کراچی میں آخر کب تک لہو کی ندیاں بہتی رہے گی

Blood

Blood

تحریر: مجیداحمد جائی
کراچی جو کبھی روشینوں کا شہر کہلاتا تھا۔اب ہر سوں خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے۔سڑکیں سنسان ہیں۔ لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہنے لگے ہیں۔معشیت کا پہہ جام ہو کر رہ گیا ہے۔کاروباری لوگ بڑی خوشی سے یہاں کاروبار کرتے تھے اب بیرون ملک جا کر تجارت کر رہے ہیں۔دشمن سازشیں کر رہا ہے اور کامیاب بھی ہو رہا ہے۔ہم خاموش تماشائی کی طرح تماشا ہی دیکھ رہے ہیں۔ دہشت گرد آزادانہ پھرتے ہیں اور جہاں چاہتے ہیں دہشت پھیلا دیتے ہیں۔خود کش حملے کرواتے ہیں۔ایک وقت تھا بوری بند لاشوں کے گفٹ ملتے تھے مگر جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں میں بھی جدت آگئی ہے۔بوری بند لاشوں کا سلسلہ جاتا رہا اب تو چلتی بسوں کو بیچ سڑک روک کر فائرنگ کر کے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے اور ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے۔کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔

دشمن ہمیشہ سازش کر کے روڑے اٹکاتا رہتا ہے۔ایک بار دشمن پھر اپنی سازش میں کامیاب ہو گیا ہے۔دن ڈیہاڑے اسماعیلی زئرین سے بھری بس کو بیچ سڑک روک کر 45افراد کوموت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔معصوم لوگوں کا جرم صرف یہ تھا کہ امن پسند پاکستانی تھے۔ستیاناس ہو ان دہشت گردوں کا ،جہنوں نے عائشہ منزل کی طرف جاتی بس کو نشانہ بنایا اور مردوں عورتوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔میرے وطن میں شر پھیلا کر ہمیں لڑانا چاہتے ہیں۔عالمی سطح پر پاکستان کا امیج خراب کرنا چاہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پوری دُنیا میں سب سے زیادہ دہشت گرد پاکستا ن میں ہو رہی ہے۔یہ حملہ عین اس وقت کیا گیا ہے جب پاکستان میں کرکٹ کے میدانوں میں رونق آنے والی تھی۔زمبابوے کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے کی تیاری کر رہی تھی۔دشمن اپنے ہتکھنڈنوں میں کامیاب ہو گیا۔اس حملے کے بعد زمبابوے کا دورہ منسوخ ہو گیا ہے۔ایک اُمید کی کرن پھوٹی تھی۔اب اُداسی کے بادل ہر سوں چھا گئے ہیں۔

Terrest

Terrest

سوال یہ اُٹھتا ہے یہ درندے ہمارے ملک میں آزادانہ کیسے گھومتے پھرتے ہیں۔ یہ تربیت کہاں پا رہے ہیں۔؟یہ جو ہر سوں خوف و ہراس پھیلا رہے ہیں۔ کم از کم انسان تو نہیں ہیں۔انسانی روپ میں شیطان پھرتے ہیں۔سوچ طلب بات تو یہ ہے خفیہ ایجنسیاں پہلے سے خبردار بھی کردیتی ہیں۔پھر بھی ہم کچھ نہیں کر سکتے۔آخر کیوں؟کیا ہم نے کبوترکی طرح خطرے کی گھنٹی بجتے ہی آنکھیں بند کرنا سیکھ لی ہیں۔پوری قوم غم دیدہ ہے اور حکمران ہلاک ہونے والے ہر افراد کے لئے پانچ پانچ کا اعلان کر کے سکون فرما رہے ہیں۔ادھر خبر آتی ہے ادھر پانچ پانچ لاکھ کا اعلان جاری ہو جاتا ہے۔خداراہ اس روش سے نکل کر حکمت عملی کا مظاہرہ فرمائیں۔جذبے سے سرشار پاک افواج موجود ہے۔پولیس کے جانباز ہیں۔پاکستان کی عوام آخر کب تک قربانیاں دیتی رہے گی۔اقتداری جلسہ ہو،عید تہوار ہو،مرنا عوام ہی کو ہے۔

پشاور میں بچوں کے اسکول پر حملہ آور فوجی وری میں ملبوس تھے اور اب کراچی میں بس پر حملے کرنے والے پولیس کی وردی میں تھے۔کیا ایسی وردی کی فروخت پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔سرکاری لوگوں کے علاوہ عام لوگوں کو فروخت نہ کی جائے۔دوسری بات ہماری سرحدیں محفوظ ہیں،جگہ جگہ سیکورٹی موجود ہے،پھر دہشت گرد شہروں میں کیسے داخل ہو کر لوگوں کونشانہ بنا جاتے ہیں۔خداراہ ،بہت ہو گیا،اب ایک دوسرے کی ٹانگیں کھنچنے کی بجائے عوام کو دہشت گردوں سے بچائیں۔ملک میں امن کی فضا قائم کریں۔ہر چہرے سے اداسی کے بادل جھٹ جائیں۔میرے وطن کامعشیت کا پہہ پہلے کی طرح چلنے لگے،مہنگائی کا طوفان تھم جائے۔بہت ہوگیا ،اب سوچنے کا وقت نہیں کچھ کرنے کا وقت ہے۔کچھ کیجیئے ۔یہ وطن آخر کب تک لہومیں نہاتا رہے گا۔کراچی میں آخر کب تک لہوکی ندیاں بہتی رہے گی۔آخر کب تک؟

Majeed Ahmed

Majeed Ahmed

تحریر: مجیداحمد جائی