داعش کے خلاف نئی حکمتِ عملی، اتحادی وزرائے دفاع کا اجلاس

Meeting

Meeting

واشنگٹن (جیوڈیسک) تیس ملکوں کے وزرائے دفاع نے داعش کے دہشت گرد گروپ سے اُس کے باقی ماندہ محفوظ ٹھکانوں میں صفایا کرنے کے معاملے کا جائزہ لیا اور اِس ضمن میں اگلے اقدامات پر اتفاق کیا۔

داعش کے انسداد کے موضوع پر واشنگٹن کے باہر ’جوائنٹ بیس اینڈریوز‘ میں ایک اجلاس منعقد ہوا، جس میں امریکی وزیر دفاع ایش کارٹر نے کہا کہ اتحاد کی اگلی کارروائیاں موصل کا کنٹرول حاصل کرنے پر منتج ہوں گی، جو عراق میں داعش کا اہم ٹھکانہ ہے؛ اور رقعہ جو شام میں داعش گروپ کا خود ساختہ دارالخلافہ ہے۔

اہل کاروں نے بتایا ہے کہ کارٹر نے بدھ کے اجلاس میں عراق اور شام میں فوجی کارروائی تیز کرنے کی حکمتِ عملی کے تعین کے لیے رکھی تھی، خاص طور پر تب جب عراق موصل کو واگزار کرانے پر زور دے رہا ہے، جو ملک کا سب سے بڑا شہر ہے جس پر اس دہشت گرد گروپ کا کنٹرول ہے۔

بریٹ مک گرک داعش کے انسداد سے متعلق اتحاد کے لیے خصوصی صدارتی ایلچی ہیں۔ اُنھوں نے منگل کو اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ’’ہم اب ایسے مرحلے پر ہیں جہاں ہم اتحاد کو متحد کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ بات کر سکیں، تفصیل کو دیکھ سکیں اور یہ بات یقینی بناسکیں کہ ہمارے پاس سارے وسائل ہیں جن کے بل بوتے پر ہم کامیاب ہو سکیں‘‘۔

گذشتہ ہفتے، موصل میں لڑائی کا رخ بدلنے میں مدد دینے کے لیے امریکہ نے 560 مزید فوج فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ایک اہل کار نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ امریکہ دیگر اتحادی ملکوں سے کہے گا کہ وہ ’فوج کی موجودہ تعیناتی جاری رکھیں اور ضرورت پوری کرنے کے لیے مزید فوج فراہم کریں‘‘۔

داعش سے نمٹنے کے سلسلے میں وزرائے خارجہ اور وزرائے دفاع کا دوسرا اجلاس جمعرات کے روز امریکی محکمہٴ خارجہ میں ہوگا۔ حکام کا کہنا ہے کہ قائدین اس معاملے پر دھیان مرکوز رکھیں گے کہ لڑائی میں فتح کے حصول کے بعد کا تناظر کیا ہوگا، تاکہ لڑائی کے بعد امن اور استحکام کو یقینی بنایا جائے۔

اتحاد نے ’’فوری استحکام‘‘ کا ایک فنڈ قائم کیا ہے، جس کے بارے میں حکام کا کہنا ہے کہ اس میں تقریباً 10 کروڑ ڈالر کی رقم موجود رہے گی۔

مک گرک نے کہا ہے کہ ’’شمعیں روشن رہیں، پولیس کی بھرتی جاری رہے، وہ گلیوں میں واپس جائیں اور لوگ اپنے گھروں کی جانب لوٹیں‘‘۔ اُنھوں نے تکریت کے شہر کی جانب اشارہ کیا، جو استحکام کی کوششوں کی کامیابی کی ایک مثال ہے۔

مک گرک کے مطابق، گذشتہ برس علاقہ واگزار کیے جانے کے بعد، تکریت کی تقریباً ساری آبادی شہر واپس آچکی ہے؛ جب کہ مجموعی طور پر عراق میں 700000 سے زائد عراقی اپنے گھروں کی طرف لوٹ آئے ہیں، جن پر پہلے داعش کا کنٹرول تھا۔