انصاف ہو تو ایسا

Supreme Court

Supreme Court

تحریر: چوہدری غلام غوث
اپنی حدود و قیود اور اپنے مدار میں رہنا انصاف ہے جبکہ اپنی حدود سے تجاوز کرنا اور اپنے مدار سے نکل جانا بے انصافی ہے اس کی بہترین مثالیں قدرت کے فطری نظام میں موجود ہیں سورج، چاند اور ستاروں کا اپنے اپنے مدار میں رہنا جبکہ دن اور رات کا اپنے اپنے اوقات پر آنا جانا اور قدرت کے اس نظام کا مسلسل جاری رہنا انصاف ہے جبکہ قدرت کے ان کل پُرزوں کا اپنی حدود اور مدارات سے نکل جانا نا انصافی ہے اور اس ناانصافی کا دوسرا نام قیامت ہے اور قیامت دُنیا کی ہر چیز کا صفحہ ہستی سے مٹ جانے کا نام ہے۔ آج کل میرے ملک کی سیاست میں جو اہم سوال زبان زدِ عام ہے وہ پانامہ لیکس سکینڈل کے حوالے سے ملک کی اعلیٰ عدلیہ میں زیرِ سماعت کیس سے متعلق ہے جس نے سیاست کے ایوانوں میں ہلچل مچانے کے ساتھ ساتھ پوری قوم کو ہیجانی کیفیت میں مُبتلا کر رکھا ہے۔ قوموں کی تاریخ میں چند ایک لمحات اور واقعات ایسے بھی آتے ہیں جو آگ کی بھٹی کی طرح ہوتے ہیں جس میں سے یا تو قومیں کُندن بن کر نکلتی ہیں اور یا پھر جل کر مکمل کوئلہ بن جاتی ہیں کُندن اور کوئلے میں جو زمین اور آسمان کا فرق ہے وہ آپ بخوبی جانتے ہیں عدل و انصاف کرنا حوصلے اور دل گُردے کا کام ہوتا ہے میں تاریخ سے آپ کو عدل و انصاف کی ایسی مثال پیش کرنا چاہتا ہوں جسے پڑھ کر آپ کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔

Sultan Ahmed Shah

Sultan Ahmed Shah

سلطان احمد شاہ ہندوستان کی ریاست گجرات دکن کا والی تھا اس نے 10 سال تک ریاست پر حکومت کی مگر اس کے باوجود تاریخ کا ایک غیر معروف حکمران رہا۔ سلطان احمد شاہ کے دور میں دکن کا امن و امان، تجارت، معاشی حالت اور انصاف مثالی تھا چونکہ اس وقت ہندوستان میں بڑے بڑے نامی گرامی بادشاہ حکمرانی پر فائز تھے جس کی وجہ سے سلطان احمد شاہ کی عوامی اصلاحات اور قانون پروری تاریخ کے صفحات میں دب کر رہ گئی لیکن سلطان کی زندگی کے ایک واقعے نے اسے تاریخ کے سنہری اوراق میں امر کر دیا آج جہاں بھی دنیا بھر میں انصاف اور قانون کی عمل داری کا ذکر آتا ہے تو تاریخ کے اوراق سے سلطان کانام اُبھر کر سامنے آ جاتا ہے۔ سلطان کا داماد ایک خوبصورت نوجوان تھا اور انتہائی خوش اخلاق، مہذب اور نفیس انسان تھا اسے دربار میں بھی عالی مقام حاصل تھا اتفاق سے اس کے ہاتھوں ایک غریب مزدور مارا گیا مزدور کے لواحقین نے اُسے چپکے سے دفن کر دیا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھی چپ سادہ لی لیکن یہ واقعہ سرگوشیوں میں سفر کرتا ہوا سلطان کے کانوں تک پہنچ گیا سلطان نے اسی وقت کوتوال کو طلب کیا اور حکم صادر کیا قانون اور شریعت میں سب برابر ہوتے ہیں یہ میرا داماد ہے لیکن داماد کی حیثیت اسے قانون اور سزا سے نہیں بچا سکتی۔

شہزادے کو گرفتار کر کے ملزموں جیسا سلوک کیا جائے کوتوال نے حکم پر عمل درآمد کرتے ہوئے فوراً شہزادے کو گرفتار کر لیا، مقدمہ عدالت میں پیش ہوا، شہزادہ قاتل ثابت ہوا مگر قاضی نے وارثوں کو خون بہا لینے پر راضی کر لیا وارثوں نے سونے کی 25 اشرفیاں لیں اور راضی نامے پر دستخط کر دیئے قاضی نے شہزادے کی رہائی کا حکم دے دیا اور مثل مقدمہ اپنی سفارشات کے ساتھ حتمی منظوری کے لیے سلطان کو بھجوا دی سلطان نے مثل ملاحظہ کی تو قاضی کے فیصلے پر شاہی قلم پھیر کر لکھا بے شک مقتول کے وارثان خون بہا وصول کر چکے اس سے قانون اور شریعت کے تقاضے بھی پورے ہو گئے مگر میں سمجھتا ہوں کہ میرے داماد کی وجہ سے ورثا کو خون بہا لینے پر مجبور کیا گیا۔ ورثا بھی جانتے ہیں کہ وہ بے بس اور غریب ہیں اور اُن کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارا نہیں کہ وہ شہزادے کو معاف کر دیں چنانچہ میں اس فیصلے کو اخلاق کی نہج پر رکھ کر ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں۔

Hanging

Hanging

مجھے معلوم ہے کہ میرا داماد پھانسی لگ گیا تو جوانی میں میری بیٹی بیوہ ہو جائے گی لیکن میں بیٹی کی خوشی پر ایک غریب کی جان قربان نہیں کر سکتا۔ مجھے یقین ہے کہ میرے داماد نے شاہی گھمنڈ میں آ کر مزدور کو قتل کیا تھا اور اگر میں نے اسے معاف کر دیا تو ملک کے تمام شہزادوں اور رئوسا کو ڈھیل مل جائے گی اور یہ لوگ قتل کریں گے اور 25 اشرفیاں دے کر ان کی جان چھوٹ جایا کرے گی جس سے انارکی پھیلے گی۔ میں یہ ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ میری ریاست کے ایک شہری کی جان سونے چاندی کی کروڑوں اشرفیوں سے زیادہ قیمتی ہے قانون کی نظر میں مجرم صرف مجرم ہے چاہے وہ شہزادہ ہو یاعام انسان ۔ چنانچہ میں قاضی کا فیصلہ منسوخ کرتا ہوں اور حکم جاری کرتا ہوں کہ نہ صرف قاتل کو تختہ دار پر لٹکایا جائے بلکہ عبرت کے طور پر سارا دن اس کی لاش چوراہے میں لٹکائی جائے تاکہ آئندہ اس سلطنت کے کسی بھی بااثر شخص کو کسی بے گناہ کی جان لینے کی جرات نہ ہو سلطان کا حکم جاری ہونے کے بعد محل کے اندر سے بے شمار لوگوں نے شہزادے کی جان بخشی کی سفارشیں کیں مگر سلطان نے تمام رد کر دیں اور اپنا فیصلہ تبدیل کرنے سے صاف انکار کر دیا یہاں تک کہ شہزادے کو پھانسی دے دی گئی۔ سلطان احمد شاہ کے اس فیصلے کی کاپی اس وقت بھی لندن کے عجائب گھر میں موجود ہے اور دُنیا جہاں کے مؤرخین اور قانون کے طالب علم اس شو کیس کے ساتھ کھڑے ہو کر بڑے فخر سے تصویر بنواتے ہیں اورسیلوٹ کر کے شاہ کے فیصلے کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔

قارئین ! اس واقعہ کی روشنی میں یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ دنیا کے ہر ملک کو قانون اور انصاف کے عملی نفاذ کے لیے ایک شہزادے کی لاش درکار ہوتی ہے اور جو ریاست تاریخ کو یہ لاش دے دیتی ہے وہاں انصاف قائم ہو جاتا ہے اور جو ریاست اپنے شہزادوں کے جرائم پر استثنیٰ کا پردہ ڈال دیتی ہے اس میں قانون ہزیمت سے منہ چھپاتا پھرتا ہے آپ دنیا کی تمام انصاف پسند قوموں کی تاریخ کا پروفائل نکال کر ملاحظہ کر لیں آپ کو ان میں کسی نہ کسی ولی عہد ، کسی نہ کسی شہزادے یا کسی نہ کسی وزیر کی لاش ملے گی۔ آپ موجودہ دور کی جدید ترین قوم امریکہ کو دیکھ لیں انصاف اور قانون کی عملداری قائم کرنے کے لیے رچرڈ نکلسن سے استعفیٰ لیا جاتا ہے اور بل کلنٹن کا مواخذہ کیا جاتا ہے۔ دنیا کی دس ہزار سالہ تاریخ بتاتی ہے کہ جھوٹ کا نہ بولنا، انصاف کا قائم کرنا اور لین دین کے معاملات میں توازن قائم کرنا معاشروں کی وہ خصوصیات ہیں جو اُن کی بقا کو دوام بخشتی ہیں۔ قانون اور ضابطے ہمیشہ معاشرے اور ریاستیں بناتی ہیں اور جب تک حکمران اور اشرافیہ خود ان قوانین کی پُل صراط سے نہیں گذرتے عام لوگ ان قوانین اور ضابطوں کو سنجیدہ نہیں لیتے۔

حکمران صرف اراکین پارلیمنٹ، وزراء ، مشیروں اور شہزادوں پر قانون نافد کر دیں تو پورے ملک میں خود بخود امن قائم ہو جاتا ہے مگر افسوس جب ہم اپنے ملک کو دیکھتے ہیں کہ ہر قانون ساز قانون توڑنے کے عمل کو اپنا استحقاق گردانتا ہے اور قانون ان کے لیے موم کی ناک بن کر رہ گیا ہے۔ ہمارے اراکینِ اسمبلی، وزراء اور ہمارے حکمران خود کو قانون اور انصاف سے بالا تر سمجھتے ہیں اور لوگوں نے بھی اپنی نفسیات بدل لی ہیں اور ان کے اس استحقاق کو سرتسلیم خم کرتے ہوئے مان لیا ہے اور اب لوگ ان سے قانون توڑنے، خود کو قانون سے ماوراء سمجھنے اور انصاف کو پاؤں تلے روندنے کی ہی توقع کرنے لگے ہیں اور جب قوموں اور معاشروں میں اس طرح کی لغویات عام ہو جائیں اور معاشرے کے سارے بااثر افراد خود کو حدود و قیود سے آزاد سمجھنا شروع کر دیں اور کوئی بھی سلطان بننے کے لیے تیار نہ ہو تو پھر سمجھیں کہ یہ معاشرے کی ٹوٹ پھوٹ کے ارتقائی مراحل ہیں جو آگے چل کر اس کی مکمل تباہی کا باعث بنیں گے اور اس طرح کے سگنل حکمران کے لیے لمحہ فکریہ ہوتے ہیں۔

Ch Ghulam Ghaus

Ch Ghulam Ghaus

تحریر: چوہدری غلام غوث