ساکنان ِکراچی کا 24 واں عالمی مشاعرہ

Karachi Residents 24th International Poetry

Karachi Residents 24th International Poetry

کراچی (محمد نعیم) ساکنان ِ کراچی کی جانب سے تہذیب، امن اور رواداری کا امین چوبیسواں واں عالمی مشاعرہ ہفتے کی شب کے ایچ اے گراونڈ گلشن اقبال میں منعقد ہوا۔ مشاعرے کی مسندِ صدارت پراردو شعری ادب میں بھرپور خدمات سرانجام دینے والی شخصیت جناب افتخار عارف براجمان تھے۔ جبکہ نظامت کے فرائض کا آغاز مشاعرہ کمیٹی کے کنوینئر محمود احمد خان نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کیا۔ ان کے علاوہ ایک کے بعد ایک سلمان صدیقی، سردار خان اور ڈاکٹر اقبال پیرزادہ نے بھی نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ محفل شاعری کا آغاز قاری اسد الحق نے تلاوت کلام پاک سے کیا جبکہ ان کے بعد معروف و بزرگ شاعر قمر وارثی نے بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں نذرانہِ نعت پیش کیا۔

یہ مشاعرہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے تعاون سے منعقد کیا گیا تھا۔چونکہ کئی برسوں کے بعد مشاعرہ منعقدہونے جا رہا تھا لہٰذا عوام نے جوق درجوق شرکت کی۔ اخبارات میں عوام کو اس تقریب میں مدعو کرنے کا وقت 8بجے شب لکھا ہوا تھا۔ جب کہ آرٹس کونسل کے ٹویٹر اکاونٹ @ArtsCouncilKar پر مشاعرہ 9بجے شروع کرنے کا اعلان کیا گیا۔مگر مشاعرہ نہ آٹھ بجے شروع ہوا نہ 9بجے۔ بلکہ مشاعرے کا باقاعدہ آغاز رات11بجے کے قریب ہوا۔ اس سے قبل پنڈال میں آجانے والے لوگوں کے ذوق کو مدنظر رکھتے ہوئے ماضی میں ہونے والے مشاعروں کی ریکارڈنگ اسٹیج کے دائیں بائیں نصب بڑی اسکرینوں پر چلتی رہی، جسے لوگ انہماک سے سنتے رہے۔

مشاعرہ تاخیر سے شروع ہونے کا نقصان یہ ہوا کہ شاعروں کو اپنا کلام بہت عجلت میں پڑھنا پڑھا۔ بڑے شعراء جن کو لوگ خاص طور پر سننے کے لیے آئے تھے ان کو بھی بہت کم وقت ملا۔ کچھ خواتین شعراء نے اس دوران اپنی آواز کا جادو جگانے کی کوشش کی اور اپنے اشعار و غزلیں ترنم کے ساتھ پیش کیں ، جس میں بھی بہت زیادہ وقت لگا۔

چوبیسویں عالمی مشاعرے کے مہمان خصوصی کمشنر کراچی شعیب احمد صدیقی تھے۔ جبکہ اہل ادب کے علاوہ مشاعرے میں ملک کی سیاسی، سماجی اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات نے بھی شرکت کی، مشاعرے میں ایم کیو ایم کے سینئر رہنما حیدر عباس رضوی، احمد سلیم صدیقی، جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان، سابق سینٹر عبدالحسیب خان، احمد چنائے، ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی سیدہ شہلا رضا ، گلوکار تنویر آفریدی، گلوکار ہ عابدہ خانم ، اداکار فیصل قاضی سمیت قابل ذکر شخصیات بھی موجود تھیں۔

مشاعرے میں کراچی، پاکستان کے دیگر شہروں سے آنے والے شعراء کے علاوہ دیگر ممالک سے آئے مہمان شعراء نے بھی اپنا کلام پیش کیا۔ صدرمحفل افتحارعارف (ایران)کے علاوہ جن شعراء نے کلام سنایا، ان میں ذکیہ غزل(کینیڈا) ، صبیحہ صبا(شارجہ)، شازیہ نورین(جرمنی) امجد اسلام امجداور عباس تابش(لاہور)، باقی احمد پوری، اعتبار ساجد، ، خالد سجاد اور فرحت زاہد، ڈاکٹر انعام الحق جاوید(اسلا م آباد)، رحمان فارس (فیصل آباد)،نوید ہاشمی (کوئٹہ)راشدہ ماہین ملک، پروفیسر عنایت علی خان ( حیدرآباد)، ڈاکٹر پیر زادہ قاسم ، رضا صدیقی، اعجاز رحمانی، انور شعور، سعیدالکبیر صدیقی، ثروت سلطانہ ثروت، لیاقت علی عاصم، عقیل عباس جعفری، صفدر صدیق رضی، ڈاکٹر اختر ہاشمی، خالد معین، اقبال خاور، سلیم فوز، قیصر وجدی، سلمان صدیقی،حکیم ناصف، علاؤالدین خانزادہ، شبیر نازش، سلیم ناز اور دیگر شامل تھے۔

مشاعرے میں بلاتمیز رنگ و نسل و زبان ،اردو اور شاعری کے پرستاروں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ دوستوں کے ٹولیوں کے علاوہ پورے کے پورے خاندان جن میں نوجوانوں کے علاوہ معمرخواتین و حضرات کی بھی ایک بڑی تعداد موجود تھی، مشاعرہ سننے آئے ہوئے تھے۔ سامعین کے لیے کرسیوں کے علاوہ فرشی نشست اور گاوتکیوں کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ سوشل میڈیا پر مشاعرے کے حوالے سے (#کراچی_عالمی_مشاعرہ ) کے ہیش ٹیگ کے ساتھ بھی تذکرہ اور منتخب اشعار دیکھنے کو ملے۔

مشاعرے کی روداد اتنی طویل ہے کہ ایک تحریر میں اس کو بیان کرنا ممکن نہیں۔ اب ان اشعارمیں سے جو دوران مشاعرہ میں نے اپنی بیاض میں لکھنے کی کوشش کی ہے۔ یہاں قارئین کے لیے پیش کر رہا ہوں، ممکن ہے عجلت میں لکھنے کے باعث کسی شعر میں کوئی غلطی رہ گئی ہو، تو اس کے لیے پیشگی معافی چاہتا ہوں۔ باقی قارئین بھی اس مشاعرے میں سنے گئے اشعار میں سے اپنے پسندیدہ منتخب اشعار اس تحریر کے کمنٹس وفیڈ بیک میں لکھ بھی سکتے ہیں ۔
مزاحیہ شاعری میں حکیم ناصف نے خوب داد وصول کی، بالخصوص ان کا یہ شعر بار بار سننے کے لیے فرمائش کی گئی۔

کھالیں مانگ کے لایا تھا ہزار میں
کچھ بلدیہ میں چھن گئیں کچھ شادمان میں
(حکیم ناصف)
نوجوان شاعروں میں سے فیصل آباد سے آئے رحمان فارس کو شرکاء نے بے حد پسند کیا اور ان کی شاعری کی کھل کر داد دی۔
ان کی شاعری سے کچھ انتخاب
بیٹھے ہیں چین سے کہیں جانا تو ہے نہیں
ہم بے گھروں کا کوئی ٹھکانہ تو ہے نہیں
تم بھی ہو بیتے وقت کے ہو بہو
تم نے تو یاد آنا ہے ،آنا نہیں !

صدائیں دیتے ہوئے اور خاک اڑاتے ہوئے
میں آپ سے گزرا ہوںتجھ تک آتے ہوئے
پھر اس کے بعد زمانے مجھ کو روند دیا
میں گرپڑا تھا کسی اور کو اٹھاتے ہوئے
کہانی ختم ہوئی اور ایسے ختم ہوئی
کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے
(رحمان فارس)

میں نے مانگی تھی فقط اُجالے کی ایک کرن
تم سے کس نے کہا تھا کہ آگ لگا دی جائے
(زکیہ غزل)

یوں گفتگو نہ ہو کہ سبھی کی سمجھ میں آئے
شعر اس طرح کہو کہ اسی کے سمجھ میں آئے
(سلمان صدیقی)

دلوں پہ چوٹ پڑے تو فغاں ضروری ہے
وہاں تو بولو رفیقوں ، جہاں ضروری ہے
(ڈاکٹر اقبال پیرزادہ)

کہیں جواب بھی دینے کو دل نہیں کرتا
کہیں سلام سے پہلے سلام کرتا ہوں
(خالد معین)

آنکھ میں ٹھہرے ہوئے لوگ کہاں جاتے ہیں
عشق ہو جائے تو پھر روگ کہاں جاتے ہیں
(شبیرنازش)

جو فقط جسم سمجھتا ہے کسی عورت کو
ایسے کم ظرف کو اوقات میں رکھا جائے
عقل کہتی ہے کہ میں اس سے کنارہ کر لوں
دل یہ کہتا ہے کہ اسے ساتھ میں رکھا جائے
(سبین سیف)

صاحب میں تیرے ناز اٹھانے نہیں آئی
بس دیکھنے آئی ہوں منانے نہیں آئی
آئی ہوں تیرے شہر کی گلیوں میں بھٹکنے
لیکن کوئی آواز لگانے نہیں آئی
(راشدہ ماہین ملک)

تم اپنے بارے میں مجھ سے پوچھ سکتے ہو
یہ تم سے کس نے کہا آئینہ ضروری ہے
(سلیم فوز)

میرا منصف مجھے جو چاہے سزا دے لیکن
سرنگوں ہو کر عدالت نہیں آوں گا
(نوید ہاشمی)

یہ تو سوچا ہی نہیں تھا میرے پیارے لوگو
تم گزر جاو گے زمانوں کی طرح !
(صبیحہ صبا)

آپ کی یاد تو بہانہ تھی،اشک یونہی بہائے جاتے ہیں
کوئی مرتا نہیں کسی کے لیے،صرف قصے سنائے جاتے ہیں
(ثروت سلطانہ ثروت)

کمی ہوتی ہے کوئی گھر کے اندر
وگرنہ کون باہر دیکھتا ہے

عمر اس کی ہے آنکھ کھلنے تک
خواب کو زندگی سمجھ رہے ہو
تم سے ہر شعر میں مخاطب ہوں
تم اسے شاعری سمجھ رہے ہو
(شازیہ نورین)

سرد پرچھائیوں نے مار دیا
مجھ کو تنہائیوں نے مار دیا
ہائے یوسف کی یاد آئی کب
جب مجھے بھائیوں نے مار دیا
(قیصروجدی)

الماس دھر ے رہ جاتے ہیں، بکتا ہے تو پتھر بکتا ہے
اجناس دھرے رہ جاتے ہیں، یہاں انساں کا مقدر بکتا ہے

ضعیفی اس لیے مجھ کو سہانی لگتی ہے
اسے کمانے میں پوری جوانی لگتی ہے
(خالد سجاد)

اگرچہ اِس بڑے پیمانے پر مشاعرے کا انعقاد تقریبا دو سال بعد ہوا۔ مگر یقینی طور پر یہ شہر کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ جس شہر میں دہشت اور خوف کے سبب سڑکیں سنسان ہو گئی تھیں، بازار و کھیل کے میدان ویران ہو گئے تھے۔ جہاں ہر وقت ایک انجانہ خوف سب پر طاری رہتا تھا، کہ ابھی کوئی آئے گا اور موت کی نیند سلا کر یا لوٹ کر لے جائے گا۔ مال و جان کے عدم تحفظ کے خوف سے نکلنے کے بعد اگر شہر قائد میں دنیا بھر سے آئے شعراء ِ کرام رات بھر بغیر کسی خوف کے ادب کی محفل سجاتے ہیں اور لوگ بھی اس میں بے خوف وخطر شریک ہوتے ہیں تو بھلا اس سے اچھی خبر اور کیا ہو سکتی ہے۔ آخر میں یہ امید ہے کہ اس طرح کے پروگرامات کا انعقاد تسلسل کے ساتھ ہوتا رہے گا۔ صرف تسلسل کے ساتھ نہیں بلکہ اِس سے بھی بڑے پیمانے پر منعقد ہوتاکہ پوری دنیا تک یہ پیغام جا سکے کہ کراچی اب خوف کی علامت نہیں رہا…کراچی اب بدل رہا ہے ۔