اسلامی یونیورسٹی میں اخلاقی بے راہ روی انسانیت کے منہ پر طمانچہ

University

University

اسلام آباد: بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی جو کہ عالمی تعلیم گاہ ہے کا اسلامی تشخص ایک طویل عرصہ سے مجروح کیا جارہاہے ،جس میں اساتذہ و ملازمین کی خواتین کے ساتھ جبراً زیادتی اور تعلقات کے انکشافات کا ہونامعمول بن گیا ہے۔کبھی چیف لائبریین کی ویڈیو منظر عام پر آتی ہے تو اس معاملہ کی مکمل جانچ پڑتال کرنے کی بجائے اسے جبراً اعزاز و اکرام کے ساتھ ریٹائرمنٹ دے دی جاتی ہے ،وہ جانتے ہیں کہ اگر تحقیقات کا دروازہ کھل گیا تو بڑے بڑے معزز و محترم چہرے عیاں ہوجائیں گے۔اسی پر ہی بات ختم نہیں ہوتی اصول الدین فیکلٹی اور شریعہ اینڈ لاء فیکلٹی کے فی میل کیمپس میں میل و فی میل اساتذہ کے ناجائز تعلقات کی وال چاکنگ معمول کی بات سمجھی جاتی ہے۔بدقسمتی کی بات ہے کہ دوسال قبل یونیورسٹی میںجس اسسٹنٹ پروفیسر کے معاشقے کے چرچے عام تھے وہ بدستور یونیورسٹی میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔اس کے ساتھ ہی موجودہ چیف سیکیورٹی کے بارے میں بے چرچے و تذکرے عام ہیں کہ وہ بھی یونیورسٹی کی طالبات سے ناجائز علاقے قائم کئے ہوئے ہے۔ہمیں اس بات پر افسوس و ندامت اور تاسف ہے کہ اس طرح کے واقعات جو طلبہ و طالبات میں زبان زدعام بن چکے ہیں ان کے بارے میں یونیورسٹی کی علمی وتعلیمی فضا کو تباہ و برباد کرنے والے پیداہونے والے شبہات کی تحقیقات سے یونیورسٹی کی مئوقر انتظامیہ کیوں اجتناب کرتی ہے۔

بات اسی پر ختم نہیں ہوتی چارسال قبل سعودیہ عرب سے آنے والے صدر جامعہ ڈاکٹر احمد یوسف الدریویش اور ان کے پرسنل سعودی ایڈوائزرعبداللہ فیفی کو رات کی تاریکیوں میں دوشیزائوں کی منتقلی سے متعلق این اے بلوچ نے ایک خصوصی رپورٹ چھے ماہ قبل شائع کی تھی مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ رپورٹ یونیورسٹی میں موجود تمام دفاترمیں بھیجی گئی اس کے ساتھ ہی یہ رپورٹ اسلام ٹائمز نامی ویب سائٹ پر بھی نشر کی گئی۔حیرت کن امر یہ ہے کہ اس رپورٹ سے متعلق کسی بھی سطح کی تفتیش کا اہتمام نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس رپورٹ کے غلط یا درست ہونے بارے یونیورسٹی نے کوئی بیان جاری کیا۔اس رپورٹ میں دواہم موضوعات کا ذکر کیا گیا کہ اول تو صدر جامعہ اور ان کے ایڈوائزر عبداللہ فیفی کو رات کی تاریکی میں ڈاکٹر عزیزالرحمن سلفی (جوجونئیرترین اسسٹنٹ پروفیسر ہونے کے باوجود)یونیورسٹی کے تمام اہم فیصلوں میں حتمی رائے دیتاہے،وہ برقعہ پوش لڑکی کو صدر جامعہ وعبداللہ فیفی کو منتقل کرتاہے۔صدر جامعہ کی اس اخلاق سے گری ہوئی حرکت اور حیا سوز سرگرمیوں کے باعث صدر جامعہ کی اہلیہ ناراض ہوکر سعودیہ منتقل ہوگئی ہے۔

این اے بلوچ نے مطالبہ کیا ہے کہ عزیزالرحمن سلفی اس دوشیزہ کا نام بتائیں بصورت دیگر میں خود اپنی آئندہ کسی تحریر میں اس کے نام کو بیان کرنے کے ساتھ مزید سنسی خیز انکشافات کروںگا۔بات اسی پر ختم نہیں ہوئی انہوں نے ایک اور واقعہ بھی ذکر کیا کہ نومبر دوہزار چودہ میں فی میل کیمپس کے کلیہ اصول الدین کے کلاس رومزکے اندر اور باہر ایک میل اور فی میل لیکچرر کے درمیان معاشقوں کے خلاف کھلے عام وال چاکنگ کی گئی۔لیکن یونیورسٹی انتظامیہ نے اس فحاشی کا کوئی نوٹس نہ لیا اور وہ میل ٹیچر بدستور تدریسی خدمات انجام دے رہاہے۔سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی جو اسلام کے نام پر قائم کی گئی ہے اور اس کا خالص مقصد ملت اسلامیہ کو پاکیزہ و باصلاحیت قیادت فراہم کرنا تھی میں اس طرح کی اخلاق سے عاری سرگرمیوں کے انکشافات اور اس پر مجرمانہ خاموشی و تغافل کیوں ؟اسلامی یونیورسٹی کے اسلامی و تعلیمی تقدس کو پامال کیوں کیا جارہاہے؟اس طرح کے واقعات کی منصفانہ تحقیقات کیوں نہیں کی جاتیں؟کیا اسلامی و اخلاقی نقطہ نظر سے یہ انسانیت کہ منہ پر کلنگ نہیں ؟والدین کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کی کوشش اور بددیانتی نہیں؟ہم صدر پاکستان،چیف جسٹس آف پاکستان،چئیرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اسلامی یونیورسٹی میں جاری اس طرح کی اخلاق سوز سرگرمیوں کے بارے میں منصفانہ تحقیقات کا دروازہ بلاتاخیر کھولا جائے اور مجرموں کو قرارواقعی سزا دی جائے اور اس کے ساتھ حیا سوز سرگرمیوں کے مرتکبین کو قانون کی گرفت سے بچانے اور یونیورسٹی کی مقدس فضاکو آلودہ کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔