میڈیا نیلسن منڈیلا بن سکتا ہے!!

Media

Media

تحریر : قادر خان افغان
کراچی ایکسپو سینٹر میں ہونے والی دفاعی نمائش آئیڈیاز 2016 میں، 34 ممالک کے 418 ادارے اپنی دفاعی مصنوعات کی نمائش کریں گے ۔جس میں 43 ممالک کے 90 وفود شرکت کررہے ہیں۔ جب کہ نمائش میں سی پیک کی افادیت کو بھی اجاگرکرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے لئے خصوصی اسٹال قائم کیے گئے ہیں۔ 34 ممالک کی 418 فرمز نمائش میں اپنی مصنوعات پیش کریں گی ،مجموعی طور پر 261 غیرملکی اور 157 پاکستانی فرمز شریک ہوں گی۔ سن2000ء میں پاکستان نے” آئیڈیا ز انٹر نیشنل ڈیفنس ایکسبوزیشن “کا انعقاد کیا گیا تھا۔اب ہر دو سال بعد یہ ایونٹ پاکستان میں منعقد کیا جاتا ہے۔ “پاکستان ڈیفنس آئیڈیاز 2016،” جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا ایونٹ بنتا جارہا ہے۔ یہاں مقصد آئیڈیاز 2016کے حوالے سے اظہاریہ کا نہیں ہے بلکہ بھارت کو بتاناہے کہ شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپانے کے بجائے منہ اٹھا کر، دیکھے کہ پاکستان کو عالمی طور پر تنہا کرنے کے دعوی پر کیسا جھٹکا دیا ہے ، جو یقیناََ بڑے زور سے لگا ہوگا ۔ بھارت نے اپنے حواریوں کے ساتھ ملکر پاکستان کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈوے اور ملک میں امن و امان کے مسائل پیدا کئے۔

بلکہ ملک کے حساس ترین شہر کراچی میں اس عالمی نمائش کا پر امن انعقاد ، ملک دشمن عناصر و ملک دشمن ایجنسیوں کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے۔عالمی طور پر پاکستان کو تنہا کرنے کے بڑ بولے کیلئے یہ نمائش ،مودی کی انتہا پسند روح کو چھلنی چھلنی کر رہی ہوگی کہ 2014کی نمائش کے مقابلے میں اس بار 9نئے ممالک بھی اس اہم نمائش آئیڈیاز میںشرکت ہوئے ہیں۔ جس نے پاکستان کی اہمیت کو دوچند کردیا ہے کہ پاکستان ، عالمی طور پر بھارت کی جانب سے تمام تر کوششوں کے باوجود کامیاب ثابت ہوا ہے۔ جس ملک میں کسی ملک کی کرکٹ ٹیم کھیلنے نہیں آتی ، وہاں کراچی جیسے شہر میں آئیڈیا ز 2016کا انعقاد بڑی خوش آئند ہے ۔ اس کا سہرا یقیناََ پاکستان فوج کی سپہ سالار جرنیل راحیل شریف کی دہشت گردی کے خلاف مستحکم پالیسیوں کی وجہ سے جاتا ہے۔ کراچی کو امن کے قریب لانے کیلئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے قربانیوں نے دنیا بھر میں پیغام دیا کہ پاکستان دہشت گردی ، انتہا پسندی کے خلاف بھرپور کاروائیاں کررہا ہے۔

جرنیل راحیل شریف اپنے الوادعی دوروں میں مصروف ہیں ، تاحال اس بات کا اب امکان نہیں رہا ہے کہ جرنیل راحیل شریف ملازمت میں توسیع لیں گے ۔ یہ اداروں کو مستحکم بنانے کیلئے ضروری بھی ہے کہ جس جس اداروں کے منتظم اپنی ذمے داریوں کی مدت مکمل کرلیں تو سینارٹی کے حساب سے جس سنیئر کا حق بنتا ہے ، اس میں سیاسی رشتے داریاں ڈھونڈنے کے بجائے ، اداروں کے استحکام کے خاطر ریٹائرڈ ہونے والوں کیلئے عوام میں یہ تاثر نہیں پھیلایا جایا کہ اگر فلاں ذمے دار چلا گیا تو حالات پھر خراب ہوجائیں گے ۔ اس قسم کے تاثر سے ایک فرد نہیں بلکہ ادارے کے تمام ذمے داروں پر اعتماد نہ کئے جانے کا تاثر جاتا ہے۔

Raheel Sharif

Raheel Sharif

پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے مشیر ان کو یہی مشورہ دیں کہ اداروں میں سنیارٹی کو فوقیت دینے سے بد گمانیاں جنم نہیں لیں گی۔ کوئی بھی ادارہ کسی ایک فرد کے جانے سے ختم نہیں ہوجاتا ۔اسی طرح باعزت طریقے سے جرنیل راحیل شریف کی ریٹارڈمنٹ پر پاکستان کی عوام کو ان کو پرجوش خراج تحسین پیش کرنا چاہیے ۔ماضی کے مقابلے میں پاکستانی سیاست میں جرنیل راحیل شریف کو کئی ایسے مواقع ملے کہ نظریہ ضرورت کے تحت اقتدار سیاسی جماعتوں کی جانب سے با آسانی مل سکتا تھا ، اعلی عدلیہ تک ذہنی طور پر موجودہ حکومت کو بادشاہت قرار دے چکی تھی ۔ حکومت کے اداروں سے عوام کا اعتماد اٹھ چکا تھا ، حکومت گرانے کیلئے سیاسی کوشش بھی کیں گئیں ، لیکن فوج نے ایک بار پھر ایسی تمام کوششوں کو ناکام بنا دیا کہ سیاسی جماعتیں اپنے اختلاف ، عوام کی جانب سے دیئے گئے مینڈیٹ کے مطابق مذاکرات کے ذریعے حل کریں۔

تحریک انصاف اس بار خون کی ندیاں بہانے نکلی تھی ، لیکن اب ان کے سربراہ عوام سے دعا کرا رہے ہیں کہ ان کی قسمت اچھی نہیں ہے ، تیسری شادی کی کامیابی کیلئے دعا کریں ۔ شائد عمران خان نے سوچا ہوگا ، کہ وزرات عظمی کا تاج نہ سہی ، کسی سرتاج ہی بن جائیں ۔ کم ازکم تاج پہننے کی آرزو تو پوری ہوگی۔ پاکستان میں سیای انتشار کا فائدہ ہمیشہ ملک دشمن عناصر نے اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ کشمیر پر قومی یک جہتی پر تحریک انصاف نے مشترکہ پارلیمنٹ کی قرار داد میں شرکت کرنے کے بجائے ، بائیکاٹ کرنے کو ترجیح دی۔ جس سے بھارت نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور میڈیا میں پاکستان کے خلاف زبردست پروپیگنڈا کیا ۔عمران خان کے اس فیصلے کو پاکستان میں پسند نہیں کیا۔

اسی طرح جب عدلیہ نے پانامہ کیس کو سماعت کیلئے منظور کرلیا تو عمران خان نے فوراََ عدلیہ کے ثالثی کو منظور کرلیا ، لیکن جب شواہد کی بات آئی تو بقول عدلیہ الف لیلی کی داستان اٹھا لائے ۔ اعلی عدلیہ اتنی غصہ ہوئی کہ موقر اخبارات کو پکوڑے بیچنے کیلئے استعمال ہونے کاغذ قرار دے دیا ۔ ماضی میں حکومت کی تمام پالیسیاں اخبارات کے اداریوں پر ہی چلتی رہی ہیں ، بلکہ ترقی یافتہ ممالک اخبارات کی خبروں اور اداریوں سے ہی اپنی پالیسیوں کو ترتیب دیتا ہے۔ اخبارات کی خبر پر کئی بار یہی اعلی عدلیہ لاتعداد بار سو موٹو ایکشن لے چکی ہے۔ اس لئے یہ کہنا کہ اخبارات کی افادیت نہیں ہے تو یہ کہنا درست معلوم نہیں ہوتا ، کیونکہ اخبارات کے تراشے فائلوں میں سجا کر بیورو کریسی ، وزرا ء اور اسٹیبلشمنٹ کے سامنے فائلوں میں سرخ ، زرد ٹیگ لگا کر رکھے جاتے ہیں۔ الیکڑونک میڈیا کی اہمیت اپنی جگہ ہے ، لیکن الیکڑونک میڈیا کے تمام ٹاک شوز دیکھ لیں ، اور ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ریسلنگ دیکھ لیں ، ان دونوں میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوگا ۔مائیک کیمرا لیکر بغیر کسی اخلاقیات و حدود کا پاس کئے بغیر کسی کے گھر ، دفتر ، یا کسی بھی فرد کو آڑے ہاتھوں لے لینا اور بریکنگ نیوز کے نام پر جس طرح چِلاتے ہوئے سنسنی پھیلائی جاتی ہے ، اس سے مولاجٹ کے دور کی فلموں کا دور یاد آجاتا ہے۔

Media

Media

الیکڑونک میڈیا بھیڑ کی چال چلتا ہے ، کسی چینل نے ایک خبر دے دی تو تین دن تک تمام نیوز چینل اسی چورن کو بیچتے رہتے ہیں ، انوسٹی گیشن جرنلزم الیکڑونک میڈیا میں دور دور تک نظر نہیں آتا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ کشمیر کے معاملے پر پرنٹ میڈیا جتنا لکھتا ہے ، لاتعداد کالم شایع ہوتے ہیں ، الیکڑونک پرائیوٹ میڈیا اپنی روز کی نشریات میں دس منٹ بھی نہیں دیتا ، روایتی خبر ناموںمیں روایتی خبر چلا کر سمجھتے ہیں کہ انھوں نے بھارتی پروپیگنڈوں کا جواب دے دیا ۔ جس طرح سرحدوں پر پاک افواج ، بجھارتی در اندازیوں پر منہ توڑ جواب دے رہی ہے ، الیکڑونک میڈیا کو بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔’ میر ا ‘ کی شادی کی فکر جتنی الیکڑونک میڈیا کو تھی اتنی فکر مند تو شائد خود اداکارہ ‘ میرا ‘ کو بھی نہیں ہوتی تھی۔ صبح سویرے کی نشریات میں شادی شدہ جوڑوں کی شادیوں کا سلسلہ چل نکلا تو تمام چینل اسی ڈگر پر چل نکلے ۔ کم ازکم الیکڑونک میڈیا کو اس بات کی ضرورت ہے کہ پاکستان کا مورال بلند کرنے کیلئے ہر نیوز چینل ‘ کوک اسٹوڈیو ‘ کی طرح کسی مخصوص نغمے کا انتظار کرنے کے بجائے ، تاریخی حقائق کو ڈاکو منٹری کی شکل میں سامنے لائے۔

کئی کئی گھنٹوں کی بے معنی تقاریردیکھا دیکھا کر ناظرین کو بھارتی چینل کی جانب راغب کرنے میں ہمارے الیکڑونک میڈیا کا بہت بڑا کردار ہے۔بہرحال صحافت کو الیکڑونک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا یا سوشل میڈیا ، ملکی مفاد کے لئے استعمال میں لانے کیلئے میڈیا ہاوسز کے مالکان کو اپنے پرائم ٹائم سے کچھ وقت وطن عزیز کے لئے مختص کرنا چاہیے ۔ اقوام متحدہ پکوڑے کی فروخت کیلئے چھپنے والے اخبارات کو نہیں ، بلکہ الیکڑونک میڈیا سے مثبت مہم سے متحرک ہوگا ۔ ٹاک شوز میں ریسلنگ کراتے رہیں ، لیکن امت مسلمہ کے مسائل کو اجاگر کرنے کیلئے ذمے داری اٹھانا ہوگی ۔ مسئلہ صرف کشمیرکا نہیں ہے ، اقوام متحدہ کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کیلئے ، عراق ، شام ، یمن ، فلسطین ، ترکی ، مصر،لبنان، سعودیہ ، افغانستان اور خاص طور کشمیر ، روہنگیا سمیت بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کو الیکڑونک میڈیا میں بھی اجاگر کرنا ہو گا۔

عرب ہوں یا عجم ہوں ، ان کے کردار کو امت مسلمہ کی بیداری کے لئے سامنے لانا ہوگا ۔ یہ انتہائی ضروری ہے ۔ روایتی انداز اور طرز فکر ترک کرکے ہمیں اپنا پرائم ٹائم دینا ہوگا ، کیونکہ الیکڑونک چینل چھپتا نہیں ، اور نہ ہی اس کی خبر ایک دن کی ہوتی ہے کہ اس میں پکوڑے فروخت کئے جا سکیں ، بلکہ سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کے کونے کونے میں اسلام کا پر امن پیغا م پہنچایا جا سکتا ہے۔الیکڑونک میڈیا ہاوسز کے مالکان اخبار میں پکوڑے بھی نہیں کھاتے ، ورنہ کم ازکم یہ خوش فہمی ضرور ہوتی کہ کسی دن پکوڑے کھاتے ہوئے یہ اپیل پڑھ لیں کہ قوم کو آپ کی ضرورت ہے لیکن یاد رکھیں میڈیا نیلسن مینڈیلا بن سکتا ہے۔

Qadir Khan Afghan

Qadir Khan Afghan

تحریر : قادر خان افغان