اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

Hussain e Karbala

Hussain e Karbala

تحریر: عفت
تھا بس کہ روز قتل شہ آسماں جناب
نکلا تھا خون ملے چہرے پہ آفتاب
تھی نہر ِعلقمہ بھی خجالت سے آب آب
روتا تھا پھوٹ پھوٹ کر دریا میں حباب
پیاسی تھی جو سپاہ خدا تین رات کی
ساحل سے سر پٹکتی تھی تھی موجیں فرات کی

واقعہ کربلا تاریخ کا وہ سیاہ ورق جس کی مثال نہیں ملتی۔حق وصداقت کی ایسی جنگ جس میں صبرو برداشت اور بہادری کی وہ تاریخ رقم کی کہ زبان ،قلم ،اور آنکھ گنگ ہو جاتی ہے۔ناناۖ کے دین کے لیے جان کا نذرانہ دیا تاکہ دین ِمحمدیۖنہ مٹنے پائے،باطل کے آگے سر نہ جھکانے والے عظیم ناناۖ کے عظیم نواسے کی بے مثل قربانی کی داستان کا پس منظر ملاحظہ کریں۔حضورۖ اور خلفائے راشدین کا دور اسلا می حکومت کی بہترین مثال تھا ،حضرت حسن بن علی سے امیر معاویہ نے معاہدہ کیا تھا کہ وہ کسی کو خلیفہ نامزد نہیں کریں گے مگر یزید کو نامزد کر کے امیر معاویہ نے اصول کی خلاف ورزی کی کیونکہ شخصی حکومت کا جواز نہیں تھا۔

اس صورتحال کے پیش ِنظر ایسے صحابہ اکرام جنہوں نے حضورۖ کا دور دیکھا تھا ان کے لیے اس غلط روایت کو قبول کرنا ممکن نہیںتھا۔حضرت امام عالی وقار نے انھی اصولوں کی خاطر یزید کی بیعت قبول کرنے سے انکار کر دیا اس پر طرہ یہ کہ یزید کا ذاتی کردار ان تمام اوصاف سے بلکل عاری تھا جو ایک امیر یا خلیفہ کے لیے شریعت ِاسلامی نے مقرر کیے تھے ۔شراب و شباب کا رسیا ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی حیثیت فاسق و فاجر کی سی تھی جو امام حسین کے لیے تسلیم کرنی ممکن نہ تھی ،سو یزیدنے جب تخت نشینی کے بعد ولید بن عقبہ کی وساطت سے بیعت چاہی تو آپ نے صاف انکار کر دیا۔اور سفر ِمکہ اختیار کیا کوفے والوں نے آپ کو متعدد خطوط لکھ کر کوفہ آنے کی دعوت دی اور اپنی وفاداری کی یقین دھانی کروائی مگر بعد میں دبائو میں آکر مکر گئے۔

Bait

Bait

آپ نے مسلم بن عقیل کو حالات کا جائزہ لینے کے لیے کوفہ بھیجا ،پہلے دن ہی بارہ ہزار کوفیوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لی ان کے جذبات سے متاثر ہو کے مسلم بن عقیل نے امام حسین کو کوفہ آنے کا عندیہ دے دیا۔جب یہ صورتحال یزید کے علم میں آئی تو اس نے نعمان کو معزول کر کے عبیداللہ بن زیاد کو حکمران ِ کوفہ مقرر کر دیا جس نے اعلان کیا کہ جو مسلم بن عقیل سے وفاداریاں ختم کردے گا اسے امان دی جائے گی ۔اور پھر مسلم بن عقیل کی تلاش شروع ہو گئی ،آپ ہانی بن عروہ کے ہاں ٹہرے،عبیداللہ بن زیاد نے ہانی کو بلا کر مسلم بن عقیل کو پیش کرنے حکم دیا انکار پہ بری طرح زدوکوب کیا گیا اور زندان میں ڈال دیا گیا۔

ادھر افواہ پھیل گئی کہ ہانی قتل کر دئیے گئے یہ خبر سن کر مسلم بن عقیل اٹھارہ ہزار ہمنوائوں کے ساتھ ابن زیاد کے محل کا محاصرہ کر لیا اس وقت محل میں صرف پچاس آدمی تھے مگر ابن ِزیاد نے روساء کی مدد سے حکمت ِعملی اپنائی اور سب کو منتشر کر دیا اور مسلم بن عقیل زخموں سے چور حالت میں گرفتار ہوتے ہیں اور ابن زیاد ان کے قتل کا حکم دے دیتا ہے ۔یہاں یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ حالات امام حسین کے حق میں نہیں ،مسلم بن عقیل نے محمد بن اشعت سے کہا کہ میرا پیغام امام حسین تک پہنچا دینا اور اہل ِکوفہ پر اعتبار نہ کریں اور جہاں تک پہنچ گئے وہاں سے واپس لوٹ جائیں۔

امام والی مقام بطن ِرملہ سے نکلتے ہیں وہاں عبداللہ بن مطیع کو قاصد ملتا ہے اور مسلم بن عقیل کا پیغام دیتا ہے اب مسلم بن عقیل کے قتل کی خبر سن کر ان کے بھائیوں نے ان کا انتقام کی ٹھانی ۔امام حسین نے سب کو جمع کیا اور صورتحال سے آگاہ کیا اور کہا جو واپس جانا چاہے لوٹ جائے چنانچہ ان جانثاروں کے سوا جو مدینہ سے ساتھ آئے تھے باقی سب چلے گئے۔مقام ِ بیضہ پر آپ نے خطاب کیا اور ظالم ،فاسق اور فاجر حکمران کا ساتھہ دینے والوں کو اللہ دوزخ میں ڈالے گا ۔اہل بیعت کا سفر جاری ہے جہاں آپ کا رخ صحرا عرب کی طرف ہوتا ہے ،حر آپ کو روک دیتا اور قافلہ کا رخ کوفہ کی جانب موڑ دیتا ،آپ نینوا کے مقام پر پہنچتے ہیں وہاں ابن ذیاد کا قاصد حر کو پیغام دیتا ہے کہ لشکر ِحسینی کو وہیں روک لو اور انہیں ایسے چٹیل میدان پہ رکنے پہ مجبور کرو جہاں سبزہ اور پانی کا چشمہ نہ ہو اور میرا قاصد تا حکمِ تکمیل تمہارے ساتھ رہے گا۔

karbala

karbala

حر نے کہا میں آپکو یہاں رہنے نہیں دوں گا ۔ المختصر ٢ محرم الحرام کو یہ قافلہ میدان کرب و بلا میں اترا ،عمر بن سعد چھ ہزار کے لشکر کے ساتھ آیا مگر وہ آپ سے لڑنا نہیں چاہتا تھا لہذا قرہ بن سفیان کو آپ کے پاس بھیجا،آپ نے فرمایا اگر میرا آنا پسند نہیں تو میں واپس چلا جاتا ہوں مگر ابن زیاد نے ماننے سے انکار کر دیا اور یزید کی بیعت کرنے کا حکم دیا آپ کے انکار پہ آپ کا پانی بند کرنے کا حکم دے دیا۔پھر جلد ہی اپنی رائے تبدیل کر دی اور کہا کہ آپ اور ساتھیوں کی گرفتاری عمل میں لائی جائے انکار کی صورت میں جنگ کی راہ اپنائی جائے ۔شمر یہ پیغام کے کر عمر بن سعد کے پاس پہنچا اس نے اپنا اقتدار بچانے کے لیے آپ کے خلاف تلوار اٹھا لی ۔یہ ٩ محرم الحرام کا دن تھا۔

صلح کی ہر کوشش ناکام ہو چکی تھی شاید یہی مشیت ِایزدی تھی اور رقم تھا امام حسیں بھی اس حقیقت سے با خبر ہو چکے تھے کہ اب یہی حکم الہی اور ناناۖ کی پیشن گوئی کی سچائی کا وقت ہے اب ٧٢ نفوس باقی ہیں آپ اس مختصر سی فوج کو منظم کرتے ہیں اور اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو کر اس کی تائید ونصرت کے طلبگار ہیں ۔شخصی جنگ کا آغاز ہوتا ہے اہل ِبیعت کا پلہ بھاری ہے یہ دیکھ کر عمر بن سعد عام جنگ کا حکم دے دیتا ہے ۔گرمی کی شدت پانی کی پیاس سوکھے لب مگر جذبہ ِتوحید سے لبریزبیشتر ساتھی جام ِشھادت سے سرفراز ہو چکے ہیں اب حضرت علی اکبر، عبداللہ بن مسلمہ،امام قاسم ، عدی، عقیل، ابوبکر،عبدالرحمن میدان کربلا میں اترے اور شہید ہو گئے اس کے بعد امام عالی وقار میدان میں تشریف لاتے ہیں ،
کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے۔

Karbala Shahadat

Karbala Shahadat

دشمنوں نے چاروں طرف سے آپ کو گھیر لیا ہے یہ دیکھ کر عباس، جعفر عباللہ ، اور عثمان آپ کی حفاثت کے لیے میدان میں اترے اور آپ پر قربان ہوگئے اب آپ میدان میں تنہا کھڑے ہیں مگر کسی میں اتنی ہمت نہیں کی آپ کو شہید کرے با الاخر شمر کے اکسانے پرزرعہ بن شریک نے یہ بد بختی اپنے سر مول لی اور ہاتھ اور گردن پہ تلوار کے وار کئے ، سنان بن انس نے تیر برسائے آپ کے گرنے پہ شمر آگے بڑھا،امام نے فرمایا ؛ میرے ناناۖ نے کہا تھا میں ایک دھبے دار کتے کو دیکھتا ہوں جو اپنے ہاتھ میرے اہل بیعت کے خون سے رنگتا ہے تو ہی وہ کتا ہے.؛ شمر نے آپ کا سر پیچھے کر کے گردن تن سے جدا کر دی۔ ابن زیاد کے حکم پہ آپ کا سر مبارک گھوڑوں کے پائوں تلے روندا گیا ،زمیں چلائی آسمان رویا نواسہ رسولۖ شہید ہو گئے قیامت کبری برپا ہوگئی۔سلام یا حسین۔

قتل،حسین اصل میں مرگ،یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

تحریر: عفت