کشمیر: بھارت نے سوشل میڈیا پر پابندی عائد کر دی

Kashmir Tensions

Kashmir Tensions

کشمیر (جیوڈیسک) بھارتی زیر کنٹرول کشمیر میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے بعد انٹرنیٹ سروس مہیا کرنے والی تمام کمپنیوں کو فیس بک، ٹوئٹر اور واٹس ایپ جیسی تمام سوشل میڈیا ویب سائٹس عارضی طور پر بند کرنے کے احکامات جاری کر دیے گئے ہیں۔

بھارت کے مقامی حکام کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ’سماج دشمن عناصر سوشل میڈیا کو قومی مفاد کے خلاف‘ استعمال کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے ایک ماہ کے لیے اسے بند کر دیا گیا ہے۔ بھارتی حکام کے مطابق امن عامہ کے قیام کے مفاد کے تحت اس پابندی میں توسیع کی جا سکتی ہے۔

ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کشمیر میں سوشل میڈیا پر ہی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ قبل ازیں حکومت کی طرف سے اکثر و بیشتر موبائل انٹرنیٹ سنگلز بلاک کیے جاتے ہیں۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق وادی کشمیر میں بھارت مخالف جذبات جڑ پکڑ چکے ہیں اور یہ دنیا کا سب سے زیادہ فوجی موجودگی والا علاقہ بن چکا ہے۔

نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق زیادہ تر کشمیری یا تو آزادی کے حق میں ہیں یا پھر پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔ کشمیر کے مشہور علیحدگی پسند باغی لیڈر برہان وانی کی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد سے کشمیر میں جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ بھارتی حکومت ان احتجاجی مظاہروں پر قابو پانے اور انہیں کچلنے کے لیے کرفیو کے نفاذ، موبائل نیٹ ورک کی معطلی اور اخبارات ضبط کرنے جیسے حربے استعمال کر چکی ہے۔

بھارتی حکام کا الزام عائد کرتے ہوئے کہنا ہے کہ سوشل میڈیا مظاہرے آرگنائز کرنے اور پھر حکومتی املاک کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ معلومات کی ایک بڑھتی ہوئی جنگ میں دونوں فریق ہی سوشل میڈیا کو تصاویر اور ویڈیو فوٹیج پھیلانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

بھارت کے زیر کنٹرول کشمیر میں تقریباﹰ پانچ لاکھ فوجی تعینات ہیں، جب کہ بھارت میں اس علاقے میں موجود فوج کے کردار پر بھی بحث چھڑ چکی ہے۔ چند روز قبل سوشل میڈیا پر گیارہ سیکنڈ کی ایک ایسی ویڈیو وائرل ہو گئی تھی، جس میں ایک کشمیری کو بھارتی فوج کی طرف سے گاڑی کے آگے باندھ کر ہیومن شیلڈ کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا۔

اس ہفتے کے اوائل میں جموں و کشمی کی وزیر اعلیٰ نے بڑھتی ہوئی کشیدگی کے مسئلے پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ بات چیت کی تھی۔ اس ملاقات کے بعد محبوبہ مفتی کا کہنا تھا کہ صورتحال کو معمول پر لانے کے لیے مذاکرات کی ضرورت ہے۔