جیولرز کے لیے کوئی قانون ہے یا قانون اندھا ہوتا ہے

Jewelers

Jewelers

تحریر : رانا ظفر اقبال ظفر
ہمارا المیہ ہے کہ جب جب ہمیں کسی نے راستہ دکھانے کی کوشش کی ہم نے اسی کو اپنے ظرف اور سوچ کے مطابق مختلف القابات سے نواز کر اپنا حق ادا کیا ۔کسی چھوٹے یا بڑے شہر میں اپنی سوشل خدمات سرانجام دینے والا جرنلسٹ ہو یا تجزیہ نگار،اسکی کوشش ہوتی ہے کہ معاشرے میں جہاں بھی برائی،ظلم و زیادتی ،نا انصافی ،لوٹ مار دیکھے اپنی قلم سے اسے بے نقاب کرے کیونکہ اس کی ذاتی کسی سے لڑائی نہیں ہوتی بس اپنے فرض سے بغاوت نہیں کر سکتا مگر مقام افسوس جس عوام کے لیے وہ زمانے بھر کی مخالفتیں مول لے کر معاشرے میں پروان چڑھنے والی برائی کے ٹھیکداروں کو بے نقاب کرتا ہے وہی معاشرہ، سوچے ،سمجھے بنا اسی پر طرح طرح کے سوالات اٹھا دیتا ہے۔پچھلے دنوں میں نے سوشل میڈیا پر ایک سوال اٹھایا تھا کہ کیا پاکستان میں سونا فروخت کرنے ولے جیولرز کے لیے کوئی قانون بنایا گیا ہے۔

کیا ان کے کنڈے اور وٹوں کو کوئی چیک کرتا ہے ؟

کیا سنار کے پاس پڑے سونے کے بارے میں کسی کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتنے قرات ہے ؟

کیا کبھی کسی گولڈ پر چٹ لگائی گئی کہ اسکا معیار کیا ہے؟

ایک تولہ کتنے گرام کا ہوتا ہے ؟ دس یا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

کیا کسی خریدار کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ جو سونا خرید کر رہا ہے وہ کتنا خالص ہے ؟

ایک تولہ سونے پر قانونی طور پر کتنی پالش اور اس میں تانبہ ہونا چاہیے؟

سرکاری طور پر تولہ سونے کی مزدوری کا کیا تعین کیا گیا ہے ؟

کیوں ایک سنار کنگن کی مزدوری صرف دو سو روپے لگاتا ہے ؟جبکہ اس کو تیار کرنے میں دیہاڑی چلی جاتی ہے؟

گولڈ کا کاروبار کرنے اور زیور تیار کرنے والوں کی مزدوری اتنی کم کیوں ہے ؟

اس طرح کے کئی سوالات ہیں جو مجھ سمیت ہر شخص کے ذہینوں میں اکثر گونجتے رہتے ہیں سنا ہے جن دنوں بندہ اء ناچیز یہ سوالات سوشل میڈیا پر کر رہا تھا اور کوئی جواب نہیں دے رہا تھا اسی دوران کسی ٹی وی چینل پر بھی پروگرام چلا مگر اس میں اصل حقائق اور سوالات کو مسخ کر دیا گیا۔مگران سوالات کا جواب جاننا میرے سمیت ہر پاکستانی کا حق ہے کیونکہ اگر کسی کباڑیے،کریانہ والے،سویٹ ہائوس،بیکرز کو چیک کرنے والی سات سات ٹیمیں ہیں تو چھوٹے جیولرز سے بڑے گولڈ کے بیوپاری تک کو کون سا محکمہ چیک کر رہا ہے۔

سنا ہے کہ باہر کے کئی ممالک میں جیولرز کی دوکان پر ہر سونے کی ڈلی پر اسکی کوالٹی کی چٹ لگی ہوتی ہے تا کہ جو خریدار آئے اس کو معلوم ہو کہ وہ کیا خرید رہا ہے اس میں کتنا خالص ہے اور کتنا کھوٹ ہے اور ان دوکانات،شاپس کو بھی باقدعدگی سے چیک کیا جاتا ہے کئی ممالک میں جیولرز کو چیک کرنے والی ٹیم آتی ہے چٹ لگا سونا اٹھا کر اسکی رقم ادا کرنے کے بعد رسید دے کر باقاعدہ لیبارٹری کروائی جاتی ہے اگر چٹ اور کوالٹی میں فرق آ جائے تو اس جیولر کی خیر نہیں ہوتی اسکی دوکان کو نہ صرف سیل کر دیا جاتا ہے بلکہ تمام گولڈ قبضہ میں لیکر سزا دی جاتی ہے۔جس کے بعد کوئی غیر معیاری سونا معیاری بنا کر فروخت کرنے کی ہمت نہیں کر سکتا ۔ دوسری جانب میرا اور آپکا پیارا پاکستان ہے جہاں خواتین کی کمزوری زیور ہے مگر انہیں خواتین کو علم نہیں ہوتا کہ وہ جو سونا خرید کر رہی ہیں وہ کتنا معیاری ہے ،کتنا خالص ہے ۔کیونکہ کہتے ہیں کہ ایک تولہ سونے کا زیور بنوایا جائے اور اگر تین باراسی سنار کی دوکان پر وہی زیور چلا جائے تو ہاتھ میں صرف رسیدیں رہ جاتی ہیں زیور جیولر کا ہو جاتا ہے۔

ہمارے ،ملک کا چھوٹا سیاستدان ہو یا بڑا سیاستدان،سماجی راہنما ہو یا تاجر ،وکیل ہو یا ٹرانسپوٹرر،ریڑھی والا ہو یا مزدوری کرنے والا ،بیوروکریٹ ہو یا درجہ چہارم کا ملازم سب کے گھروں کی خواتین زیور پہننا،سونا خریدنے کا شوق رکھتی ہیںمگر ان سب کو یہ معلوم نہیں کہ اگر جس معیار کا سونا بتا کر فروخت کیا گیا ہے وہ اس معیار کا نہ نکلے تو اپنی شکایت لے کر کہاں جائیں،کس کو اپنے لٹنے کی داستان سنائیں۔

کیونکہ جیولرز کا کام کرنے والے دوکان میں سے جو صفائی کرتے ہیں انکی مٹی(گند)بھی فروخت ہوتا ہے ۔پاکستان میں چند ہزار روپے کا کاروبار کرنے والے کو مختلف محکموں سے سند،این او سی،لینا پڑتا ہے ریڑھی پر فروخت کرنے والوں کو ہر سال اپنا کنڈہ اور وٹے پاس کروانا ہوتے ہیں ورنہ محکمہ لیبر والے اسکا چالان کر دیتے ہیں افسوس در افسوس کہ کسی کو یہ معلوم ہی نہیں کہ گولڈ کا کروبار کرنے والے، زیور بنانے والے سنار کو چیک کرنے اور اسکا وزن کرنے والا کنڈہ کون پاس کرتا ہے کون وٹوں کو چیک کر کے پاس کی مہر لگاتا ہے کس کے پاس اختیار حاصل ہے کہ وہ کھرے اور کھوٹے،معیاری اور غیر معیاری سونے کی وضاعت کرے۔

یہ سوالات ہر آنے والے دن کے ساتھ شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں کہ ہمیں انکا جواب دیا جائے نیز

دیگر ممالک کی طرح چھوٹا جیولر ہو یا بڑا ،ایک تولہ سونے کی فروخت کرنے والا سنار ہو یا اربوں روپے کا گولڈ بیچنے والا گولڈ کا بیوپاری ان کے لیے قانون بنایا جائے۔

سونے پر انکے معیار کے مطابق چٹ لگی ہو اور قیمت لکھی جائے؟
سنار کو زیور کی مزدوری دیتے وقت عوام کی جان جاتی ہے اس لیے ہر قسم کے زیور کی مزدوری طے کی جائے اور لسٹ آویزاں کی جائے جس پر سرکاری مہر ہو؟

سونا جہاں سے بھی خریدا جائے اور جہاں بھی فروخت کیا جائے نقصان اور لٹ جانے کا اندیشہ کم سے کم ہو؟

سونے میں پالش کا ایک وزن طے کیا جائے اور ٹانکے کی مد ہونے والی لوٹ کو ختم کیا جائے ؟

ایسا قانون بنایا جائے جسمیں وزن کی کمی بیشی،معیاری بتا کر غیر معیاری سونا فروخت کرنے والوں کے لیے جدید دور کے مطابق سزائیں تجویز کی جائیں نیز فروخت کے وقت ،،ٹوکہ،،مارنے والوں کے لیے قانون سازی کے علاوہ انکو چیک کرنے اور کنڈے وٹے پاس کرنے والا محکمہ بنایا جائے ورنہ عوام یونہی لٹتی رہے گی اور حکمرانوں سے سوال پوچھتی رہے گی۔۔۔

Rana Zafar Iqbal Zafar

Rana Zafar Iqbal Zafar

تحریر : رانا ظفر اقبال ظفر