میں کراچی سے اسلام آباد شفٹ ہو گیا

Karachi

Karachi

تحریر : میر افسر امان
دو سو سال سے زائد عرصہ گزرا کہ ہمارے بزرگ کشمیر کے راجہ کے مظالم کی وجہ سے ہجرت کر کے پنجاب کے علاقے ضلع اٹک کی تحصیل حضرو میں آباد ہو گئے۔ میں نے حضرو کے گورنمنٹ اسکول سے ١٩٦٣ء میں میٹرک پاس کیا۔ میری والدہ صاحبہ(مرحومہ) مجھے خاندان کے ایک کھاتے پیتے صاحب کے پاس نوکری کے لیے لے گئی۔ وہ صاحب حضرومیونسپل کمیٹی کے چیئرمین تھے۔ وہ میری والدہ سے کہنے لگے آپ کے بیٹے کو پولیس میں بھرتی کروا دیتا ہوں۔ دو برس بعد اسے اے ایس آئی بنوا دوں گا۔ میری والدہ نے ان سے کہا کہ نہیں میں اپنے بیٹے کو پولیس میں بھرتی نہیں کروائوں گی کیونکہ پولیس والے بڑے ظالم ہوتے ہیں۔ان صاحب نے مجھ سے معلوم کیا کہ کہاں نوکری کرنا چاہتے ہو۔ میں نے کہا کہ آپ مجھے بنک میں نوکر کروا دیں۔انہوں نے کہا کہ اگر بنک کی نوکری کرنی ہے تو پھر تمھیں کراچی جانا ہو گا۔ میں نے لڑکوں سے سن رکھا تھاکہ کراچی میں کئی میل لمبا ایک بندر روڈ ہے۔

ریوالی سینما ہے اور سمندر ہے وغیرہ۔میں فوراً تیار ہو گیا۔ہمارے رشتہ دارکا سندھ کے شہر سکھر لڑائیکی بازار میں سیٹھ دائودسیٹھ حسن دین کے نام سے نسوار کا کاروبارتھا۔میں١٩٦٣ء نصف صدی سے زیادہ عرصہ پہلے ایک دن حضرو سے نسوار سے بھرے ٹرک پر سوار ہو کر سکھر پہنچ گیا۔ دو دن سکھر میں گزارنے کے بعد تیسرے دن ایک رشتہ دار کے ساتھ رات دس بجے ریل گاڑی پر سوار ہو اور دوسرے دن کراچی پہنچ گیا۔ صدر میں سلاطین ہوٹل میںہمارے لیے کمرہ بک تھا۔ ایک دن ایک کوآپریٹو بنک، موتن داس بلڈنگ ،متصل میمن مسجد بندر روڈ ٹرینیی کلرک کے طور پر ١٠٠ روپے ماہوار پر ملازمت کا لیٹر مل گیا۔کچھ عرصہ بعد میں نے بنک کی نوکری چھوڑ دی۔ ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ١٥٠ روپے کی ملازمت مل گئی۔پھر ٣١ سال اسی ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازمت کی ١٩٩٩ ء میںریٹائرڈ ہوا۔ اب تک ریٹائرڈ لائف گزار رہا ہوں۔ میں نے

شوقیا کالم نگاری اختیارکی جواب تک جاری ہے اور انشا اللہ جاری رہے گی۔ جب میں کراچی آیا تو پہلی دفعہ سڑک پر ٹرام چلتی دیکھی۔ محمد علی ٹرام وے کی ٹرامیں بندر روڈ سے کینٹ ریلو ے ا سٹیشن، کیماڑی، سولجر بازار وغیرہ تک چلتی تھیں۔ ان ہی دنوں احمد رشدی گلوکار کا گانا” بندر روڈ سے کیماڑی میری چلی رے گھوڑا گاڑی بابو ہو جانا فٹ پاتھ پر” بڑا مشہور ہوا تھا۔اس وقت اور اب بھی کراچی غریب پرور شہرہے۔ دوپہر کے وقت ہم ایک آنے کی روٹی اور دال مفت کھایا کرتے تھے۔ اقبال روڈ میمن مسجد کے پاس کپڑا مارکیٹ کی فٹ پاتھ پر کچوری والے سے ایک روپے کی کچوریوں سے بھی پیٹ بھر جاتا تھا۔کبھی کبھی ریوالی سینما کے متصل گلی میں ایک روپے کے دال چاول سے بھی کھاتے رہے۔دوسری طرف مہنگے اور فائیو اسٹار ہوٹلوں میں پیسے والے لوگ مہنگے کھانے بھی کھاتے تھے۔کراچی منی پاکستان کہلاتا ہے۔ بندر گاہ انڈسٹری کی وجہ سے کراچی شہر میں پاکستان کے سارے علاقوں کے لوگ روزی کمانے کے لیے آتے تھے اور اب بھی آ رہے ہیں۔لوگ کراچی میں دن بھرنوکری اور کاروبار کے بعد اپنی فیملی کے ساتھ بے خوف و خطر کھانے پینے کی دکانوں پر جاتے تھے ۔ چھوٹی بڑی جگہوں کے علاوہ، بندر روڈ پر بندو کے کباب بہت مشہور تھے۔ سیر گاہوںمیں چڑیا گھر،کیماڑی،قائداعظم کا مزار اور ہل پارک بہت مشہور تھے۔ پورا شہر روشنیوں سے جگمگا تا رہتا تھا۔ غریب پرور شہر کے بعد کراچی روشنیوں کا شہر بھی مشہور ہو گیا۔ منی پاکستان اس لیے مشہور ہوا کہ کراچی میں بھارت سے ہجرت کر آنے والے کے ساتھ پٹھان،پنجابی،بلوچ، سندھی، کشمیری اور گلگتی بھی جوق در جوق اس شہر میں روزی کمانے کے لیے آتے رہے۔ ہجرت کر کے آنے والوں مہاجروں کی آباد کاری مقصود تھی اس لیے کراچی میں کالونیاں، جیسے پاکستان کواٹر،جمشیدکواٹر، لالوکھیت، ڈرگ کالونی ، ملیر کالونی ،نظام آباد وغیرہ بنائی گئیں۔ ان کالونیوں میں سڑک،سوریج، پانی، بجلی اور گیس کا انتظام کیا گیا۔جبکہ اندرون ملک سے آنے والے ایسی جگہوں پر

آباد ہونے لگے جہاں پر ایسے انتظامات نہیںتھے۔یہ آبادیاںندی نالوں پر آباد ہوئیںجوکچی آبادیاں کہلائیں۔ بعد میں بجلی ،پانی،گیس ، سوریج اور سڑک ان آبادیوں میں مہیا ہو گئیں اور ایک ایک کر کے ان کو حقوق ملکیت بھی دے دیے گئے۔ ساری قومیں آپس میں شیر وشکر کے ساتھ کراچی میں رہتی تھیں۔کراچی کے یہ سارے لوگ مل جل کرکراچی کو سنوارنے میں لگے رہے۔اگر سیاست کی بات کی جائے تو پاکستان میں مشہور تھا کہ کراچی کی سوچ پورا پاکستان اپناتا ہے۔ اس شہر کو دشمنوں کی نظر لگ گئی۔ گو کہ سندھ میں ایک شخص چالیس سال سے قومیتوں کو لڑاتا رہتا تھا۔ اس سندھی قوم پرست شخص نے بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی سے سندھ میں مداخلت کرنی کی اپیل بھی کی تھی۔ مگر اس کی ایک نہ چلی۔پھرہجرت کر کے آنے والوں میں سے بھی ایک شخص نے قومیت کا نعرہ لگایا۔ اُس نے مہاجروں سے کہا ” حقوق یا موت” ٹی وی اور وی سی آرفروخت کرو اور اسلح خریدو اسلحہ چلانے کی ٹرینیگ سیکھو۔ قوموں کے درمیان نفرت ایسی نفرت پھیلائی کہ شیطان کو بھی شرم آنے لگی ہو گی۔ مسلمان نے مسلمان کر صرف اس لیے قتل کرنا شروع کیا کہ وہ دوسری قوم کا ہے۔ پنجابی پٹھان آبادی والے علاقوں میںمسجدوں سے اعلان ہونے لگے کہ مہاجروں نے حملہ کر دیا۔ مہاجروں والی بستیوں سے اعلان ہونے لگے کہ پنجابی پٹھانوں نے ھملہ کر دیا ہے۔ پورے شہر میں قتل و غارت شروع ہو ئی۔اس پرپھر سندھی قوم پرست نے ایک تاریخی بات کی تھی کہ جو نفرتوں کا کام میں چالیس سال نہ کر سکا وہ مہاجر قوم پرست نے چالیس دن میں کر دیا۔مزدوری کرنے والے پٹھانوں کو لکڑی کے ٹالوں اور روٹی کے تندروں پر قتل کر دیا گیا۔کراچی میں مزدوری کرنے والے پنجابیوں اور پاکستان کے دوسرے مظلوموں کی لاشیں اندرون ملک جانے لگیں۔ ایک دن میں سو پٹھان مظلوں کو شہید کر دیا گیا۔ حیدر آباد میں تین سو مہاجروں کو سندھی قوم پرستوں نے بے گناہ شہید کر دیا۔مہاجر قوم پرست دہشت گرد الطاف نے کراچی میں سو سے زیادہ پر تشدد

ہڑتالیں کرائیں۔ لندن میں بیٹھے مہاجر قوم پرست کی ایک فون کال پر شہر بند ہو جاتا اور ایک فون کال پر شہر کھل جاتا۔ پورے الیکٹرونک میڈیا کو یرغمال بنا لیا گیا۔ لندن میں بیٹھے لسانی دہشت گرد شراب میں تھت کئی کئی گھنٹے اول فول تقریریں کرتا رہا۔ دو قومی نظریے کی نفی اور قائد اعظم پر رکیک حملے کیے۔ پرنٹ میڈیا پر لندن میں بیٹھے مہاجر قوم پرست کے حکم کے مطابق سرخیاں لگتیں۔ الیکٹرونک میڈیااور پرنٹ میڈیا کے کئی دفاتر پر حملے گئے کچھ کو جلا بھی ڈالا۔ ١٢ مئی کا کیس سننے والی ہائی کورٹ کو لسانی تنظیم کے ہزاروں غنڈوں نے گھیرے رکھا اور کیس نہیں سننے دیا۔ وکیلوں کو گن پائوڈر پھینک کر زندہ جلا ڈالا گیا۔سنی تحریک کے پروگرام میں خودکش حملہ کروا کے درجنوں علماء کو شہید کر دیا گیا۔ پاکستان کے سبز ہلالی جھنڈے کوجلایا گیا۔ دہلی میں کہا کہ ہند کی تقسیم ایک تاریخی غلطی تھی۔کراچی کی سیاست کو پاکستان کی سیاست کے بجائے مہاجرقوم پرست سیاست بنا دیا۔دانشور حکیم سعید، مشہور دینی عالم شامزئی،اخباری نمائندے سید صلاح الدین، الیکٹرونک میڈیا کے بابر ولی اور خود اپنے ہی بیس ہزار مہاجروں کو شہید کیا گیا۔ جو قوم کا غدار ہے وہ موت کا حق دار ہے کا نعرہ دیا۔ مہاجروں کو بھارت بھیج کر دہشت گرد ی کی ٹرینینگ دلانے ،را سے فنڈ لینے ، ٹھپا مافیا نے پولنگ اسٹیشنوں پر قبضے کر کے ووٹ اپنے نمائندے کے حق میں ڈلوانے، پولنگ ایجنٹوں اورپولنگ کے عملے کو اغوا کرنے، بھتہ خوری، ٹارگیٹڈگلنگ،لینڈ مافیا،پارکوں پر لسانی دہشت گرد تنظیم کے دفاتر کا بننا شروع ہوئے۔ جعلی حقوق کے نام پر لگ بھگ ٢٥ سال تک کراچی پر حکومت کرنے والی مہاجر قیادت نے بجلی، پانی، گیس ، ٹرانسپورٹ، سوریج،صحت اور نہ ہی امن دیا۔ کیسے دیتے ان کا مشن اپنے آقائوں کی ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کو توڑنا، مہاجروں میں نفرت اور علیحدگی پھیلانا تھا جو انہوں نے خوب اچھے طریقے سے کیا۔ دہشت گرد لسانی تنظیم نے مہاجروں کو اُکسا کر جعلی حقوق کے نام پر کراچی شہر کی دوسری قومیتوں سے لڑانا تھا جو خوب لڑایا

گیا۔ ٹارچل سیل بنائے گئے۔ مخالفوں کے گھٹنوں پر ڈریل مشینیں چلائی گئی۔ہسپتال میں لسانی تنظیم کے ڈاکٹروں نے دوسری قوم کے زخمیوں کا علاج کرنے سے انکار دیا اور وہ ہسپتال کے باہرپڑے دم توڑ گئے۔ فیکٹری سے بھتہ نہ ملنے پر ٢٦٠ مزدروں کو زندہ جلا ڈالا گیا۔ ان حالات میں کراچی کے سرمایا دار اور پوش علاقوں کے لوگ بیرون ملک منتقل ہونے شروع ہوئے جس سے شہر کی معاشی ترقی کا پہیہ رک گیا۔کیا کیا بیان کیا جائے بڑی دکھ بھری داستان ہے۔ صاحبو!پھر اللہ نے مظلوموں کی سنی گئی اور اللہ کی مدد آئی۔ فوج نے پاکستان میں ضرب عضب اورکراچی میں خصوصاً ٹارگیٹڈ آپریشن شروع کیا۔ رینجرز کے بھر پور کاروائیوں کی وجہ سے دہشت گرد شہر چھوڑ کر بھاگ گئے۔ کچھ دہشت گردوں کو رینجرز نے خصوصی اختیار کے تحت گرفتار کر کے قانون کے حوالے کیا۔ ملک کے دوسرے حصوں کی طرح کراچی روشنیوں کے شہر کی روشنیاں پھر سے بھال ہونے لگیں۔تاجروں نے سکھ کا سانس لیا۔ ہڑتالیں ہونا بند ہو گئیں۔بھتہ خوری ، اغوا برئے تاوان اور ٹارگیٹڈ کلنگ ختم ہوئی۔لوگ پھر سے اپنی فیملی کے ساتھ شہر میں تفریحی مقامات اور سیر گاہوں پر جانے لگے ۔قومیتں آپس میں پھرسے شیر و شکر ہو گئیں۔برسوں سے روکا ہوامعاشی ترقی کا پہیہ چلنے لگا۔ شہر کی روشنیاں پھر سے واپس لوٹ آئیں۔الیکٹرونک میڈیا ا زاد ہو گیا اینکر اپنے پروگراموں میں اب سچ اور حق کے تجزیئے کرنے لگے۔ اب پرنٹ میڈیا پر مرضی کی سرخیاں لگانے والے کی اپنی سرخیاں لگنے لگیں۔کل تک فرعوں بننے والا خود نشان عبرت بن گیا۔ پھر ٢٢ اگست کو وقت کے فرعون نے پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگا یا۔ اپنے کارکنوں کومیڈیا پر حملہ کرنے کے لیے اُکسایا۔ لسانی دہشت گرد تنظیم کے ایک دھڑے کے کچھ لیڈروںنے ایک رات رینجرز کے ہیڈ کواٹر میں حراست میں رہنے کے بعد دوسرے دن فارق ستار کی سربراہی میں اپنی قیادت کے خلاف ایم کیو ایم پاکستان بنا کر ایم کیو ایم لندن اورد ہشت گرد لسانی لیڈر الطاف سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ آفاق احمدخان کی قیادت میںمہاجر قومی موومنٹ پہلے سے موجود ہے۔ پاکستان سرزمین پارٹی سید کمال مصطفےٰ کی سربرائی میں لسانی لیڈر الطاف حسین کی پاکستان کے خلاف سارا کھٹا چھٹا دنیا کے سامنے بیان کر چکا ہے۔خود الطاف کا بچا کچھا ٹولہ ایم کیو ایم لندن کی چھتری میں چھپا ہوا ہے۔پاکستان مین الطاف کی تصویر و تقریر پر عدلیہ نے پابندی لگائی ہوئی ہے۔

عوام نے پاکستان کے شہروں شہر الطاف پر غداری کے کے مقدمات قائم کروائے۔ پاکستان کی سینیٹ، قومی اسمبلی اورصوبائی اسمبلیوں میں الطاف کے خلاف آرٹیکل نمبر چھ کے تحت غداری کے مقدمات قائم کرنے کی قراردادیں پاس ہو چکی ہیں۔اب یہ وفاقی حکومت کے ارباب اقتدار کے ذمہ ہے کہ وہ غدرا وطن الطاف کے خلا ف آئینِ پاکستان کے مطابق کب کاروائی کرتے ہیں۔ مکافات عمل دیکھیں کہ پاکستان کو توڑنے والے الطاف کی دہشت گرد لسانی تنظیم خود چار ٹکڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ پاک فوج اور سندھ پولیس کی قربانیوں کی وجہ سے کراچی کی روشینیاں واپس لوٹ آئی ہیں۔میں کراچی میں اوپر بیان کردہ حالات کا چشم دیدہ گواہ ہوں۔ مجھے اللہ نے قوت عطا کی تھی اور قومی پریس اس بات کی گواہ ہے کہ میںان حالات کو قومی پریس میں بیان کرتا رہا ہوں۔باب الاسلام سندھ کی دھرتی کے شہر کراچی نے مجھے بہت کچھ دیا۔ میں بھی اس کا مقدمہ اپنی بساہت کے مطابق کالم لکھ کر ادا کرتا رہا۔ بعض دفعہ کراچی کے اخبارات میرے کالم شائع نہیں کرتے تھے مگر اندرون ملک کے اخبارات میں میرے کالم شائع کرتے رہے۔کراچی میرا ہے اور میں کراچی کا ہوں۔ میں نے کراچی میں نصف صدی سے زیادہ وقت گزرا ہے۔ کراچی مجھے یاد رہے گا۔ اب میں٥٤ سالہ رفاقت کو خیرآباد کہہ کر اپنے گھر میں کراچی سے اسلام آباد شفٹ ہو رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کراچی اور پاکستان کو دشمنوں کی نظر بد سے بچائے آمین۔ میں اسلام آباد میں بیٹھ کر بھی منی پاکستان کراچی کا مقدمہ لڑتا رہوں۔ انشاء اللہ۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان