معروف تعلیم داں پروفیسر ڈاکٹر عزیز الرحمن کا انٹرویو

 Interview of Dr Aziz ur Rehman

Interview of Dr Aziz ur Rehman

تحریر : حفیظ خٹک
سوال :پروفیسر ڈاکٹر عزیز الرحمن صاحب، آپ نے تعلیم کہاں سے حاصل کی اور حصول علم کے بعد کہاں کہاں خدمات اب تک سرانجام دی ہیں؟ پروفیسر ڈاکٹر عزیز الرحمن:میں نے مختلف تعلیمی اداروں سے اکتساب فیض کیا ۔ جامعہ خیر العلوم خیر پور، جامعہ فاروقیہ اور بہاولپور کی اک جامعہ سے علم حاصل کیا، دورہ حدیث اور درس نظامی کی جامعہ فاروقیہ سے کرنے کے بعد جامعہ کراچی سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ دعوہ اکیڈمی، بین الاقوامی یونیورسٹی وہ واحد ادارہ ہے جس سے وابستگی ہوئی اور دعوہ اکیڈمی کراچی کے کیمپس میں جو کہ ریجنل دعوہ سینٹر کے نام جانا جاتا ہے اس میں ایک نگراں کی حیثیت سے وابستگی ہے ۔ اس سرکاری ادارے کی ذمہ داری کے علاوہ نجی طور پر ایک علمی ، تربیتی اور تحقیقی ادارہ بھی قائم کیا گیا ہے جس کے ساتھ اعزازی وابستگی ہے ۔ اس ادار ے کے متعلق یہ بھی بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ ادارہ میرے والد صاحب سید فضل الرحمن کی زیر سرپرستی قائم ہوا۔ اس کے ساتھ ان دنوں سید زوار حسین اکیڈمی (وقف) کراچی ٹرسٹس کیلئے سیکریٹری، کتابی سلسلہ تحقیقات حدیث کا مدیر اعلی، علمی، دینی و تحقیقی مجلہ ماہنا مہ تعمیر افکارکا مدیر کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھا رہا ہوں۔

سوال :دعوہ اکیڈمی بین الاقوامی یونیورسٹی کے اعراض و مقاصد کے ساتھ اس کی حالیہ کارکردگی سے متعلق بھی بتائیں؟ پروفیسر ڈاکٹر عزیز الرحمن : دعوہ اکیڈمی بین الاقوامی یونیورسٹی میں مختلف نوعیت کے تربیتی پروگرامات کا انعقاد ہوتا ہے ۔ جن میں اساتذہ ، صحافی خضرات ، اہل قلم ، باصلاحیت نوجوانوں و طلبہ سمیت دیگر طبقہ زندگی کے افراد کے ساتھ مرد و خواتین کے لئے قرآن و حدیث اور فہم اسلام کے حوالے سے مختلف پروگرامات کئے جات ہیں ۔ تمام پروگرامات و تقریبات مکمل طور پر غیر سیاسی ، غیر فقہ ، اور غیر مسلکی ہوتے ہیں جن میں اسلام کی روح کو پیش کیا جاتا ہے ۔ ان پروگرامات میں تمام مکاتب فکر کو بلا تخصیص مدعو کیا جاتا ہے ۔ انہی وجوہات کے سبب اس یونیورسٹی کو ملکی اور بین الاقوامی طور پر اعتماد ،اعتبا ر اور استناد حاصل ہے۔

 Interview of Dr Aziz ur Rehman

Interview of Dr Aziz ur Rehman

سوال:ڈاکٹر صاحب آپ نے پی ایچ ڈی کیلئے تحقیق کے عنوان کو ہی کیوں منتخب کیا ، وضاحت کریں گے؟ پروفیسر ڈاکٹر عزیز الرحمن : پی ایچ ڈی کیلئے تحقیق ہی میرا عنوان تھا ، خطب النبی الامی صلی اللہ علیہ وسلم۔ میری یہ تحقیق مجموعی طور سات ابواب پر مشتمل ہے پہلے دو ابواب میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فصاحت ، بلاغت اور خطابت کے کے حوالے سے مباحث شامل ہیں جبکہ دیگر پانچ ابواب میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبات کے متون کو جمع کیا گیا ہے۔ اس کام میں محص روایات کو جمع نہیں کیا گیا بلکہ صحت متن، اختلاف طرف اور مشکل الفاظ و ماقامات کی بھی وضاحت کی گئی ہے ۔ جس طرح ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی کتاب مجموعہ الوثائق اسیاسیتہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مکاتیب کا اہم ترین اور غالب حصہ جمع ہوگیا ہے اسی طرح ہمارے اس کام میں الحمد اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبات کا بڑا حصہ ئکجا ہوگیاہے ۔ والد صاحب 1990سے سیرت کے مختلف موضوعات پر کام کر رہے ہیں ۔ انہی کے مطالعہ ذوق نے سیرت کی جانب متوجہ کیا پھر پی ایچ ڈی کے لئے عنوان کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو والد صاحب اور استاد محترم ڈاکٹر عبد الشہید نعمانی کے اس موضوع کا مشورہ دیا ، یوں اس موضوع کا چناؤ ہوا اور اسی جانب خدمت کیلئے متوجہ ہوا۔

سوال:کیا وطن عزیز میں ماہرین سیرت کی کمی ہے اگر ایسا ہے تو اس کی کیا وجوہات ہیں ؟ پروفیسر ڈاکٹر عزیز الرحمن : موجودہ دور میں سیرت پر افراد نے ازخود کام کیا جبکہ اس حوالے سے اداروں نے کوئی کام نہیں کیا ۔ ملک کے حکمرانوں سمیت مذہبی جماعتیں سیکولر ازم کو قبول کر چکے ہیں ۔جس کے بعد سے مساجد صرف سجدوں کیلئے ، گھر و دفاتر کو سیکولر ازم کے مطابق گذارا جارہا ہے ۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ عملی طور سیکولرازم کو قبول کر لیا گیا ہے ۔ یہ کہنا درست نہیں کہ صرف پاکستان میں ماہرین سیرت کی کمی ہے بلکہ عالم اسلام میں ، ہمیں اس کی کمی کا احساس ہوتاہے ۔ پاکستان اور ہندوستان میں ہونے والے کاموں پر نظر ڈالی جائے تو متعدد کام ایسے ہوئے جو کہ انفرادیت اور امتیاز کے حامل ہیں ۔ کمی کے معاملے پر غور کرنے سے یہ باتیں سامنے آئی ہیں کہ طویل عرصے سے علمی سطح پر پورے عالم اسلام میں رجال کے قحط کی سی صورتحال ہے جس سے ہر موضوع کے ماہرین کی کمی ہوئی ہے اسی کے اثرات سیرت طیبہ پر بھی پڑے ہیں ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم طرح طرح کے تعصبات کا شکار ہوئے جس سے ہماری تخلیقی صلاحیتوں میں بھی کمی ہوئی ہے۔

 Interview of Dr Aziz ur Rehman

Interview of Dr Aziz ur Rehman

سوال:مسلمانوں میں سیرت سے آگاہی کا شعور کیسے بیدارکیا جاسکتا ہے ؟ پروفیسر ڈاکٹر عزیز الرحمن :پاکستان میں شرح خواندگی شرمندگی کی حد تک کم ہے اور کتب بینی کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے ۔ مذہبی و سیکولر تعلیمی اداروں میں سیرت طیبہ کو بطور سبق پڑھانے کا کہیں اہتمام نہیں ہے۔ چند جامعات میں ضمنا سیرت پڑھائی جارہی ہے تاہم وہاں پر تربیت یافتہ اساتذہ کے نہ ہونے کے سبب وہ ادارے مثبت نتائج دینے سے قاصر ہیں ۔ اس کے ساتھ کچھ دیگر جامعات میں سیرت اسٹڈیز پر اعلی تعلیم کا آغاز ہوا ہے ، سیرت کے حوالے سے ضرورت کا کچھ احساس علمی اور تعلیمی حلقوں میں نظر آنے لگا ہے ، خدا کرئے کہ ان کے مثبت نتائج سامنے آئیں اور ہم صحیح معنوں میں برکات سیرت کا علمی ، فکری ، علمی و نجی سطح پر بھی متمتع ہوسکیں ۔اس وقت بھی موجودہ صوررتحال میں فن سیرت نگاری کی جانب گامزن ہیں۔یہ بھی واضح رہے کہ سیرت کی 800کتابیں عربی میں موجود ہیں اوردس ہزار سے زائد کتابیں قومی زبان اردو میں میں بھی موجود ہیں ۔

سوال :موجودہ دور میں مغربی ممالک میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخیاں بہت بڑھ گئیں ہیں ، اس حوالے سے آپ کیا کہیں گے ؟ پروفیسر ڈاکٹر عزیز الرحمن: مغرب اک طے شدہ ایجنڈے پر کام کر رہا ہے ۔ اسلام کے حوالے سے مغرب کے پالیسی ساز وں کا ذہن صاف ہے ۔ تہذیبی تصاد کی بات مخص کسی موہوم خطرے کی نشاندہی نہیں تھی بلکہ وہ ان کے ایجنڈے کا حلفوف اعلان تھا ۔ اسلام ان کے لئے واضح خطرہ ہے۔ لہذا اسلام کو نت نئے اندازسے نشانے پر رکھنا ان کی طے شدہ پالیسی ہے۔ انہیں ہر مسلمان کی صورت میں اک دہشت گرد نظر آتا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ہمارے غیرمحتاط رویوں نے بھی اسلام کی روشن صورت کو دھندلانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ۔ مغرب جانتا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ مرکزی نقطہ ہے جو کہ امت مسلمہ کو امت وحدی کی شکل دیتا ہے ۔ اس لئے وہ اس مرکز کو ہدف بنانا چاہتے ہیں ۔ ہماری کوتاہیاں اپنی جگہ مگر مومن کا ایمان آخری درجے پر بھی ہو تب بھی مغرب اپنے اس ایجنڈ ے میں کامیاب نہیں ہو سکتا ،ان شاء اللہ۔

International Islamic University Islamabad

International Islamic University Islamabad

سوالآآپ کے خیال میں مطالعہ سیرت کو کس طرح بڑھاتے ہوئے اسے تحریک کی صورت میں لایا جاسکتا ہے؟ پروفیسر ڈاکٹر عزیز الرحمن :مطالعہ سیرت کو بڑھانے کا کام ہی دراصل کام ہے ۔ مگر سب سے پہلے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی وابستگی کو تمام دیگر تعلقات پر عملا فوقیت دینا ہوگی۔ پھر ہر سطح کے لوگوں کیلئے دروس ، سیمینار ، کورسسز ، ورکشاپ اور کانفرنسوں کا انعقاد کرنا ہوگا ۔ یہ سب کام ایک بڑے کام و عزم کو مدنظر رکھتے ہوئے انجام دینے ہونگے ۔ مقاصد کے حصول کیلئے مخص نشست برائے نشست یا برائے تشہیر کے رویوں سے دامن کو بچانا ہوگا ۔ ایسا کرنے سے ہی ہمیں منزل حاصل ہوسکتی ہے۔

تحریر : حفیظ خٹک
hafikht@gmail.com