کراچی کو آزاد ہونے دو

Karachi

Karachi

تحریر : چوہدری ذوالقرنین ہندل
پیارے کراچی کو آزاد ہونے دو
ختم لقب بھائی الطاف ہونے دو

جی ہاں مہربانی کرو میرے وطن کے سیاستدانوں اور دانشورو اب تو کراچی کو آزاد ہونے دو۔آزاد ہونے دو میرے وطن کے شہر کراچی اور اس میں رہنے والے بہن بھائیوں کو ۔آزاد ہونے دو انہیں الطاف نام کے خوف سے متحدہ کے خوف سے ٹارگٹ کلنگ کے خوف سے بھتے کے خوف سے۔آزاد ہونے دو انہیں لفظ مہاجر سے ۔وہ پاکستانی ہیں اور محب وطن پاکستانی ہیں۔آزاد ہونے دو انہیں جان و مال کے خوف سے ۔آزاد ہونے دو انہیں بے وجہ کی پابندیوں سے۔آزاد ہونے دو انہیں دن و رات کی فضول تقریروں و جلسوں سے ۔انہیں آزادی سے زندگی بسر کرنے دو ۔پاک آرمی نے انکی آزادی کا مشن شروع کیا ہے تو اسے پایا تکمیل تک پہنچنے دو۔متحدہ کے قائد نے اپنی بربادی کو خود چنا ہے تو اسے اسکی جماعت کو برباد ہونے دو ۔سلگتی چنگاری کو سلگتا نہ چھوڑو نہیں تو دوبارہ آگ بڑھک اٹھے گی۔

کراچی قائد اعظم محمد علی جناح کا شہر۔ وہ شہر جو پاکستان کا سب سے پہلا کیپیٹل تھا۔پاکستان کا سب سے بڑا شہر بلکہ دنیا کے کئی ممالک سے بھی بڑا شہر کراچی ۔پاکستانی تجارت کا مر کز کراچی۔اردو ادب سیاست صحافت موسیقی اداکاری اور کھیل سے وابستہ کئی عظیم ناموں کا تعلق کراچی سے ہے۔پاکستان کا دل ہے کراچی بلکہ جند جان ہے کراچی۔افسوس کہ پاکستان کے اس پیارے شہر کو دشمن عناصر تاریکی کی طرف دھکیلتے رہے۔اور پورا پاکستان تماشائی بنا رہا۔آخر کیوں؟ کیا ہم بے حس ہیں؟۔کیا یہ دہرا معیار نہیں؟ ہم خود کو پاکستانی کہتے ہیں مگر کبھی پاکستانیت کو سمجھا ہی نہیں۔قائداعظم محمد علی جناح کا پاکستان جو ون یونٹ تھا۔نہ سندھی نہ بلوچی نہ پٹھان نہ پنجابی سب سے پہلے پاکستانی پاکستان اور پاکستانیت۔تاریخ گواہ ہے کہ متحدہ کے قائد الطاف حسین کے ملک خلاف بیانات پہلی دفعہ منظر عام پر نہیں آئے بلکہ اس سے پہلے بھی متعدد بار وہ پاکستان کو کھوکھلا کرنے کی کوشش میں زبان درازی کرتا رہا۔سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ وہ بار بار ملک کے خلاف غلط الفاظ اگلتا ہے۔

Treason

Treason

کیا کوئی اسے روکنے والا نہیں؟۔ آپ سب کو اپنے بچپن کے دن تو یاد ہوں گے کوئی ایک غلط کام کرنے پر اتنی سرزنش ہوتی کہ دوبارہ کوئی غلط کام انجام نہ دیتے بلکہ جرئات ہی نہ ہوتی۔ذرا سوچئے ایک ملک دشمن بار بار ملک کے خلاف بولتا ہے اور اسے کوئی روکنے والا ہی نہیں ۔آخر کیوں؟ ماضی میں اگر سخت ایکشن لیا ہوتا تو بار بار ایسے الفاظ سے ملکی عزت مجروح نہ کرتا۔آخر کوئی تو خامی ہے ہمارے اندر ہماری حکومتوں کے اندر ہماری تنظیموں کے اندر؟۔آخر کوئی تو عنصر ہے ؟جس کی جڑیں پاکستان میں مضبوط ہیں مگر وہ پاکستان سے مطابقت نہیں رکھتا۔بہت افسوس سے کیا یہ مسلمانوں کا وطن ہے؟ ۔کیا ہم پاکستانی ہیں؟۔کیا مسلمانوں کی قومیں بھی غدار ہوتی ہیں؟۔کیا ہم پاکستانیوں پر غداری کی مہر لگانے جا رہے ہیں؟۔

یہ کیا ہے اور کیوں ہے؟۔ہمیں سوچنا ہوگا ۔بیرونی سازشوں کو سمجھنا ہوگا۔ہر شخص کو بذات خود سوچنا ہوگا کہ وہ پاکستانی کہلانے کے لائق ہے کہ نہیں۔بالکل نہیں نہ ہی ہم مسلمانی پر نہ ہی پاکستانیت پر پورا اترتے ہیں۔کوئی ہماری شناخت ہمارے مذہب ہماری ثقافت حتہ کہ ہمارے مکمل وطن پر قابو پانے کی کوشش کر رہا ہے۔ہمیں یہ سب روکنا ہوگا اور اپنے مذہب کو اپنے پاکستان کو خود آگے لے کر چلنا ہوگا کوئی فرشتہ اتر کر بیرونی سازشوں سے نہیں بچائے گا۔جی کراچی پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی شروع سے ہی جاگیرداروں کے قبضے میں رہا پھر الطاف بھائی او جاگیر دارا اور مہاجر کا نعرہ لگا کر بڑے منظم طریق سے کراچی پر راج کرنے لگا۔الطاف راج بعد ازاں اپنے اصل مقاصد پر آ پہنچا کراچی کو ایک سوچے سمجھے اور بڑے منظم منصوبے کے تحت آہستہ آہستہ کھوکھلا کرنا شروع کر دیا ۔وقت گزرا کراچی کی زندگی اجیرن بن گئی۔

Altaf Hussain

Altaf Hussain

الطاف کا حامی ہی خوش رہنے لگا ۔باقی سب بھتہ کی زد میں آنے لگے۔الطاف نے بہت مضبوط عسکری ونگ قائم کیا۔جو جب چاہتا کراچی کے حالات خراب کرتا۔الطاف نے اپنے مقاصد کے لئے کراچی کو استعمال کیا بعد ازاں لندن میں بیٹھ کر رموٹ کے زریعے کراچی چلاتا رہا ۔جب دل چاہا کراچی میں بد امنی پھیلا دی جب دل چاہا قتل و غارت۔اسی دوران الطاف کے اپنی ساتھی بھی اس کے خلاف بولنا چاہے مگر انجام موت پائی ۔یوں الطاف راج اور الطاف بھائی نام کا خوف لوگوں کے دلوں میں گردش کرتا ۔کراچی میں تاجر اور دوسرے لوگ دوسرے شہروں اور ملکوں میں ہجرت پر مجبور ہوگئے۔کاروبار تباہ لوگ بھتے کے ڈر سے کراچی چھوڑکر جاتے رہے۔بوری بند نعشیں دن و رات میں قتل و غارت کی واردات عام ہو گئیں۔کراچی بھائی کے خوف میںگردش کرنے لگا۔اتنا سب کچھ ہوتا رہا کئی سالوں سے الطاف راج قائم ہے۔ایسے میں ہماری حکومتیں اور ادار بے بس نظر آئے۔الطاف کو خوش کرنے کے لئے ہماری حکومتیں اپنے نمائندگان مقر رکرتی رہیں۔مثال رحمان ملک۔یوں ایک لمبا عرصہ کراچی اور اس کے لوگوں کو الطاف حسین مہاجر کے نام سے بے وقوف بناتا رہا۔اور ایک عرصہ کراچی خوف کی گرفت میں قید رہا۔رینجرز نے اس کو خوف کو کم کیا اور مزید کم کرنے کی کوشش میں ہے۔گزشتہ الطاف کے رینجرز کے خلاف اور پاکستان کے خلاف بیانات نے مزید عیاں کر دیا ہے کہ الطاف حسین کٹر پاکستانی دشمن ہے اور رینجرز اس دشمن کی راہ میں رکاوٹ۔رینجر اہلکار اس بیان کے بعد سختی سے متحدہ کے خلاف ایکشن لے رہی ہے۔تو کئی سیاستدانوں اور دانشوروں کو برا لگ رہا ہے۔

افسوس کہ ملک دشمن کے خلاف کاروائی پر بھی ہماری قوم متحد نہیں۔بہت سے سیاستدانوں اور تجزیہ کاروں کے بیانات سن کر افسوس ہوا کہ متحدہ کو چلنے دو اس کے کارکنوں کو گرفتار نہ کرو۔ایسا بہت پہلے ہو جانا چاہئے تھا۔آج ہم کشمیر کے معاملے میں مضبوط ہیں تو ایسے بیانات الطاف کی طرف سے کراچی میں بد امنی پھیلانے اور پاکستان کی توجہ کشمیر سے کراچی پر ڈیورٹ کرنے کی کوشش ہے۔ کہیں دوبارہ ایسی سازش نہ ہو جائے۔ اگر متحدہ کو قائم رکھنا چاہتے ہو تو الطاف کا نام ہمیشہ کے لئے پاکستان اور متحدہ سے ختم کر دو اگر ایسا نہیں کر سکتے تو متحدہ ہی ختم کر دو۔تا کہ دوبارہ کراچی میں بد امنی اور دشمنوں کی زبان کوئی بھی نہ بھول سکے۔ایک عرصہ کراچی خوف کی گرفت میں رہا اب آزادی چاہتا ہر خوف سے۔خدارا اب آزاد ہونے دو۔سلگھتی چنگاری کو سلگھتا ہوا چھوڑو گے تو وہ دوبارہ آگ بن جائے گی ۔اب قائد الطاف بھائی کی چنگاری کو ہمیشہ کے لئے راخ کر دو۔لندن حکومت کبھی بھی الطاف آپ کے حوالے نہیں کرے گی ۔ہمارے اداروں کو خود ہی ایکشن لینا ہوگا۔ پرانی متحدہ سے الطاف مائنس ناممکن ہے ۔متحدہ پاکستان کے نام سے کوئی نئی پارٹی قائم کرنا ضروری ہے۔یا پی ایس پی میں ضم کر دو۔

سلطان جی کچھ تو یہاں کیجئے
غداروں کو بھی کوئی سزا دیجئے

Zulqarnain Hundal

Zulqarnain Hundal

تحریر : چوہدری ذوالقرنین ہندل