بادشاہ اور سلیمانی لباس

King Suleman

King Suleman

تحریر : شاہ بانو میر
پرانے زمانے کی بات ہے کہ کسی ملک کے بادشاہ کا انتقال ہوگیا اور اعلان ہواکہ رواج کے مطابق سب لوگ شاہی محل کے عقب میں واقع میدان میں اکٹھے ہو جائیں تا کہ ہُما نامی پرندے کو فضا میں چھوڑا جائے اور وہ پرندہ جس خوش نصیب کے سر پر بیٹھ جائے اسے ملک کا بادشاہ بنا دیا جائے ـ یہ منادی ایک مفلوک الحال انسان نے بھی سنی ـ دوسرے دن مقررہ وقت پر وہ میدان میں پہنچا ـ دیکھتے ہی دیکھتے اتنا بڑا میدان انسانوں سے یوں بھر گیا کہ تِل دھرنے کی جگہہ نہ رہی ـ لوگ مضطرب تھے آخر کار ہرکارے نے بگل بجا کر اعلان کیااور اس ہجوم میں کچھ لمحے پیشتر شور سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھییکلخت اعلان کے ساتھ ہی ہُو کا سنّاٹا طاری ہو گئی ـہُما کو اڑا دیا گیا ـ سب دم سادھے اس پرندے کو دیکھ رہے جو شائد خوش بختی کی علامت بن کر ان کے سر پرآبیٹھے طویل چکر کاٹ کر جیسے ہُما بھی ان کے صبر کا امتحان لے رہا تھا ـ آخر کار اس نے نیچے کی طرف غوطہ لگایا اور اس غریب انسان کے سر پے آکر بیٹھ گیا ـ لوگوں کے منہ جیسے اتر گئے ـ لمحہ بھر میں قسمت نے ذرے کو جیسے آسمان بنا دیا

شاہی کارندے بڑی عزت و احترام سے شاہی بگھی میں سوار کروا کے بادشاہ کو محل کی جانب لے کر وہاں سے روانہ ہوئے اور لوگ اس پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس انسان کی قسمت پر رشک کرتے ہوئے گھروں کو بد دلی سے روانہ ہوئے ـ بادشاہ بننے کے بعدغربت اورچھوٹی سوچ سے باہر نہیں آیا ـ ہر وقت راگ رنگ موج مستی ہنسی مذاق شاہی دربار نہ ہوا کسی مداری کا تماشہ ہو گیاـ وہ دربار میں آتا اور علم و فنون کی باتوں کی بجائے سطحی اور کم عقل درباری اس کو خوش کرنے کیلیۓ اس کی شان میں قصیدہ گوئی کرتے اور اس سے رقم بٹورتے ـ کبھی اس کی پوشاک کی تعریف ہوتی تو کبھی اس کے عطر کی کبھی اس کی قسمت کی تو کبھی اس کی مہمان نوازی اور دریا دلی کی ـ باہر عوام کے کیا مسائل تھے اسے کوئی غرض نہ تھی ـ خوش آمد اور اپنی طاقت کے بیجاہ استعمال سے اس نے ہر اس زبان کو تالا لگا دیا

پسِ زنداں کیا جس نے بھی سمجھانے کی یا تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کی کوشش کی ـ ہوتے ہوتے اس سادہ لوح بادشاہ کی بیوفوفی احمقانہ باتیں ہمسایہ ممالک میں پھیلنے لگیں ـ ہمسایہ ملک کے ٹھگ بہت مشہوری رکھتے تھے لوٹ مار میں جیسے آج پاکستان کے سیاستدان ـ 2 گروہ بیٹھے اپنی کاروائیاں سنا رہے تھےایک دن اس کا ذکر آیا تو ایک گروہ نے کہا کہ ہم اس بادشاہ کو کچھ بھی لالچ دے کر اسکی آنکھوں پر شہرت کی نام کی پٹیّ باندھ کر آسانی سے بیوقوف بنا سکتے ہیں ـ وہ ہمیں مالا مال بھی کرے گا اور ہم اس کو احمق بنا کر انعام و اکرام سمیٹ کر واپس آئیں گے ـ دوستوں میں بات ضد پے آئی تو وہ شرط لگا بیٹھےـ6 ماہ کے اندر وہ انعام و اکرام اور سچی داستان لے کر واپس لوٹیں گے

Strong vs Weak

Strong vs Weak

یہ ٹھگ بہت ذہین تھے نفسیاتی طور پے انسان کو کیسے قابو کرنا ہے خوب اچھی طرح جانتے تھے ـ اہل شہر کی کمزوریوں کی چھان بین ،کرتے اور پھر وقت آنے پر اپنے لئے ان سے مال بٹورتے ان کے پاس ایک زنبیل تھی جس کو کچھ عمرو عیار کی زنبیل سے مشابہہ قرار دیتے اس میں ہر شہری کا نامہ اعمال محفوظ تھا ـ یعنی سارا شہر ان کے پاس یرغمال تھا منٹوں میں کالی چیکٹ قمیض میں فقیر بنے ہوں تو اگلے ہی لمحے بیش قیمت زرق برق پوشاک میں آتے دکھائی دیں گے ـ بھیس بدلنے میں ماہر تھے ـ غصہ ان کے اندر نام کو نہ تھا ٹھنڈے ٹھار پرسکون ـ ایک مہینے کی مسافت طے کر کے وہاں پہنچے تو عجیب حال دیکھتے ہیں کہ ہر شخص پریشان اور اور بد حالی فاقہ کشی کا شکار ہے جیسے آج پاکستان بد حالی ان کے چہرے بشرے سے ظاہر جاہل بادشاہ صرف اپنی ذات کا غلام بنا ہوا ہے ـ دوسرے ملک کے لباس اور شاہانہ طمطراق کی وجہ سے انہیں شاہی محل میں داخل ہونےمیں کوئی دقت پیش نہی آئی

بادشاہ کے حضور جاتے ہی کورنش بجا لائے اور بادشاہ کی بےجاہ تعریفوں لگے پُل باندھنے ـ درباری پیچ و تاب کھانے لگے کہ آج ہمارے حصے کا انعام یہ لے جائیں گے ـ انکی جانب سےبادشاہ کو پیش کئے جانے والے معمولی تحائف ان کی چرب زبانی سے بادشاہ کو بہت بیش قیمت معلوم ہوئےـ اس نے تعریفیں سن کر انعام و اکرام اور نوازشات کی بارش کر دی ـ اپنے ساتھ پرتکلف کھانا کھلا کر پوچھا کہ وہاں آنے کا کیا مقصد ہے؟ جنابِ والا آپ نے ہمارے اسلاف کی سلیمانی ٹوپی کے بارے میں سنا ہوگا؟ ہاں کہانیوں میں سنا ہے وہ ٹوپی جسے پہن کر انسان غائب ہو جاتا ہے؟ جی جناب وہ ناچیزوں کے بزرگوں نے بنائی تھی ـ نسل در نسل یہ فن اب ہم میں منتقل ہوا ہے ناچیز سلیمانی ملبوسات کے ماہر ہیں دنیا بھر کے بادشاہ ہم سے یہ لباس بنوا چکےہیں عالیجاہ آپ کی شان و شوکت دریا دلی کا سن کر ہماری خواہش ہے کہ ہم آپ کیلیۓ بھی یہ بیش قیمت لباس تیار کریں یہیں

محل میں ہمارا گزر بسر ہو یہیں ہم سکون سے اپنا کام کریں گے یہ طویل دورانیے پر مشتمل محنت طلب کام ہے بناتے ہوئے کوئی اسے دیکھ نہیں سکتا صرف اسے دکھائی دیتا ہے جو اسے تیار کرتا ہے ـ پہننے کے بعد آپکو بھی دکھائی دے گا ـ لوگ اش اش کر اٹھیں گے ایسا بے مثال ہیرے جواہرات کی چمک سے خیرہ کرے گا نگاہیں ـ اوہو ایسی بات ہے تو خزانچی کو حکم دیتا ہوں کہ ابھی خزانے کا منہ کھول دے تم اس لباس کی تیاری کل سے شروع کر دوـ جی ظِلِّ الہیٰ لیکن ہمارے ساتھ قافلے میں شامل کچھ لوگوں کو واپس جانا ہوگا ـ ہمارا کچھ سامان وہیں رہ گیا ٹھیک ہے تم کل خزانچی کو بتا کر وہ سب منگوا لو جو تمہیں چاہیے تم لباس کی تیاری شروع کرو دنیا کا سب سے خوبصورت اعلیٰ میرے معیار کے مطابق لباس مجھے چاہیے ـ یہ بے شک چلے جائیں دوسرے دن انہوں نے خزانچی سے سونا چاندی ہیرے جواہرات کا آدھا حصّہ دے اپنے ایک ساتھی کوملک روانہ کیاـ

King Solomon Temple

King Solomon Temple

خود ایک محل کا کمرہ لے کر خود کو وہاں مقید کر لیا شاہی خاص مہمان اعلیٰ پکوان کھا کر پڑے سے سوتے رہتے یا پائیں باغ میں سیر کرتے شکار کھیلتے کہ آج بہت تھک گئے کام کر کے ـ بادشاہ کو کہ دیا کہ انہیں بار بار نہ بلایا جائےـ جب ان کی جانب سے فہرست سامان کی بھیجی جائے تو خزانچی وہ سامان فوری طور پے انہیں پہنچائے ورنہ لباس کی تیاری اور جواہرات کی ٹنکائی میں مسئلہ بن سکتا ہےـ پھر ایسا ہی ہوا تین ماہ گزر گئے اسی دوران بے شمار قیمتی اشیاء سے خزانہ خالی ہو کر ان کے ملک میں جاتا رہا ـ تین ماہ بعد بادشاہ نے انہیں طلب کیا اور لباس کا پوچھا کہنے لگے عالیجاہ کل تشریف لے آئیں اور اسکو زیب تن کر کے خود بتائیں کہ کیسا کام کیا ہے؟ بادشاہ بڑا مسرور دوسرے دن ان کے کمرے کی طرف گیا ہرکاروں نے جیسے ہی آمد کے بِگل بجا کر آمد کی اطلاع دی تو یہ سب بیٹھ گئے کوئی ہاتھ اوپر کر رہا جیسے دھاگے میں کوئی چیز پرو رہا ہے کوئی انگلیوں سے باریک ٹنکائی کررہا ـ بادشاہ جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا اس نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کمرے میں دیکھا اس کو کچھ دکھائی نہیں دیا ٌ وہ قدرے خفگی سے بولا کہاں ہے وہ لباس؟ یہ سب کھڑے ہوگئے اور ہاتھوں میں جیسے کوئی وزنی چیز تھام رکھی ہو کہنے لگے جناب ِ والا یہ سلیمانی لباس ہے جو پہننے والے کو دکھائی نہیں دیتا ـ کس قدر دیدہ زیب ہے کس قدر نفیس کام ہوا ہے سبحان اللہ اچھا بادشاہ ہنوز الجھن میں تھا

لیکن انہوں نے ایک غائبانہ چیز کو اپنی پُراثر باتوں سے اس طرح بیان کیا کہ بادشاہ یقین کر گیا ـ انہوں نے بادشاہ کو وہ غیر مرئی لباس پہنایا اور بدلے میں بادشاہ نے اپنے جسم پے موجود سارے قیمتی زیورات انہیں انعام میں دیے ـ ساتھ موجود دربان لوگ یہ تماشہ دیکھ کر بار باربادشاہ کو اس ذلّت سے بچانا چاہ رہے جو ہوتی دیکھ رہے تھے لیکن خوش آمد پسند بادشاہ نے قہر آلود نگاہ اُن پر ڈالی تو وہ سب ساکت و جامد ہو گئے ـ بادشاہ کی پوشاک اتروا کر نئی پوشاک زیب تن کچھ ایسے کی کہ واقعی یونہی لگ رہا تھا وہ جو کر رہے وہ سب سچ انہوں نے کہا کہ جناب والا ہمارے بڑوں کی روایت ہے کہ یہ لباس کچھ دیر بعد پہننے والا دیکھ سکتا آپ براہ کرم اسی کمرے میں کچھ وقت گزاریں اور ہماری کاریگری کو دیکھیں اور ہمیں اجازت دیں کئی ماہ ہو گئے اپنے گھر والوں سے بچھڑے ہوئے بادشاہ نے فاخرانہ انداز میں لباس پہن کر درباریوں کو حقارت سے دیکھا اور انہیں ہنسی خوشی اجازت دے دی ـ درباری بے لباس بادشاہ کو دیکھنے سے کترا رہے تھے مگر بادشاہ ان کے جھکے ہوئے سروں کو حسد جلن سمجھ رہا تھا

مخلص درباری اپنے ملک کے بادشاہ کی یہ درگت بنتے دیکھ کر اس کی نادانی کم عقلی اور سادگی پر باقاعدہ آنسوؤں سے رو رہے تھے کم عقل کم علم بادشاہ نہ سمجھ سکا ماحول کو دیکھتے ہوئے وہ مکار ٹھگ تیزی سے باندھے ہوئے سامان کو اٹھا کر محل سے باہر نکلے ـ وہ روانہ ہوئے تیزی سے منزلوں پے منزلیں مارتے جلد سے جلد اپنے ملک میں پہنچنا چاہتے تھے کہ کہیں شاہی ہرکارے نہ آ لیں ـ اپنے ملک واپس آکر انہوں نے دوستوں کے سامنے خزانے کے ڈھیر لگا کر اپنے کارنامے اور بادشاہ کی بیوقوفیاں خوب مزے لے لے کر بیان کیں وہ سب ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے کہ سادہ لوح بادشاہ نجانے کتنی دیر وہاں اکیلا بیٹھا ہوگا اور جب ایک تار بھی نظر نہیں آئی ہوگی تو اس پر کیا بیتی ہوگی ؟ خوش آمدی ٹھگ ہمیشہ ایسے لوگوں کو پھنساتے جنہیں اپنی باتوں سے کسی بھی نا ممکن کامیابی کے ممکن ہونے کا یقین دلا دیتے اور عیاری کے ملبوسات پہنا کر رسوا کرتےـ

Shahbano Mir

Shahbano Mir

تحریر : شاہ بانو میر