجی سطح پر انہیں کوئی اہمیت دی جاتی ہے اور نہ ہی ان کے جینے یا مرنے سے کوئی فرق پڑتا ہے؟. اگر آپ کے یا میرے گھر کا یا محلے کا گٹر بند ہو جائے تو غلاظت میں ڈوبے عرفان مسیح جیسے سنیٹری ورکر ہی اس گھڑی ہمارے کام آ کر بدبو اور تعفن سے ہماری جان چھڑواتے ہیں. اکثر و بیشتر ہم لوگ عرفان مسیح جیسے افراد کے ساتھ نہ تو گھر کا کوئی برتن شئیر کرنا پسند کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے ساتھ کھانا پینا پسند کرتے ہیں.

عمومی طور پر عرفان مسیح جیسے افراد کو چوڑا، مصلی یا بھنگی کے القابات سے مخاطب کیا جاتا ہے. یہ چوڑے اور مصلی ہمارے نزدیک شودروں کی مانند پوتے ہیں جنہیں ہماری سوچ کے مطابق دنیا میں اتارا ہی ہمارا گند صاف کرنے کیلئے جاتا ہے اور جن کی بے نام زنگیاں میرے اور آپ کے سرد رویوں کا شکار ہو کر یا ہماری جھڑکیاں سنتے ختم ہو جاتی ہیں. یوں تو ہم لوگ ہمیشہ مساوات اور برابری کی بات کرتے ہیں لیکن درحقیقت ہم صرف اور صرف سماجی اور طبقاتی تقسیم کے اسیر ہیں. اپنے سے حیثیت میں کسی بھی کمتر فرد کو نہ تو ہم کسی خاطر میں لاتے ہیں اور نہ ہی اسے عزت و تکریم کے لائق سمجھتے ہیں.ان مصلیوں اور بھنگیوں کو گٹر صاف کروانے یا بنا پرمٹ کے شراب حاصل کرنے کیلئے استعمال کرنے کے علاوہ ہم ان کا جذباتی و معاشرتی استحصال بھی کرتے ہیں.

کسی بھی بھنگی یا مصلی کا بچہ ہمارے بچوں کے ساتھ کھیل کود میں شریک نہیں ہو سکتا. ہمارے تہواروں یا خوشی غمی میں بھی ان بیچاروں کی حیثیت شودروں جیسی ہوتی ہیں جو ہمارا گند صاف کرنے کے بچا کھچا کھانا یا چند روپے اپنے کام کے عوض لیکر بھی احسان مند ہی رہتے ہیں. کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ اگر عرفان مسیح جیسے تمام افراد صرف چند دنوں کیلئے شہروں کی سیوریج کا دھیان رکھنا بند کر دیں تو کیا ہو گا؟ ہمارے شہروں کے گٹر ابل پڑیں گے اور ان گٹروں میں سے امذرہ ہوئی ہماری اپنی پھیلائی ہوئی بدبو اور تعفن ہمار جینا محال کر دے گی.اگر یہ مصلی اور چوڑےہماری خوشی غمی پر صفائی کرنے نہ آئیں تو اپنے ہی پھیلائے ہوئے گند کو سمیٹنا ہمارے لیئے ناممکن ہو جائے گا.

اگر روز صبح کوئی مصلی یا چوڑا ہمارے گھروں اور محلے کے باہر سے کوڑا کچرا اٹھانے نہ آئے تو بدبو اور تعغن سے خود اپنے گھر یا گلی میں ہمارا جینا ناممکن ہو جائے گا.اگر انہی مصلیوں اور چوڑوں کی گوری نسل کے استعمال شدہ کپڑے لنڈے بازار میں ملنا بند ہو جائیں تو کڑوڑوں سفید پوش آدمیوں کیلئے سفید پوشی کا بھرم رکھنا ناممکن ہو جائے گا.انہی چوڑے مصلیوں کی گوری نسل اگر امداد کی بھیک نہ دے تو اکڑ کر ایٹمی قوت ہونے کی دعویدار قوم کی ساری اکڑ محض چند دنوں میں نکل جائے گی.

یہ منافقت اور ڈھٹائی کا عروج ہے کہ گٹر اور کچرا صاف کرنے والے شودر اور ان کی گوری نسل سے ہاتھ ملانا بھی باعث فخر. عرفان مسیح جیسے ہزارہا محنت کش تو خیر ہمارے جسموں سے نکلی غلاظت اور تعفن کو روزانہ دور کر دیتے ہیں لیکن ہماری روح کے اندر پھیلے ہوئے تعفن اور سوچ کی غلاظت کو کون دور کرے گا؟ ایسی بدبودار اور تعفن زدہ سوچ جو عرفان مسیح جیسے افراد کو چوڑا اور مصلی قرار دیتے ہوئے انہیں بستر مرگ پر بھی علاج کے بجائے انہیں مرنے کیلئے چھوڑ دیتی ہے. اس سوچ کا تعفن اور بدبو دراصل ہمارے اندر رچ بس چکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب اس بدبو غلاظت اور تعفن میں جینے کی ہمیں عادت ہو چکی ہے.دراصل ایسی سوچ رکھنے والے تمام افراد چوڑا اور مصلی کہلانے کے لائق ہیں جو ایک محنت سینیٹری ورکر یا اس جیسے لاکھوں انسانوں کو انسان تک نہ سمجھتے ہوں. عرفان مسیح ہمارے شہروں سے بدبو اور تعفن دور کرتا تھا کاش کوئی ہماری سوچوں، ذہنوں اور روحوں سے اٹھتے ہوئے تعفن بدبو اور غلاظت کو بھی صاف کر دے. کاش عرفان مسیح اور اس جیسے ہزاروں افراد شہروں کے گٹر صاف کرنے سے پہلے ذہنوں کے گٹر صاف کر سکیں.

imad zafar

imad zafar

تحریر : عماد ظفر