کراچی پولیس کو بھی حفاظت کی ضرورت ہے !!

Karachi Police

Karachi Police

تحریر : قادر خان
آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کا کہنا تھا کہ 80 کے اواخر اور90 کی دہائی میں قتل و غارت گری کا بازار گرم تھا، 1996 میں پولیس نے کراچی میں تن تنہا نہایت کامیابی سے آپریشن کیا لیکن ماضی کے آپریشن کو سیاست کی نذر کردیا گیا اور آپریشن کرنے والے سیکڑوں پولیس افسران کو چن چن کر سڑکوں پر شہید کیا گیا جبکہ پولیس افسران کو قتل کرنے والے ایوانوں میں بیٹھے رہے پولیس افسران کے قتل پر سول سوسائٹی بھی خاموش رہی۔ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے اپنے دل میں رستے زخموں کو میڈیا اور پاکستان کی عوام کے سامنے لاکر رکھ دیا ۔ انھوں نے جس طرح اپنے جذبات اور اپنی مجبوریوں کا اظہار کیا ، اس سے اُن کی بے بسی کا اندازہ وہی لگا سکتے ہیں ، جن پولیس اہلکاروں کو چُن چُن کر دہشت گردوں نے اپنے انتقام کا نشانہ بنایا ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب سابق وزیر داخلہ ڈاکٹر ذولفقار مرزا نے کراچی کی ایک لسانی تنظیم کے300اہلکاروں کی فائل پر سرخ سیاہی سے سنہرے حروف لکھ دیئے کہ یہ دہشت گردی ہیں ، ان کی انکوئری کی جائے ، میں انھیں پولیس ڈیپارٹمنٹ میں بھرتی کی اجازت نہیں دے سکتا ، یہی وہ نقطہ آغاز تھا جس کے بعد ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی مخالفت شروع کردی گئی ، میں نے اپنی گناہ گار نگاہوں کے سامنے وہ اپائمنٹ لیٹر بھی دیکھے ، جن پر صرف دستخط کردیئے گئیء تھے کہ ان لیٹرز پر نام لسانی تنظیم کے کارکنان کے لکھ کر دے دیئے جائیں گے ۔ یہ کیا میں نے لسانی تنظیم ، لسانی تنظیم لگا رکھا ہے ، واضح طور پر پر کہتا ہوں کہ ایم کیو ایم کا یہ وتیرہ تھا ، آج شرافت کی چادر اوڑھے مصطفی کمال نے جب پولیس کے متوازن نظام قائم کیا تو اُس میں ایم کیو ایم کے ٹارگٹ کلرز کو بھرتی کیا اور ان کی موبائل وینز میں مسلح دہشت گرد کراچی میں خوف و ہراس پھیلاتے تھے۔

ایم کیو ایم پاکستان ، لندن کے اس ڈرامے کے مرکزی کردار آج کل مصطفی کمال بنے ہوئے ہیں۔ سلیم شہزاد ایم کیو ایم بہاری گروپ کے سب سے پسندیدہ رہنما رہے ہیں ، ایم کیو ایم کے تقریباََ کوئی ایسے رہنما نہیں ہیں جن کے دامن میں سوراخ نہ ہو ، سلیم شہزاد پاکستان آتے جاتے رہے ہیں ، سلیم شہزاد کو بانی متحدہ نے کرپشن کے الزامات کے تحت لندن سیکرٹریٹ سے نکال دیا تھا اور ان کی معافی بھی قبول نہیں کی تھی۔ڈاکٹر عمران فاروق اور سلیم شہزاد وہ دو شخصیات تھیں ، جوایشیا کی سب سے بڑی کچی آبادی اورنگی ٹائون کے ہر دل عزیز رہنما تھے ، اورنگی ٹائون سمیت دیگر علاقوں میں دو بار ہجرت کرنے والے ‘ بہاریوں’ کے نام سے عملی سیاست کرنے والے مہاجر سیاست میں داخل ہوئے اور قصبہ علی گڑھ میں پختون آبادیوں پر حملے کئے ، اورنگی تائون میں لکڑیوں کے گوداموں کو آگ لگاتے وقت زندہ پختونوں کو جلایا ۔ ان ہی دنوں میں قصبہ کالونی میں ایک ویگن w19 چلا کرتی تھی ، اس کے ایک اکنڈیکٹر نے صرف چار آنے اضافی کرا ئے کی وصولی پر ایک پختون طالب علم پر اس قدر تشدد کیا کہ میں ایسے لفظوں میں نہیں ڈھال سکتا ، میں خود اس وقت وین میں موجود اور کالج سے گھر آرہا تھا۔

وہ پختون لڑکا ، جب اپنی آبادی میں گیا تو وہاں اس کی یہ حالت دیکھ کر ردعمل فطری تھا ۔ اسی دوران عبد اللہ کالج کے سامنے بشری زیدی کا واقعہ رونما ہوگیا ۔ جس کا ردعمل معصوم بے گناہ پختون ڈرائیوروں ، جس میں بسیں ، منی بسیں ، رکشہ ٹیکسی ، جو بھی سامنے آتا ، نکالا جاتا ۔ بنارس کالونی اور علی گڑھ کالونی آمنے سامنے کی آبادیاں ہیں ، اورنگی ٹاون اور قصبہ موڑ پر پختونوں نے لکڑی کے ٹال کے گودام بنائے ہوئے تھے ، ان کا کسی جماعت سے تعلق نہیں تھا ۔ ان کے گوداموں کو آگ لگا کر زندہ پختونوں کو جلانے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ۔ اورنگی ٹاون میں ایک پختون آبادی نہیں بچی ، جن کی عزت و ناموس کو پامال نہ کیا گیا ہو، ان کے گھروں کو لوٹ مار نہ کیا گیا ہو۔ اُس وقت انھوں نے پہلی مرتبہ بلب میں پٹرول دال کر اس کے آگے کپڑے میں آگ لگا کر پختون آبادیوں پر پھینک دیا کرتے تھے ۔جس سے ایک دھماکے کے ساتھ فوراََ آگ لگ جاتی ۔ پھر ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے ، پختون آبادیوں سے بھی جھتے اکھٹے ہوئے اور لسانی فسادات کی بنیاد مصطفی کمال اینڈ کمپنی نے رکھی ۔اب ایک ہفتے کتنے واقعات رونما ہوتے ہیں ، لیکن کوئی ری ایکشن نہیں ہوتا ، کیونکہ اُس وقت مقصد پختونوں کی نسل کشی تھی۔حکومت نے پولیس کے بل بوتے پر کراچی میں نامی گرامی دہشت گردوں کے خلاف جم کر مقابلہ کیا ، ان کے خوف و دہشت کی علامت کے لعنتی کرداردوں کو چن چن کر مقابلہ کیا اور کراچی آپریشن کو رینجرز کی مدد کے بغیر کامیاب بنایا ، کراچی میں ان کی ہوائیاں اڑ چکی تھیں ، قوموں کو لڑا لر یہ سب بیرون ملک فرار ہوکر خود کو جلا وطن کہنے لگے۔

Rangers

Rangers

وقت کے ساتھ مرہم رکھنے سے زخم بھر جاتے ہیں لیکن کراچی آپریشن کو جب سیاسی بنا کر ٹوپیاں بدل کر ایک دوسرے کو معاف کرنے کے ڈرامے دو حکمران جماعتوں میں ہوئے ، اور اقتدار کے لئے نائن زیرو کے چکر لگے ، تو ایم کیو ایم نے خود کو پھر مستحکم کیا ، لیکن بارہ مئی کے واقعے نے ایم کیو ایم کے چہرے سے پھر نقاب سے اتار دیا ۔ ایم کیو ایم پھر بیک پر چلی گئی ، متحدہ کی سیاست لیکر مجھ جیسے لوگ بھی غلط فہمی کا شکار ہوئے ، لیکن کسی نے سچ کہا کہ سو سال بھی ، کتے کی دم نلی میں رکھنے سے دم سیدھی نہیں ہوسکتی۔آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے جو نوحہ پڑھا اور اس پر سینہ کوبی کی ، تو اُن کے اس ماتم میں ہم برابر کے شریک ہیں ، وہ بالکل درست کہتے ہیں،پولیس کو مکمل سیاست زدہ کردیا گیا ۔ سیاسی جماعتوں نے ایم کیو ایم کے ردعمل میں عسکری ونگ بنا لئے ۔ پی پی پی ہو اے این پی ہو ،اپنی آبادیوں کی حفاظت کے لئے ایم کیو ایم کی دہشت گردی کے حصار کو توڑنے کے لئے خود جرائم کا حصہ بن گئے ، کراچی میں بھتہ خوری نہیں تھی ، کراچی میں بھتہ خوری کی بنیاد فی گھر20روپے پرچی ماہانہ کے ذریعے مصطفی کمال اینڈ پارٹی اور فاروق ستار اینڈ لمیٹیڈ نے شروع کئے ۔ کھالوں کی متشدد سیاست ، ایم کیو ایم نے شروع کرکے مسلمانوں کے اسلامی شعائر کو نقصان پہنچایا۔

آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ صاحب آپ اکیلے کچھ نہیں کرسکتے جب تک عوام آپ کے ساتھ نہ ہو ، وفاق اور صوبہ اصلاحات نہ کرے ، کٹی پہاڑی پر جب ایم کیو ایم کے دہشت گرد مورچے بنا کر فائرنگ کررہے تھے تو میرے ساتھ ایک نجی نیوز چینل کے اسلم خان تھے ، ہم پر کوریج کے دوران فائرنگ ہوئی ، اس دوران کئی گھنٹے محمد پور پولیس کو نشانہ بنایا جاتا رہا ، پولیس والے چیخ رہے تھے چلا رہے تھے ، اپنے افسران کو کہہ رہے تھے کہ ہمیں دفاع کرنے کی اجازت دیں ، لیکن انھیں اجازت نہیں دی گئی ، ڈی آئی جی ویسٹ کی آمد کی خبر پر فائرنگ تھم گئی ، میں اُن کے پاس گیا ، کہ دیکھیں یہ وہ مورچے ہیں ، جہاں سے فائرنگ ہو رہی ہے ، انھیں گرفتار کریں ۔ انھوں نے بے بسی کا اظہار کیا کہ احکامات نہیں ہیں۔ میں غصے سے چلا رہا تھا کہ خواتین بچے یرغمال بنے ہوئے ہیں تین دن ہوگئے ہیں ، فائرنگ کا سلسلہ نہیں رک رہا ، کھانے پینے سے فاقے ہو رہے ہیں کب تک ایسا چلے گا ، ان کا ایک ہی جواب تھا ، کہ ہمیں ماضی یاد ہے۔آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ آپ درست کہتے ہیں کہ 19ویں صدی کا قانون لیکر21ویں صدی میں داخل نہیں ہوا جا سکتا ۔پولیس کو سیاست سے پاک کرکے رینجرز کو واپس بیرکوں میں نہیں بھیجا جا سکتا ۔ پولیس کے بیشتر اہلکار اور افسران کرپٹ ہیں ، ان کی توجہ مال بنانے پر اس لئے ہے کیونکہ لاکھوں روپے رشوت دیکر بھرتی ہوئے ہیں ، میرٹ پر بھتی ہونے والے کہاں ہیں ، قابل اور اہل افسران کو تو ہیڈ کوارٹر بھیج دیا جاتا ہے۔

کراچی آپریشن کے ایک ایک افسر کو چن چن کر شہید کرنے والے ایوانوں میں بیٹھ کر کنگ میکر کا کردار ادا کررہے تھے ، ہم پولیس کو بُرا نہیں کہتے ، لیکن پولیس کا اہلکار جو اب کچھ کررہے ہیں یہ پولیس نہیں بلکہ اس سیاسی جماعتوں کے اہلکار ہیں جنھیں سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیا گیا ۔رینجرز کی بیساکھی یقینی طور پر ختم ہو سکتی ہے ، لیکن پولیس کو اپنے پیروں پر کون کھڑا کرے گا۔ کس میں یہ جرات ہے ، یہاں تو کنٹریکٹ پر بھرتی ہونے والے معاہدے سے ہٹ کر خود کو مستقل کرانے کے لئے پریس کلبوں کے باہر مظاہرے شروع کردیتے ہیں کہ انھیں مستقل کیا جائے ، اہڈ ہاک ازم پر بھرتی ہونے والے کیا نہیں جانتے تھے کہ وہ عارضی ملازم ہیں ، لیکن کوئی بھی ادارہ ہو ، سیاست وہاں عفریت کی طرح غالب آچکی ہے ۔ آپ کو کچھ عرصہ رہیں گے ، پھر چلے جائیں گے ، کم ازکم جتنا عرصہ ہیں ، اتنے عرصے میں سیاسی جماعتوں سے وابستہ اہلکاروں و افسران کی چھانٹی ہی شروع کردیں ۔ یہی کراچی پر احسان ہوگا ۔کراچی کے قابل اور ایماندار افسران کی حفاظت کیلئے ان کی سیکورٹی کا بندوبست کریں ۔کراچی آپریشن میں ماضی میںجو کچھ ہوا ، اس کے نتایج کی روشنی میں ایک ایسی پالیسی بنا جائیں جیسے سیاست دان بھی رد نہ کرسکیں ۔عوام کے ساتھ ساتھ پولیس کی حفاظت بھی آپ کے فرائض میں شامل ہیں ۔کراچی کے عوام امن کیلئے ہر قسم کا تعاون کرنے کو تیار ہیں ، آپ آگے بڑھیں۔

Qadir Khan

Qadir Khan

تحریر : قادر خان