اسلام آباد : وزیراعظم کے اسمبلی فلور، عدالتی بیان میں تضاد ہے : نعیم بخاری

Supreme Court

Supreme Court

اسلام آباد (جیوڈیسک) پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری کا کہنا ہے وزیر اعظم کے اسمبلی فلور اور عدالتی بیان میں تضاد ہے ، جدہ سٹیل ملز لگانے کے لیے پیسہ کہاں سے آیا ، فنڈز کی وضاحت نہیں ہے ، صادق اور امین نہ رہنے پر وزیر اعظم نااہل ہو گئے۔

چیف جسٹس پاکستان انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے پاناما لیکس کیس کی سماعت کی ۔ پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری نے اپنے دلائل میں کہا وزیر اعظم نے پارلیمنٹ کے فلور پر کہا دبئی سٹیل مل کی دستاویزات موجود ہیں ۔ جسٹس شیخ عظمت سعید کا کہنا تھا دستاویزات عدالت میں تو موجود نہیں۔

وکیل نعیم بخاری نے عدالت کو بتایا وزیر اعظم نے کہا یہ وہ ذرائع ہیں جن سے لندن فلیٹس خریدے گئے ۔ عدالت کو بتایا گیا دبئی بینک کا قرضہ 26 ملین درہم تھا ادا صرف 21 ملین درہم ہوا ، دبئی فیکٹری کی فروخت سے طارق شفیع کو کچھ نہیں ملا جبکہ دبئی فیکٹری طارق شفیع کے نام تھی ۔ وزیر اعظم اپنے بیانات میں غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں۔

جسٹس عظمت سعید شیخ نے استفسار کیا کیا وزیر اعظم نے عدالت میں بھی جھوٹ بولا ؟ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا دستاویزات بتاتی ہیں کہ دبئی کا معاملہ میاں محمد شریف کا تھا ، اس میں بچوں کا نام نہیں ہے ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا 12 ملین درہم طارق شفیع نے قطر کیسے منتقل کیے ، کیا یہ رقم فروخت کے وقت طارق شفیع کو منتقل ہوئی ، جسٹس عظمت سعید شیخ نے پوچھا فروخت کے معاہدے پر کس کے دستخط تھے۔

نعیم بخاری نے بتایا معاہدے پر طارق شفیع کے دستخط تھے۔ جسٹس اعجاز نے کہا لگتا ہے کہ طارق شفیع کے دستخط کسی دوسر ے شخص نے کیے ۔ نعیم بخاری نے عدالت کو بتایا وزیر اعظم کی تقریر میں بھی قطر کی سرمایہ کاری کا ذکر نہیں ہے۔

وزیر اعظم صادق اور امین نہیں رہے ، صادق اور امین نہ رہنے پر وزیر اعظم نااہل ہو گئے ، اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا آپ نے اپنے انداز سے اپنا کیس پیش کیا ہمیں کچھ پوچھنا ہو گا تو آپ سے پوچھ لیں گے۔