منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے

Poor

Poor

تحریر: روہیل اکبر
روتی ،تڑپتی اور سسکتی ہوئی زندگی میں روز دکھوں کا اضافہ ہورہا ہے ایک طرف وہ ڈاکو اور لٹیرے ہیں جن کی دولت ناسور کی طرح بڑھتی جارہی ہے تو دوسری طرف وہ غریب عوام ہے جن کے سر کچل کر مرہم بھی نہیں رکھی جارہی ہماری آدھی سے زائد غریب اور لاچار آبادی زندگی کی بنیادی سہولیات کو ترس رہی ہے جنکا اپنا کوئی فیصلہ ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی مشورہ انہیں جہاں ہانک دیا جائے وہ سرجھکائے چلے جاتے ہیں ہمیں آج تک کوئی لیڈر ملا اور نہ ہی کارکن اپنے اپنے مفادات نے ہم سب کو ایک دوسرے سے جدا کردیا اسی جدائی نے ہم سے احساس،اساس اور ایثار کا جذبہ بھی چھین لیا جسکا بھر پور فائدہ ہمارے حکمرانوں نے اٹھایا جنہوں نے نہ صرف کھل کرملکی دولت لوٹی بلکہ پھر لوٹنے والے کو کبھی چھوٹا تو کبھی بڑا بھائی بنا کر بھر پور تحفظ بھی فراہم کیا جاتا رہا۔

ترقی یافتہ ممالک میں کرپشن پر تحقیقات اور پھر سزا کا عمل شروع ہوجاتا ہے وہاں پر یہ نہیں دیکھا جاتا کہ چور چھوٹا ہے یا بڑا عام آدمی ہے یا خاص ہے مگر پاکستان میں جو بڑا چور اور ڈاکو ہوتا ہے اس پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا بلکہ وہ اپنے پیسے کے زور پر ووٹ خرید کر ہم پر مسلط ہوجاتا ہے اور پھر ہمارے احتساب کے ادارے اسی کی خوشنودی میں لگ جاتے ہیں پولیس تو پہلے ہی حکمرانوں کی لونڈی بنی ہوتی ہے رہی سہی کسر باقی اداروں نے بھی پوری کردی گذشتہ روز پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے راولپنڈی کے جلسہ میں حکمرانوں کے بارے میں جس طرح کے ہوش ربا انکشافات کیے اس پر بھی کوئی ہل جل نہیں ہوئی حیرت کی بات تو یہ ہے کہ الزام لگانے والا بھی پاکستان میں ہے اور جس پر الزام عائد کیے گئے ہیں وہ بھی ملک میں ہی ہے مگر کسی قسم کی کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔

Justice

Justice

ہمارے دیہاتوں میں کسی پر گنا چوری کرنے کا الزام عائد ہو جائے تو زمیندار اسے مار مار کر موت کے منہ تک لے جاتا ہے ایک بھوکا اگر اپنی بھوک مٹانے کے لیے کسی تندور سے روٹی چوری کرلے تو اس بھوکے کا پیٹ چاک کردیا جاتا ہے اور تو اور بسوں اور ویگنوں میں سفر کرنے والوں کے پاس کرایہ میں سے ایک روپیہ بھی کم نکلے تو بس کنڈیکٹر اسے بس سے نیچے اتار دیتا ہے اور پوری بس میں سے کسی مسافر کے اندر اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ اسکا کرایہ دیدے یا بس کنڈیکٹر کو ہی روک سکے مگر آصف علی زرداری پر اربوں ڈالر کی کرپشن کے الزامات ہیں وزیراعظم میاں نواز شریف اور انکی فیملی پر پاناما لیکس کے حوالہ سے کرپشن کی ہوش ربا کہانیاں منظر عام پر ہیں اور اب ڈاکٹر طاہرالقادری کے الزامات کے بعد ہم کہاں کھڑے ہیں اور کس سے منصفی چاہتے ہیں کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا اگر ہمارے ملک میں انصاف فراہم کرنے والا کوئی ادارہ ہوتا تو وہ فوری طور پر ڈاکٹر طاہرالقادری کے الزامات کی تحقیقات شروع کردیتا جو سچا نکلتا اس شاباش دیتا اور دوسرے کو نشان عبرت بنا دیا جاتا مگر یہ صرف ہمارے خواب ہی ہیں کیونکہ ہم مجموعی طور پر اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ ہمیں سوائے اپنے مفاد کے اور کچھ نظر نہیں آرہا اس وقت جو فرد جس کے ساتھ منسلک ہے اسے وہی سے کچھ نہ کچھ گذر بسر کے لیے مل رہا ہے اس لیے وہ نہیں چاہتا کہ وہ بھی کسی ایسی مصیبت میں مبتلا ہوجائے۔

جس طرح وہ لوگ ہیں جو صبح شام اپنے لیے موت کی دعائیں مانگ رہے ہیں اگر کسی کو یقین نہیں تو وہ کسی بھی سرکاری ہسپتال میں پڑے ہوئے بے یارو مددگار مریض سے اسکا حال جان لے جو ادویات اور آپریشن کے پیسے نہ ہونے کے باعث انتہائی اذیت میں زندگی کی گاڑی پر سوار ہیںیا پھر فکر معاش میں خود کشیاں کررہے ہیں اور ویسے بھی عوام کا کام ووٹ دینا ہے حکمرانوں یا لٹیروں کا حساب کتاب کرنا نہیں اگر کسی نے چوری کی ہے ڈاکہ ڈالہ ہے یا پھر ملکی مفاد کے خلاف کوئی کام کیا ہے تو اسکا احتساب ہمارے قومی اداروں نے کرنا ہوتا ہے کیونکہ قانون کے وہ محافظ ہوتے ہیں۔

Illegal Money

Illegal Money

اگر ان محافظوں کی موجودگی میں کوئی ملک کے خلاف کام کررہا ہے تو پھر ہمارے ان اداروں میں بیٹھے ہوئے افرادکے کردار پر بھی انگلی اٹھائے جائیگی کہ کہیں یہ بھی ملکی مفادات کے خلاف کام کرنے والوں کے ہم نوالہ اور ہم پیالہ تو نہیں ہیں کیونکہ پاکستان میں آج تک وہی لوگ ترقی کرسکے ہیں جنہوں نے غیر قانونی طریقے سے دولت کے انبار لگالیے اور انکے خلاف آج تک کسی قسم کی کوئی کاروائی بھی نہ ہوسکی آصف علی زرداری پر اتنا عرصہ جیل میں رہنے کے باوجودکچھ ثابت نہ ہوسکا اور وہ بلاآخر صدر پاکستان بن گئے انہی کے دور میں جس شخص کو کرپشن اور لوٹ مار پر راجہ رینٹل کا نام دیا گیا اسے وزیراعظم بنا دیا گیا اور ہمارے ملکی ادارے منہ دیکھتے رہ گئے اور اب ملک قرضوں کے بوجھ تلے دب گیا کسی نے کچھ نہیں کیا۔

الطاف حسین نے پاکستان مخالف نعرے لگوا کر ہمارے فورسز پر حملے کا اعلان کردیا تب بھی کسی نے کچھ نہ کیا اور اب ڈاکٹر طاہرالقادری نے موجودہ حکمرانوں پر سنگین نوعیت کے الزامات عائد کردیے اب بھی ہر طرف خاموشی مگر ایک طاقت ایسی ضرور ہے جس نے الطاف حسین کو ناکوں چنے چبوادیے پیپلز پارٹی کے کرپٹ اور سیاسی دہشت گردوں کے خلاف کراچی میں آپریشن کردیابلوچستان اور سندھ میں مثالی امن قائم کردیااور ملکی سرحدوں پر اپنی جان کے نظرانے پیش کرکے ہمیں آزادزندگی دے رکھی ہے انہی کے لیے فیض احمد فیض کے یہ اشعار۔
بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے
درد شب ہجراں کی جزا کیوں نہیں دیتے
خون دل وحشی کا صلہ کیوں نہیں دیتے
مٹ جائیگی مخلوق تو انصاف کروگے
منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر: روہیل اکبر
03004821200