کشمیر میں بھارتی الیکشن ڈرامہ فلاپ

Kashmir Indian Elections

Kashmir Indian Elections

تحریر : سعد فاروق
مقبوضہ کشمیر میں انڈین قبضے کو ستر سال ہونے کے قریب ہیں ان ستر سالوں میں انڈیا نے کشمیر پر قبضہ مضبوط کرنے کے لیے جہاں لاکھوں کشمیریوں کا خون بہا کروحشت ودرندگی کی خوفناک مثالیں قائم کیں وہیں کشمیر میں دنیا کو دکھانے کے لیے نام نہاد الیکشن کیڈرامے بھی جسکیلیے کشمیریوں کو بھارت نے بڑیسنہری خواب دکھائیلیکن کشمیریوں نیہرالیکشن کا بائیکاٹ کرکے ثابت کیا کہ آزادی کیسوا ان کو کوئی پیشکش قبول نہیں ہے حال ہی میں کشمیر میں الیکشن ڈرامہ ایک پھر رچایا گیا قابض فوج نینام نہاد ضمنی انتخابات سے قبل سرینگر، اسلام آباد، پلوامہ، کولگام اور بانڈی پورہ کے اضلاع میں گھروں پر چھاپے مار کر کشمیری نوجوانوں اور معمر افراد سمیت 3 درجن سے زائد کشمیریوں کو گرفتار کرلیا تاکہ اس نام نہاد ڈرامے کو کامیاب کیاجا سکے9اپریل کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی لوک سبھا کی ایک نشست پر ضمنی انتخابات کا انعقاد کیا گیا۔یہ حلقہ وسطی کشمیر کے تین اضلاع پر مشتمل ہے۔

ان میں سری نگر، بڈگام اور گاندر بل کے اضلاع شامل ہیں۔ یہ انتخابی حلقہ پر امن تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں انتخابی سرگرمیاں شمالی کشمیر کے مقابلے میں زیادہ دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ریاستی اثر رسوخ استعمال کر کے ان علاقوں میں جعلی ووٹ پول کرنے کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ اس لیے یہاں پولنگ کی شرح بھی بہتر ہوتی ہے۔ اس سب کے باوجودکشمیریوں نے مودی سرکار کا 9اپریل کے جعلی انتخابات کا ڈھونگ مسترد کر دیا۔اس نشست کے لیے 12لاکھ 60 ہزارووٹرز کا انداج کیا گیا تھا۔ جعلی ووٹ پولنگ کے باوجود ٹرن آ?ٹ 7 فی صد رہا۔اسے تاریخ کا کم ترین ٹرن آوٹ بھی کہا جارہاہے۔مقبوضہ کشمیر میں انتخابی ڈھونگ کے خلاف مکمل ہڑتال رہی۔ نوجوان گولیوں کا مقابلہ پتھروں سے کرتے رہے۔ ڈیڑھ ہزار پولنگ مراکز میں سے اکژ ویران رہے۔ مظاہرین نے کئی مقامات پر پولنگ اسٹیشنوں میں گھس کربیلٹ بکس اورالیکٹرانک ووٹنگ مشینز چھین لیں اور پولنگ عملے کو بھاگنے پر مجبورکردیا۔ 70پولنگ اسٹیشنوں کو تالے لگادیے گئے۔کئی مقامات پر پولنگ مراکز اور پولنگ عملے کی گاڑیوں پر پتھراؤ کیا۔بڈگام میں بھارتی فوج اورپولیس نیاندھادھند فائرنگ کرکے8 کشمیری شہید کردئیے۔ شہادتوں کی خبر پھیلتے ہی سری نگراور دیگر مقامات پر مظاہروں میں شدت آگئی۔

ہزاروں لوگوں نے سڑکوں پر آکر بھارت کے خلاف اور آزادی کے حق میں فلک شگاف نعرے لگائے۔مقبوضہ کشمیر پر قابض حکومت نے ضمنی انتخاب کا ڈرامہ رچاتے ہوئے 8 افراد کی جان لے لی لیکن کشمیریوں نے ثابت کردیا کہ انتخابات حق خودارادیت کا متبادل نہیں ہو سکتے۔ ضلع بڈگام کی تحصیل بیروہ کے ایک پولنگ اسٹیشن پر نوجوان پاکستانی پرچم لے آیا جب کہ پولنگ اسٹیشن کے باہر بھارتی فوجی اہلکار بے بسی کے عالم میں کھڑا رہا۔ 10 ١پریل کو 8افراد کی شہادت پر شدید مظاہرے دیکھنے کو ملے۔ انڈین سیکورٹی اداروں نے پیر کے دن ان مظاہروں میں چار مزیدمظاہرین کوشہید کر دیا۔ یوں دودن میں 12افراد الیکشن ڈرامے کی بھینٹ چڑھ گئے۔ مقبوضہ کشمیر میں سرینگر کے 38 پولنگ سٹیشنوں پر دوبارہ پولنگ کیموقع پرحریت قیادت کی اپیل پر پولنگ اسٹیشن سنسان رہیاورلوگوں نے پولنگ کا مکمل بائیکاٹ اور ہڑتال کی گئی۔

سرینگر میں باغ مہتاب اورضلع بڈگام کیعلاقوں ری پورہ، چرار شریف، خان صاحب اور گلون پورہ سمیت متعدد پولنگ سٹیشنوں میں ایک بھی ووٹ نہیں ڈالا گیا۔ حکام نے تصدیق کی ہے دوبارہ پولنگ کے دوران حلقے کے 38 پولنگ سٹیشنوں میں 35 ہزار میں سے صرف 519 ووٹ ڈالے گئے۔ بڈگام میں 7٫106 میں سے صرف تین ووٹ ڈالے گئے تھے۔ عینی شاہدین کیمطابق متعدد مقامات پر غیرکشمیریوں کو بھارتی فوجیوں کی حفاظت میں ووٹ ڈالتے ہوئے دیکھا گیا۔ پولنگ بوتھ ویرانی کا منظر پیش کرتے رہے کیونکہ بہت سے پولنگ سٹیشنوں میں کوئی ووٹ نہیں ڈالاگیا۔ بھارت کے نام نہاد پارلیمانی انتخابات کی پولنگ کے دوران بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں شہید ہونیوالے آٹھ کشمیریوں کے اہلخانہ سیاظہار یکجہتی کیلئے بڈگام کی طرف مارچ کیا جانا تھا لیکن بھارت فوج نے لیکن بھارتی فوج کشمیریوں کو گھروں سے ہی نانکلنے دیا اورمسلسل چھٹے ہفتے بھی نماز جمعہ ادا نہ کرنے دی۔ جبکہ دوسری طرف حز ب المجاہدین کے کمانڈر شہید برہان وانی کے بھائی خالدمظفر وانی کی شہادت کی دوسری برسی کیموقع پر ضلع پلوامہ میں ترال اور دیگر علاقوں میں ہڑتال کی گئی۔ ترال قصبے میں مظاہرین اور بھارتی فورسز کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔ ضلع ڈوڈہ میں بھی ہڑتال کی گئی۔ پوسٹ گریجویٹ کالج راجوری کے طلبائنے بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں شہریوں کے مسلسل قتل عام کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرے کئے۔ طلبائنے آزادی کے حق میں اور بھارت کے خلاف فلک شگاف نعرے بلند کئے۔ قصبے میں دکانیں اورتجارتی مراکز بند رہے اور سڑکوں پر ٹریفک معطل رہی۔ بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں شدید آنسو گیس کی شیلنگ کی وجہ سے دم گھٹنے سے ایک خاتون کی موت اور درجنوں نوجوانوں کی گرفتاریوں کے خلاف پلوامہ میں بھی ہڑتال کی گئی۔ ا بھارتی فورسز نے چھاپوںکے دوران 25 نوجوانوں کو گرفتار کیا ہے۔ دوبارہ پولنگ کے موقع پر بڈگام میں دفعہ 144 نافذ رہی۔ فورسز کی 20 اضافی کمپنیاں تعینات رہیں، وادی میں موبائل انٹرنیٹ بدستور معطل ہے جبکہ ریل سروس بحال رہی۔ الیکشن کے موقع پر سخت سیکورٹی انتظامات کئے گئے تھے۔ فورسز کی20اضافی کمپنیوں کے علاوہ الیکشن کی نگرانی کیلئے 2 خصوصی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کو تعینات کیا گیا تھا۔

قابض فوج اور پولیس نے بعض علاقوں میں لوگوں کو زبردستی پولنگ سٹیشن لانے کی کو شش کی تاہم انہیں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ بھارتی اخبار کے مطابق پولنگ کی شرح 0.7 فیصد تک رہی۔ سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق اور محمد یٰسین ملک نے بڈگام ضلع کے 38پولنگ بوتھوں پر نئے سرے سے الیکشن ڈرامہ رچانے کے موقعے پر ان علاقوں کا کریک ڈاو¿ن کرکے کرفیو نافذ کرنے، ہزاروں اضافی فورسز کے اہلکاروں کو تعینات کرنے اور بیسیوں نوجوانوں کو حراست میں لینے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے یہ جمہوریت کے چہرے پر سیاہی ملنے کے مترادف ہے اور حکومت ایسا کرکے حالات کو مزید ابتر بنانے کی حماقت کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا بے شمار نوجوانوں کو گرفتار کرکے خوف وہراس پھیلایا گیا اور لوگوں پر زبردست دباؤ ڈالا گیا البتہ اس کے باوجود حکومت کو رسوائی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں لگا اور ان کا یہ شو بھی فلاپ ہوگیا۔ قائدین نے بھارتی حکمرانوں اور ان کے ایجنٹوں کو مشورہ دیا وہ کشمیر میں الیکشن ڈرامے رچانے کا پٹارا اب بند کریں، مداری کا یہ کھیل اب ختم ہوچُکا ہے اور حالات نے ایک نئی نہج اختیار کی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن ڈرامے دہرانا اب بے چینی اور خون خرابے کو بڑھاوا دینے کے مترادف عمل ہوگا۔ قائدین نے اپنے بیان میں بھارتی حکمرانوں کو مشورہ دیا وہ کسی طرح کی اکڑ بازی نہ کریں اور زمینی صورتحال کے مطابق فیصلے لیکر دوراندیشی کا مظاہرہ کریں۔ انہوں نے کہا تنازعہ کشمیر کا سب سے زیادہ پُرامن اور قابل عمل حل استصواب رائے کے انعقاد میں مضمر ہے۔کشمیر میں عموما ویسے بھی پولنگ کم ہوتی ہے لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ لوگ تقریبا ووٹ ڈالنے ہی نہیں نکلے۔

گذشتہ 30 برسوں میں پہلی بار ووٹنگ کی شرح نہایت کم رہی اور الیکشن پر حریت پسندوں کی طرف سے دی گئی بائیکاٹ کی کال کا اثر حاوی رہا۔ مقبوضہ وادی میں ایک اورانتخاب 12 اپریل کو اننت ناگ میں ہونا تھا لیکن بھارتی جارحیت کے خلاف مقبوضہ کشمیر میں شہریوں کی جانب سے شدید احتجاج کے بعد انتہا پسند مودی سرکار گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئی۔ بھارتی الیکشن کمیشن نے مقبوضہ کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں ڈھونگ بائی الیکشن ملتوی کر دیا۔ ضمنی انتخاب کی نئی تاریخ 25 مئی دی گئی ہے۔ فیصلہ وادی میں جاری کشیدہ صورتحال کی وجہ سے کیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر کی حکمراں جماعت اور بھارتی وزارت داخلہ نے بھی الیکشن ملتوی کرنے کی درخواست کی تھی جبکہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت نواز سیاسی جماعتیں بھی بھارتی جمہوریت سے تنگ آ گئی ہیں۔ اننت ناگ میں ضمنی انتخابات ملتوی ہونے پر کانگریس اور نیشنل کانفرنس کے کارکنان نے بھارتی جمہوریت مردہ باد کے نعرے بلند کئے۔ مظاہرین نے بھارتی جمہوریت کو مودی جمہوریت کا نام دے دیا۔ اننت ناگ کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کا حلقہ ہے جہاں سے وہ لوک سبھا کی ممبر بنی تھیں۔ گزشتہ جون میں ان کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد سے وہ نشست خالی پڑی ہے۔ دوسری طرف بھارتی سیاستدان اپنے حکمرانوں کو کشمیر کے مسئلے پر تنقید کا نشانہ بنانے لگے،سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم بھی حکومت پر برس پڑے،ایک بیان میں انکا کہنا ہے حکومت نے کشمیر پر خطرناک راستہ اختیار کر رکھا ہے،حکومت کی پالیسی کی وجہ سے بھارت کشمیر کھو رہا ہے،طاقت کے بجائے کشمیریوں سے مذاکرات کئے جائیں،ضمنی انتخابات کا بائیکاٹ بھارت کیلئے خطرناک ہے۔

سابق وزیر چدمبرم نے کہا فوج اورپولیس وادی میں ناکام ہوچکی،انہوں نے اعتراف کیا کہ کشمیریوں کی تحریک خالص کشمیریوں کی ہے۔مقبوضہ کشمیر وقفے وقفے سے تشدد کی آگ بڑھک اٹھتی ہے جس میں قیمتی انسانی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔گلی بازار سنگ بازوں کے سنگ آباد ہیں۔ یہ گوریلا سنگ باز نت نئے طریقوں سے بھارت کے سیکورٹی اداروں کے لیے پریشانی کا سبب بن رہے ہیں۔ روزانہ سیکڑوں نوجوان ٹولیوں کی شکل میں گلیوں میں نمودار ہوتے ہیں۔ پتھر برساتے ہیں اور دوبارہ گلیوں میں غائب ہو جاتے ہیں۔یہ وہ نوجوان ہوتے ہیں جنہیں بھارت کیصحافی حریت پسند کا نام دیتے ہیں یعنی آزادی چاہنے والے۔ان حریت پسندوں کا واحد ہتھیارپتھر ہیں۔ انہیں جوابی حملوں کاسامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ کچھ گرفتار ہو جاتے ہیں۔جیلوں کی سلاخوں میں تشدد سہتے ہیں۔ کچھ پیلیٹ گن کا شکار ہو کر بینائی سیمحروم ہوجاتے ہیں۔ کچھ اندھی گولیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جوگولیوں سے بچ جاتے ہیں وہ زندگی بھر کے لیے اپاہج ہو جاتے ہیں۔اس طرح کے احتجاجی حملے فلسطین کے مسلمان اسرائیل کے خلاف بھی کرتے رہے ہیں۔ اس گوریلا سنگ بازی کو انتفادہ کا نام دیا گیا تھا۔

کشمیر میں بھی کئی برسوں سے نوجوان ٹولیوں کی شکل میں پتھر پھینک کر اپنے غصے کا اظہارکررہے ہیں۔ پاکستان اسپانسرڈ دہشت گردی کے بھارتی الزام کا سامنا کرتا رہا ہے۔ سنگریزوں سے حملے کرنے والے ان معصوم کشمیری نوجوانوں نے یہ ثابت کیا کہ بھارت کا اسپانسرڈ دہشت گردی کا ڈرامہ صحیح نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پتھراؤ بھی کبھی کسی سے پیسے لے کے کیا جاتا ہے۔ ان کا ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ بیلٹ گن کے وحشیانہ استعمال سے ان کی بینائی تو چھینی جا سکتی ہے لیکن ان کے آزادی کے خواب کوئی نہیں چھین سکتا۔

Saad Farooq

Saad Farooq

تحریر : سعد فاروق
0321-1065575
saadifarooqpk@gmail.com