کشمیر کا مطالبہ

Kashmir

Kashmir

تحریر: محمد عتیق الرحمن
بات ہوتی اگر کسی پاکستانی کی تو اسے لینے کے دینے پڑ جاتے اسے احمق، بے وقوف، دیوانہ اور پتا نہیں کیا کیا القابات سے نوازا جاتا لیکن بات ہے اب امریکہ کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ایک سابق اہلکار بروس ریڈل کی۔جس نے ایک کتاب تحریر کی ہے جس میں بھارت چین جنگ کے دوران پاکستان نے اپنی شہ رگ کے متعلق بات کرکے اپنی طاقت کا لوہامنوایا تھا گو یہ بات پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکی لیکن امریکہ وبھارت کو یہ باور ہوگیا کہ پاکستان کسی بھی صورت اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔ یادرہے کہ یہ جنگ 1962 میں ہوئی تھی۔

بروس ریڈل کے مطابق ہندوستان پر حملہ نہ کرنے کے عوض اس وقت کے صدر ایوب نے کشمیر کا مطالبہ کیا تھا۔تیس برس تک سی آئی اے کے ساتھ کام کرنے والے اور چار امریکی صدور کے مشیر رہنے والے ریڈل نے اپنی کتاب ’JFK’s Forgotten Crisis‘ میں لکھا ہے کہ 1962 میں پاکستان پوری طرح سے حملہ کرنے کی حالت میں تھا اور بھارتی فوج چین اور پاکستان کے اس دو طرفہ حملے سے پارہ پارہ ہوجاتی۔ریڈل کے مطابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے اس ممکنہ پاکستانی حملے کو روکنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ان دنوں بھارت میں امریکہ کے سفیر جان گیلبریتھ کے مطابق صدر ایوب خان امریکی مشورے کے بالکل خلاف تھے مگر جب ان سے کہا گیا کہ صدر کینیڈی ایک خط لکھ کر ان سے یہ گذارش کریں گے تو وہ سننے کو تو تیار ہوئے مگر ساتھ ہی انھوں نے یہ شرط رکھی کہ ’اس کے بدلے میں امریکہ کشمیر کے مسئلے پر بھارت کے خلاف سخت رویہ اپنانے کا وعدہ کرے‘۔گیلبریتھ کی ڈائری کے حوالے سے ریڈل نے لکھا ہے: ’دیکھا جائے تو ایوب خان یہ کہہ رہے تھے کہ امریکہ اور پاکستان ایک ساتھ مل کر بھارت کو مجبور کریں کہ وہ کشمیر ان کے حوالے کر دے اسی طرح جیسے چین بھارت کی زمین پر قبضہ کر رہا تھا

۔ یہ ایک طرح سے پاکستانی بلیک میلنگ تھی۔‘کتاب کے مطابق ایوب خان نے کینیڈی سے کوئی وعدہ نہیں کیا اور ساتھ ہی اس بات پر ناراضگی بھی ظاہر کی کہ امریکہ نے پاکستان کو بتائے بغیر ہی بھارت کو چین کے خلاف ہتھیار فراہم کیے۔لیکن جنگ کے بعد جب ایوب خان نے اس کا مطالبہ کیا تو امریکی سفیر گیلبریتھ نے واشنگٹن کو جواب دیا کہ چین سے شکست کے بعد نہرو بالکل ٹوٹ چکے ہیں اور مقامی سیاست میں ان کی ساکھ اس وقت ایسی نہیں ہے کہ وہ کشمیر جیسے معاملے پر کوئی اہم فیصلہ کر سکیں۔ یا د رہے کہ یہ وہی سفیر گیلبریتھ تھے جو نہرو کے اتنے قریب سمجھے جاتے تھے کہ بہت سے لوگ انھیں نہرو کا ہی مشیر کہنے لگے تھے۔

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

اگر مندرجہ بالا حقائق کو سچ مان لیا جائے اور اسی پر سوچتے ہوئے بات کو آگے بڑھایاجائے تو ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ پاکستان نے ماضی میں بھی کبھی جارحیت کی کوشش نہیں کی چہ جائیکہ آج کرے ۔ دوسری بات یہ کہ کشمیر کی آزادی کے بغیر پاکستان ایک نامکمل ملک ہے جس کی شہ رگ اس کے دشمن کے پاس ہے جسے وہ جب چاہے دباسکتا ہے ۔میں آج کے کالم میں کسی بھی سیاست دان بیوروکریٹ یا کسی بھی افسر شاہی پر تنقید نہیں کروں گا بلکہ آج کاکالم کشمیر کے حوالے سے ہی ہو گا ۔میرے جیسے پاکستانیوں کے لئے خوشی کی بات یہ ہے سیاسی وفوجی قیادت کشمیرپر اپنا موقف دوٹوک انداز میں پیش کرچکی ہے ۔اقوام متحدہ میں پاکستانی وزیراعظم میاں نواز شریف کی تقریر سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے لیکن امن پسندی کی آڑ میں کوئی ملک پاکستان کی سا لمیت پر قبضہ کرنے کی کوشش میں ہے تو اسے سبق سکھایا جاسکتا ہے پاکستان میں فوجی وسیاسی قیادت اورمذہبی رہنما ؤں سمیت پاکستانی کشمیر کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہیں۔

یہاں میں امیر جماعۃ الدعوۃ پروفیسر حافظ محمد سعید کا ذکر لازمی کروں گا کہ یہ وہ مذہبی رہنما ہے جس سے بھارت ہمہ وقت ڈرتا رہتا ہے اور تازہ خبر بھی یہی ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نے موساد کی مدد سے ایک آپریشن شروع کیا ہے جس میں حافظ محمد سعید کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جائے گی ۔حافظ سعید کا سب سے بڑا جرم یہی ہے کہ وہ کشمیر کو پاکستان کا ببانگ دہل حصہ قرار دیتے ہیں اور پاکستانی قوم کو یاد دلاتے رہتے ہیں کہ اپنے مقصد سے پیچھے نہ ہٹ جانا ۔حافظ سعید کا بطور خاص ذکر کرنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ ایک پروفیسر ہوتے ہوئے اس پا ئے کا کام کررہے ہیں کہ دشمن ہمہ وقت ان کے پیچھے ہے۔

آزادکشمیر میں 99% آبادی مسلمانوں کی ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی 77% کے لگ بھگ ہے ۔۔ 16مارچ 1846 کو انگریزوں نے کشمیر کو ڈوگرہ را جہ گلاب سنگھ کے ہاتھ صرف پچھتر لاکھ روپے میں بیچا۔1837 میں گلاب سنگھ جب وہ جموں کا گورنر تھا نے پختون قبیلے یوسفزئی کے ہر فرد کے سر کی قیمت صرف ایک نا نک شاہی روپیہ مقرر کی اور یوں ہزاروں مسلمان شہید کر دیئے گئے۔

عورتوں کو گلاب سنگھ کے حرم میں بھیج دیاگیا یا اس کے سپاہیوں کو دے دیا گیا یاپھر لاہور کی منڈی میں بیچ دیا گیا۔ 1863 میں اس کے جانشین رنبیر سنگھ نے ہنزہ اور یاسین کے علاقے میں اپنے خلاف اٹھنے والی مخالفت کو جس طرح دبایا وہ بھی ظلم کی بے مثال داستان ہے جب مندوری پہاڑی میں چھپی ہوئی زخمی عورتوں کو ان کے بچوں سمیت زندہ جلا دیا گیا ،کل دو ہزار دیہاتی مارے گئے اور پانچ ہزار کو جبری مشقت کے لیے لے جایا گیا۔کشمیریوں کے مسائل یہاں ختم نہیں ہوئے بلکہ انگریز ہندوستان سے گیا تو کشمیر کا مسئلہ یہیں چھوڑ گیا۔ کشمیر کے راجہ ہری سنگھ نے انگریز سے خریدا ہوا کشمیر بھارت کے ہاتھ بیچ دیا اور یوں کشمیر ایک دفعہ پھر بک گیا اور اس بار تو مفت میں بیچ دیا گیا اور ایک ایسے خریدار کے ہاتھ بیچا گیا جو کشمیری کو گلاب سنگھ سے بھی زیادہ بے قیمت سمجھتا ہے اپنی آزادی کی بات کرنے والے کو یوں قتل کرتا ہے اور نامعلوم اجتماعی قبروں میں یوں دفناتا ہے کہ اس کا کہیں نام و نشان بھی باقی نہ رہے کہ مبادا آنے والی کشمیری نسلیں اس کی بہادری اور قربانی سے متاثر ہی نہ ہو جائیں۔ کشمیر آج کی ترقی یافتہ دنیا میں بھی جب اپنی آزادی کی بات کرتا ہے تو اسے دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے۔ جب کہ اس کی 77% مسلمان آبادی ہندو خواہش پر بھارت کی غلام ہے اور نہ صرف اس پر آٹھ لاکھ ایسی فوج متعین ہے جس کو ہر کشمیری جان پر ہر قسم کے اختیارات حاصل ہیں بلکہ بھارت بھر سے ہندو لاکر یہاں بسائے جارہے ہیں ،مندر بنائے جارہے ہیں اور انہیں خصوصی مراعات دی جارہی ہیں تاکہ کشمیری مسلمانوں کے اکثریت کی بنا پر آزادی کے حق کی تو جیہہ کو ختم کیا جا سکے۔

Indian Army in Kashmir

Indian Army in Kashmir

کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے یہ جملہ قائد کا ہے لیکن حقیقت ، وقت کی ہے کہ اسکے بغیر نہ تو پاکستان کا نام نہ اس نقشہ مکمل ہے۔ یوں توبھارت میں بہت سے مسلم اکثریتی علاقے ہیں لیکن کشمیر کا مسئلہ مختلف یوں ہے کہ یہ قدرتی طور پر پاکستان کا حصہ ہے اور پاکستان کے ساتھ متصل ہے۔ پاکستان کے بیشتر دریا کشمیر سے نکلتے ہیں یعنی ان کے منبے کشمیر میں ہیں یوں پاکستان کی رگوں میں دوڑتا لہو کشمیر سے آتا ہے دوسری طرف پاکستان کشمیر کیلئے اتنا ہی اہم ہے ایک تو مذہبی رشتہ اور دوسرے ہندوستان جیسے پڑوسی کی موجودگی میں اس کے تحفظ کی ضمانت اسی میں ہے کہ وہ پاکستان کا حصہ بنے۔ پاکستانی اور کشمیری عوام کبھی ایک دوسرے کو الگ سوچ بھی نہیں سکتے اور یہی وجہ ہے کہ بھارت گذشتہ اڑسٹھ سال سے جو مظالم ڈھارہا ہے اس پرپاکستانی عوام ہمیشہ دکھ کا شکار بھی ہوتے ہیں اور غم و غصے کا بھی۔ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ کہنے والوں نے کبھی کشمیریوں کے دکھ پر دکھ کا اظہار نہیں کیا۔ کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی کو دہشت گردی قرار دینے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ آزادی دنیا کے ہر انسان کی طرح کشمیریوں کا بھی حق ہے۔صرف 2010کے اعدادوشمار لیں تو بھارت کی عظیم جمہوریت کا پول کھل جاتا ہے۔ صرف اس ایک سال میں 447کشمیری مسلمان بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید ہوئے جبکہ 6076عام شہری زخمی ہوئے۔ گھروں کی تلاشی بھی بھارتی فوج کا ایک پسندیدہ مشغلہ ہے اور اسی شغل کو جاری رکھتے ہوئے 132گھروں کی تلاشی لی گئی اور ان ساری کاروائیوں کے دوران 2188کشمیری گرفتار ہوئے۔

ان گرفتار شدگان میں سے گیارہ زیرِ حراست افراد غائب کر دیئے گئے۔ عورتوں اور بچوں کااس صورت حال میں متاثر ہونا ایک قدرتی امر ہے لہٰذا عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہو گئے لیکن اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ امر وہ ہوتا ہے جب عورتوں کی آبروریزی کی جاتی ہے اور کشمیر میں بھارتی فوجی مسلسل اس مکروہ فعل میں ملوث ہے ۔صرف سال 2010میں 87خواتین کی بے حرمتی کی گئی۔ صرف دسمبر کے مہینے میں دس لوگوں کی شہادت کے ساتھ تین خواتین کی بے حرمتی کی گئی ہے۔ 78کو تشدد بنا کر شدید زخمی کیا گیا ہے۔ اگر یہ ایک سال کے اعداد و شمار ہیں تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مجموعی طور پر کیا صورتِ حال ہوگی۔ 2010میں کشمیر میں بد ترین کرفیو نافذ رہا۔ بین الاقوامی میڈیا کے کشمیر میں داخلے پر پابندی لگائی گئی تا کہ کشمیر کے حالات کو دنیا کی نظر سے اوجھل رکھا جا سکے اگرچہ یہ کرفیو اور پابندی ہی دنیا کو جگانے کو کافی تھے تاہم انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اس طرح سے کبھی بھی نہ چیخیں جیسے وہ کسی ایک انسان کے ساتھ زیادتی پربھی چیخ اٹھتی ہیں درست ہے کہ ایک انسان پر بھی ظلم نہ ہو لیکن یہاں تو پورے خطے پر ظلم ہو رہا ہے۔

جس طرح کشمیری مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی پرچم اور پاکستان سے الحاق کے نعرے لگاتے ہیں بالکل اسی طرح پاکستانیوں کے دل بھی کشمیریوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں ۔ ہم پاکستانی یہ بات دنیا کوبتادینا چاہتے ہیں کہ کشمیر سے ہمارا رشتہ ایک کلمہ کی بنیاد پر ہے اور یہ وہ رشتہ ہے جو پوری دنیا کوشش بھی کرلے تو ختم نہیں کرسکتی ۔ مندرجہ بالا کتاب کے حوالے سے اگر بات کروں تو یہ پاکستا ن کاحق ہے کہ پاکستان کشمیر کو بھارت کے تسلط سے آزاد کروائے ۔کشمیریوں کو بھی آزادی کا اتنا ہی حق ہے جتنا چائے بیچنے والے بھارتی وزیر اعظم کو ہے۔

Muhammad Atiq ur Rehman

Muhammad Atiq ur Rehman

تحریر: محمد عتیق الرحمن
03216563157