تو نے جو دکھایا وہ تماشا دیکھا

Journalism

Journalism

تحریر : لقمان اسد
صحافت ایک انتہائی مقدس پیشہ ہے جبکہ ایک صحافی کی اولین ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے شعبہ کی تقدیس و حرمت کو ملحوظ خاطر رکھے اور کوئی بھی خبر یا تحریر ضبط میں لاتے ہوئے انتہائی مہذب اور نپے تلے الفاظ کا چنائو کرے وہ صحافت جس کی پہچان شورش کاشمیری ،مولانا ظفر علی خان، غازی صلاح الدین شہید اور حمید نظامی ہوا کرتے تھے آج قحط سالی نے صحافت کو بھی گویا آلیا ہے گنتی کے ہی نامور صحافیوں کے٦ ماسوا اب صحافت کی دنیا میں بھی ”گلو بٹ ”دکھائی دیتے ہیں جو نہ تو صحافت کے دیرینہ اصول و ضوابط سے آشنا ہیں اور نہ ہی اس شعبہ کے حقیقی دائرہ کار سے اُنہیں کوئی سروکار ہے کوئی خبر یا مضمون باندھتے ہوئے اُن کے اندر ذرہ بھر بھی احساس نہیں جاگتا کہ اُن کے اس طرح کے اوچھے کارن سے معاشرتی اقدار کو کس انداز میں زک پہنچے گی اور باشعور افراد کے احساسات کس طرح گھائل ہونگے۔

یوں تو ہر شہر ،ہر ادارے اور ہر شعبہ میں کالی بھیڑیں اور گلو بٹ موجود ہیں مگر پسماندہ ضلع لیہ میں پچھلے کچھ عرصہ سے خصوصاًصحافتی ادارے اس قبیل کے لوگوںکے ہتھے چڑھے ہیں کہ جن کے ہاتھوں شرفاء کی عزت و آبرو تار تار ہے اور اُن کی پگڑیاں محفوظ تک نہیں یوں کہیئے تو بے جا نہ ہوگا کہ قلم اب ایسے افراد کے ہاتھ میں آچکی ہے جیسے کسی بندر کے ہاتھ میں ماچس آجائے گزشتہ دنوں مقامی اخبار کے صفحہ اول پر ضلع لیہ کی قدیم ترین اور مثالی درسگاہ گورنمنٹ کالج لیہ کے حوالے سے ایک خبر چھپی اور اس خبر میں استعمال کئے گئے غیر مہذب اور غلیظ الفاظ پڑھ کر مقامی اخبار کی ادارت سنبھالنے والے فرد کے شعور اور ظرف کا اندازہ ہوا ذہن فطری طور پر اس طرف مائل ہوا کہ ایسے کردار کسی بھی شعبہ میں کیونکر جنم لیتے ہیں جب یہ تجسس بڑھا تو یہ عیاں ہوا کہ ابتدائی ایام سے لیکر جوانی اور بڑھاپے تک ایسے ضمیر فروشوں کا مطمع نظر محض پیسے کی ہوس ہوتی ہے ان کی پرورش اور تربیت ایک مخصوص ماحول میں ہوتی ہے یعنی وہ بچپنے سے ہی ایسے لوگوں کے نرغے میں آجاتے ہیں کہ انہیں جو لت وہ ڈالتے ہیں آگے پروان چڑھ کر وہ علت بن جاتی ہے قدیم علمی درسگاہ کو بدنام کرنے کی مذموم سازش کرنے والا محرک کردار بھی بچپن میں ہی اس قماش کے کرداروں کے ہتھے چڑھ گیا کہ جس ماحول میں بھی بعد میں تربیت ہو وہ پہلا اثر زائل نہیں ہو پاتا۔

خبر کی اشاعت کے بعد موصوف کی بے ضمیری کو سکوں اور کم ظرفی کو طمانیت نہ ملی تو اپنے اخبار کے ابتدائی صفحہ پر ”چشم فلک سب دیکھتی ہے ” کے عنوان سے ایک بیان حلفی لکھ ڈالا موصوف نے اس تحریر میں اعلیٰ تعلیمی ادارے ،اُس کے شریف النفس سربراہ کو اپنے نشانے پر رکھا اب سوچنے کی بات یہاں پر یہ ہے کہ ادارہ ہذا کے پرنسپل مہر اختر وہاب ایک معروف علمی ،ادبی اور قد آور شخصیت ہیں تو کیا جو سب کچھ اس اخبار کی زینت بنایا گیا ضلع لیہ کا کوئی بھی ذی شعور شخص یہ سوچ سکتا ہے کہ مہر اختر وہاب اپنے فرائض سے اس قدر لاتعلق ہیں ؟کیا شہر بھر میں موصوف ہی ایسی شریف شخصیت رہ گئے تھے جن کے پاس یہ شکایت پہنچی اور بقول موصوف کے ادارہ ہذا کی ماسٹر کلاسزطالبات کا ایک وفد جناب کے دفتر پہنچا یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے ماسٹر لیول کلاسز کی طالبات کا شعور اس نہج پر تھا کہ اپنی اور اپنے والدین کی پگڑی اچھالنے کیلئے اس قدر حساس معاملہ میں ایک اخبار کے دفتر جا پہنچیں اگر اس من گھڑت افسانے میں ذرا بھر بھی حقیقت ہوتی تو کیا وہ اپنے والدین کو آگاہ نہ کرتیں یا ادارہ ہذا کے سربراہ کو تحریری یا زبانی شکایت نہ کرتیں موصوف شاید اس زعم میں مبتلا ہے کہ اُس نے اپنی عدالت لگا رکھی ہے کہ جس میں فوری اور سستا انصاف شہر بھر کی آبادی کیلئے یکساں میسر ہے اور شہر بھر کے متاثرہ افراد بشمول خواتین اُس کی خود ساختہ عدالت میں دوڑے چلے آتے ہیں اسے یہ علم نہیں کہ روز ِ محشر بھی اُٹھنا ہے۔

ایک دن اور میں اُس کے علم میں یہ بات لانا چاہتا ہوں کہ ایک عدالت رب کے حضور بھی لگنی ہے جدھر جمعہ کے روز مسجد میں اُٹھائی جانے والی جھوٹی قسموں کی کوئی اہمیت نہیں اور اُس دن ذرے ذرے کا حساب ہوگا ہوش میں رہو تا آنکہ وہ دن نہ آپہنچے کہ یوم حساب بھی قریب ہو اور تم بھتہ کے حصول کی خاطر شرفاء کی پگڑیاںاچھالنے سے توبہ نہ کر پائو ،سنو کہیں ایسا نہ ہو کہ ”چشم ِ فلک ”کے دیکھنے کے ساتھ ساتھ دنیا کا ہر انسان تمہیں اُس بڑی عدالت میں اُس روز ذلیل و خوار ہوتا دیکھ رہا ہو قلم کے حساب کا سوال جو تم نے اُٹھایا ہے تو مختصراً عرض ہے قلم سے اور قلم کی حرمت و تقدس سے تم جیسوں کا دور تک واسطہ نہیں ہاں ایسے تماش بین ہمارے معاشرے کے چہرے کی ضرور کالک ہیں جو تم جیسوں کو ڈرامے لیک اور لکھ کر دیتے ہیں جس کی پیشانی پر بڑے فخر کے ساتھ تم اپنی تصویر لگاکر ”مقابل ہے آئینہ ”لکھتے ہو لیکن تم اگر ضمیر کے آئینے میں دیکھو تو ضرور تمہیں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی نظر آئے جب عدالت تمہاری اپنی ہے تو پھر جے آئی ٹی اور تحقیقاتی کمیشن کا مطالبہ تو مذاق کے مترادف ہی ہوا ناں ؟ ان الفاظ کی وساطت سے مجھے ڈی پی او لیہ اور جناب ڈی سی او لیہ کے گوش گزارنا ہے کہ اس سطح کے لوگ آپ جیسے اہم ترین عہدوں پر براجمان شخصیات سے تعلقات کے نام پر معاشرے کے ایک عام فرد کا جو استحصال کرتے ہیں وہ انتہائی گھنائونا اور خطرناک عمل ہے مثال کے طور پر نام نہاد صحافت کی آڑ میں ریڈیو پر میزبان بن کر آپ جیسے اہم شخصیات کا نٹرویو کر کے لوگوں میں یہ تاثر اور پروپیگنڈا کرنا کہ بڑے صاحبان سے ہمارے اچھے مراسم ہیں ان الفاظ کی آڑ میں کئی لوگ لٹ جاتے ہیں تو جناب ڈی سی او لیہ ،جناب ڈی پی او لیہ آپ پر جہاں دوسری انتظامی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں وہاں اس حوالے سے بھی یہ ایک ذمہ داری آپ پر بنتی ہے کہ آپ صحافت سے وابستہ ایسے افراد کا بھی محاسبہ کریں جو آپ کے نام پر لوگوں کی زندگیاں اجیرن اور لوگوں کا مستقبل غارت کرتے ہیں۔

اس موضوع پر قلم اُٹھانا میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کیونکہ جب تم یہ سمجھو کہ تم جس انداز میں چاہو کسی بھی خبر کو مرچ مسالحہ لگانے کی خاطر بدترین سے بدترین الفاظ کو ضبط تحریر میں لائو اور اپنے ہی اخبار کے صفحہ اول کی شہ سرخی بنا ڈالو اور یہ بھی نہ سوچو تمھاری ایسی حرکت سے کسی تعلیمی ادارے کا مجموعی طور پر کتنا وقار مجروح ہوگا اور کتنی بدنامی ہوگی تو ان حالات میں اس موضوع پر قلم اُٹھانا صرف میں ہی اپنا فرض نہیں سمجھتا بلکہ میرے ساتھ صحافی دوستوں کی ایک بڑی تعداد ہے جن کے جواب کا آپ کو منتظر رہنا چاہیئے۔
اوروں کے گریبان میں مت جھانکتے رہیئے
اپنے بھی دامن پہ کبھی نقد و نظر ہو

Luqman Assad

Luqman Assad

تحریر : لقمان اسد