کراچی۔۔ پانی اور بجلی کا مسلہ

Karachi Water Crisis

Karachi Water Crisis

تحریر : ابنِ نیاز
کراچی میں اللہ کا امتحان زوروں پر ہے۔ اسے آزمائش بھی کہہ سکتے ہیں۔ ان دونوں میں فرق کیا ہے؟ بس اتنا کہ اگر اسے امتحان سمجھیں گے تو صبر کرکے اللہ کی طرف رجوع کریں گے، اسی سے مدد طلب کی جائے گی، اسی کو مشکل کشا سمجھا جائے گا۔ اور مسلے کو حل کرنے کی کوشش اپنی مدد آپ کے تحت کی جائے گی۔ اور اگر آزمائش جانیں گے تو پھر اللہ سے گلے شکوے ہوں گے۔ نہ کوئی دعا ہو گی، نہ کسی سے دعا کی درخواست ہو گی۔ نہ ہی اپنے مسائل خود حل کرنے کی طرف خیال جائے گا۔ اب ہم کراچی سے دور بیٹھے ہیں۔ وہاں کے لوگوں کے دلوں کا حال کیسے جان سکتے ہیں کہ آیا وہ اسے امتحان سمجھ رہے ہیں یا آزمائش یا پھر اللہ کی طرف سے آیا ہوا کوئی عذاب یا اسکی کوئی ہلکی سی علامت۔یہ تو رب جانے کہ کیا ہے۔ اور بندے جانیں کہ وہ کیا سوچتے ہیں۔ پچھلے ایک ہفتے میں ہزاروں افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔گرمی کی شدت کچھ اس قسم کی ہے کہ شاید برسوں پہلے کبھی ہوئی ہو تو ہو۔ گرم ہوائیں گھوم پھر کر کراچی کے اندر ہی بسیرا کر رہی ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے کراچی کے ارد گرد کسی نے اس طرح کا گھیرا ڈال دیا ہے کہ ہوا کو باہر نکلنے کا راستہ ہی نہیں مل رہا۔

جس کی وجہ سے وہاں حبس انتہا کا ہوگیا ہے۔ہوا میں نمی کی وجہ سے بھی حبس میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ ایک طرف گرمی کی یہ صورت حال ہے تو دوسری طرف کافی عرصہ سے کراچی میں پانی کی قلت میں بھی اضافہ ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آرہی ہے کہ ساحلِ سمندر کے کنارے رہتے ہوئے بھی کراچی کے لوگ پانی کو کیوں ترس رہے ہیں۔کیا سمند ر کے پانی کو پینے کے پانی میں تبدیل کرنا کوئی ناممکن کی حد تک مشکل کام ہے۔ اس میں تو شک ہی نہیں کہ حکومتِ وقت ہی نہیں چاہتی۔ لیکن آخر کو کراچی میں ماشأ اللہ کافی امیر کبیر لوگ بھی بستے ہیں اور صاحبِ دل بھی ہیں۔ وہ اگر چاہیں تو اسی سمندر کے پانی کو پینے کے پانی میں تبدیل کرنے کے تین چار سسٹم ہی لگا دیں تو میرے خیال میں پورے کراچی کو پینے کا پانی بآسانی مل سکتا ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سسٹم تو سمندر کے کنارے یا سمندر کے قریبی علاقوں میں لگیں گے تو اس علاقے سے دور رہنے والوں کو پانی کس طرح مہیا کیا جائے گا تو جہاں اتنا خرچہ کیا جا سکتا ہے وہاں پانی کے پائپ بھی بچھائے جا سکتے ہیں۔

سمندر کے پانی کو پینے کے پانی میں کس طرح تبدیل کیا جاسکتا ہے، کسی بھی کیمیا دان یا طبیعات والا بھی بتا سکتا ہے۔جو طریقہ بھی استعمال کیا جائے گا اسکی بنیاد تو سمندر کے کھارے پانی سے بخارات بنا کر اس کو استعمال کرنے کی بات ہے۔اور یہ کوئی ناممکن بات نہیں ہے۔دوسرا طریقہ شاید پانی کو وسیع پیمانے پر فلٹریشین کے طریقے سے بھی صاف پانی میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ یا پھر کچھ اس طرح کا نظام بنایا جائے کہ سمندر کے پانی کو پائپوں کے ذریعے اس نظام تک لا کر اس کو ابالا جائے اور اتنا ابالا جائے کہ وہ ابل ابل کر تین چوتھائی رہ جائے۔ پھر اس پانی کو نتھار کر پینے کے قابل پانی اکٹھا کرکے پائپوں کے ذریعے گھر گھر پہنچایا جائے۔یہ تو صرف میرے جیسے اناڑی کے خیالات ہیں لیکن اگر سائنسدان چاہیں تو کیا کچھ نہیں کر سکے۔ ویسے انٹرنیٹ سے بھی سمندرکے کھارے پانی کو وسیع پیمانے پر صاف کرنے کے بہت سے طریقے مل جائیں گے۔

Load Shedding

Load Shedding

اس کے بعد بات آتی ہے کراچی الیکٹرک کمپنی کی طرف سے بجلی لوڈ شیڈنگ کی۔ تو اسکا کہنا تو بجا ہے کہ وہ لوگ بجلی کا بل نہیں دیتے الٹا بجلی چوری کرتے ہیں تو ان کو حکومت کی طرف سے بجلی دینے کا کوئی حق نہیں بنتا۔ سوال یہ ہے کہ کراچی الیکٹرک کمپنی کو تو پرائیویٹائز کر دیا گیا ہے۔ وہ اب حکومتی ادارہ نہیں رہا۔ بلکہ نجی طور پر کچھ افراد اسے چلا رہے ہیں۔ پھر حکومت کا اختیار کیا ہے؟ اگر کمپنی اپنے شہریوں کو بجلی مہیا نہیں کرسکتی تو پھر اسکو چاہیے کہ حکومت کو واپس کردے لیکن مفت میں۔ کیونکہ جو پیسے اس نے حکومت کو دیے تھے یہ کمپنی خریدنے کے بدلے، وہ تو پورے کر چکی ہے۔ بلکہ اس سے شاید کافی زیادہ ہی کما چکی ہو گی۔ کیا کمپنی کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوں گے کہ وہ سولر سسٹم سے یا ہوائی چکیوں سے بجلی پیدا کر سکے۔

اگر حکومت پنجاب کی طرح جس نے بہاولپور میں سولر پارک تعمیر کیا ہے اور اس سے شایدسو میگا واٹ بجلی پیدا کی جائے گی، حکومت سندھ یا کراچی الیکٹرک کمپنی والے کراچی میں اس طرح کا پارک بنا لیں، جو کہ ناممکن ہر گزی نہیں ہے۔ کراچی میں ویسے بھی وسیع پیمانے پر خالی زمین موجود ہے، جو فی الحال کسی بھی مد میں استعمال نہیں کی جارہی تو سو میگا واٹ کیا دو تین سو میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ اور پورے کراچی کو بغیر کسی رکاوٹ کے بجلی مہیا کی جاسکتی ہے۔

اس طرح کے پار ک بنانے پر صرف ایک بار کا خرچہ ہو گا، پھر تو اللہ پاک نے پاکستان پر وہ کرم کیاہوا ہے کہ سورج کی روشنی تقریباً ہر وقت موجود رہتی ہے۔ شمسی توانائی کے ساتھ ساتھ کراچی میں ہوا بھی ہمہ وقت چلتی رہتی ہے۔ سمندر کے کنارے بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں ہزاروں کی تعداد میں ہوائی چکیاں لگائی جا سکتی ہیں اور ان سے بجلی حاصل کی جا سکتی ہے۔ پچاس ساٹھ میگا واٹ بجلی ان سے بھی حاصل کرنا کوئی مشکل نہیں ہے۔

Electricity

Electricity

موجودہ صورت حال میں بجلی پیدا کرنے کے لیے کم از کم یہ دونوں طریقے ازحد ضروری ہیں۔اور ان کو ہنگامی بنیادوں پر اگر شروع کیا جائے تو دو ماہ سے زیادہ وقت نہیں لگے گا اور بجلی کی پیداوار بھی شروع ہو جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر تھر کے کوئلے سے بھی بجلی کی پیداوار کو مزدی بڑھایا جائے تو جہاں ٢٠١٨ کا ٹارگٹ دیا گیا ہے کہ اس وقت تک بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے گی، چھ ماہ کے اندر اندر بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کی جا سکتی ہے۔ جہاں جہاں گھروں کی چھتیں ملی ہوئی ہیں اور پچاس ساٹھ گھر ایک ساتھ جڑے ہوئے ہیں ، حکومت ان گھروں کے اور شمسی پینل رکھ دے اور انکا سسٹم کہیں ایک جگہ جوڑ دے جہاں ان پینل سے حاصل ہونے والی بجلی سٹور ہو۔ اور میرے خیال میں ان گھروں کی وجہ سے پیدا ہونے والی بجلی سو گھروں تک کے لیے کافی ہو سکتی ہے۔بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنا کوئی مشکل نہیں، لیکن شاید سب سے بڑا مسلہ یہ ہے کہ شمسی توانائی کے پینلز کے لیے زمین کہاں سے آئے گی، کہ یہاں تو لوگوں نے زمینوں پر قبضہ کیاہوا ہے۔

وہ کیوں اپنی جائیداد عوام الناس کے مفاد کے لیے مہیا کریں گے۔ اسکے ہوائی چکیوں کے لیے بھی ایماندارانہ نظام قائم کرنا آسان نہیں۔ کیونکہ ہر محکمہ میں کرپشن کی بھرمار ہےلیکن مجھے سو فیصد یقین ہے کہ اگر حکومت چاہے ، جس طرح راولپنڈی میٹروبس چلادی، کتنی رکاوٹیں آئیں، عدالتوں تک لوگ گئے، سٹے آرڈر لیے گئے ، لیکن جب حکومت کرنے پر آئی تو سب رکاوٹیں دور ہو گئیں۔ صرف بارش کی وجہ سے یہ میٹرو بس کی سروس تین سے چار ماہ لیٹ ہو گئی، ورنہ کوئی رکاوٹ رکاوٹ نہ رہی۔اسی طرح اگر حکومت چاہے تو پاکستان سے چھ ماہ کے اندر اندر لوڈ شیڈنگ ختم ہو سکتی ہے۔ کالا باغ ڈیم نہ بھی بنے (صرف بجلی پیدا کرنے کی بات کر رہا ہوں، نہ کہ سیلابی صورتحال سے نمٹنے کی یا پانی ذخیرہ کرنے کی) تو بھی اس عرصہ میں بیس ہزار میگا واٹ تو کیا پچیس ہزار میگاواٹ بجلی بنائی جا سکتی ہے۔

سمندر کے کنارے پر رہتے ہوئے جب کراچی شہرکے باسی پیاسے مریں تو افسوس کا مقام ہے۔ حضرت عمر فاروق نے کہا تھا کہ اگر درائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مر گیا تو اس کا جواب دہ قیامت کے دن اللہ کے دربار میں وہ ہوں گے۔ اور جناب عابد شیر علی صاحب پوچھتے ہیں کہ اگر کوئی گرمی سے مر گیا تو اس میں ان کا کیا قصور ہے؟ جنابِ عالی! آپ کراچی سمیت پورے پاکستان کے عوام کو بجلی مہیا کردیں ، پیاس ختم کرنے کے لیے صاف شفاف پانی مہیا کردیں، پھر اگر وہ مریں تو بے شک ان کا اپنا قصور ہو گا۔ آپ کا گریبان قیامت کے دن کوئی نہیں پکڑے گا۔ لیکن یہ بجلی پیدا کیسے ہو، پانی کو صاف شفاف کیسے بنایاجائے، کیونکہ اس کام کے لیے چاہیں اربوں روپے، جو صرف میٹرو اور موٹر وے کے لیے موجود ہیں، اس طرح کے کسی کام کے لیے بھی نہیں۔۔۔۔۔۔

Ibn e Niaz

Ibn e Niaz

تحریر : ابنِ نیاز