علم یا تعلیم

Knowledge

Knowledge

تحریر : زاہد محمود
علم کسے کہتے ہیں؟ کیا اس کا مطلب تعلیم حاصل کرنا ہے جو ہم تعلیمی اداروں میں حاصل کرتے ہیں یا پھر مذہبی اداروں میں جو تعلیم دی جاتی ہے؟ علم کا اصل مفہوم آپ کے اندر سے کچھ باہر نکالنا جیسے ہم کنویں سے پانی باہر نکا لتے ہیں نہ کہ کنویں میں ڈالتے ہیں۔ آج کے تعلیمی ادارے ہمارے دماغ میں مختلف موضوعات سائنس، انجینئرنگ، معاشیات، قانون، ریاضی، فلسفہ، تاریخ، فقہ وغیرہ وغیرہ انڈیلتے ہیں ہماری یادداشت میں ایک ڈیٹا سٹور کرتے ہیں۔

سال بعد امتحانات کے ذریعے ہما ری یاد داشت چیک ہوتی ہے اس میں کتنا ڈیٹا سٹورہے کامیاب ہونے پر اگلی کلاس میں تر قی دے دی جاتی ہے۔ سولہ سال تک یہ سلسلہ دہرا کرآخری امتحان میں پاس ہونے پر ڈگری دے کر ایک دفتر میں کام کرنے والی مشین بنا دیا جاتا ہے ۔علم تونورِخدا ہے۔ یہ نورِخداکسے کہا گیاہے یہ جا ننا بہت ضروری ہے۔

تخلیقِ کائنات کے تصور سے بہت پہلے جب صرف نورِ خدا تھا اس وقت اپنی پہچا ن اس نورِہدایت کی آزمائش کے لیے انسا ن کو بنا یا گیا ایک ایسا معجزہ ہوا اس انسا ن کے اندر اس نور کو تسخیر کرنے کی صلاحیت ڈا ل دی ۔آج انسا ن اپنی ذات کی پہچان کرتے ہو ئے شعورِ ہدایت کے راستے اس نور تک جا پہنچا جس کا برسوں سے متلا شی تھا درحقیقت جب چشمِ باطن ظاہر ہوئی انسا ن کو پتاچلا علم جسے نورِخداکہا گیا اس کے باطن اس کی اپنی ذات میںشعورِ آگاہی کا نام ہے جس کی پہچان کرنا اس کے بس میں نہیں ۔نورِبصیرت اور دانش مندی ہی اس سے آشنا ہے۔

ایک طرف وہ انسا ن جو مکمل روبوٹ ہے جسے ہمارے تعلیمی ادارے تیا ر کرتے ہیں دوسرا انسا ن وہ ہے جو علم ،نورِخدا ڈھونڈتا ہے اس کے لیے کوشش کرتا ہے پھر اسے پا لیتا ہے ۔ایسا انسا ن کائنات کی اصل حقیقت سے آشنا ہو جا تا ہے ۔اس شخص میں ایک غیر معمولی تبدیلی آجاتی ہے آنکھوں میں انو کھی فاتحانہ چمک ہوتی ہے جسے ہر کوئی محسوس نہیں کر سکتاعلم اس کے اندر عاجزی پیدا کرتا ہے ۔اس کے لیے دنیا قابلِ تسخیر ہوتی ہے۔ اس کی بلند ہمتی اور حوصلے کے سا منے یہ دنیا آٹے میں نمک کی سی نہیں رہتی۔ تما م دنیا وی خواہشیں دم توڑدیتی ہیں۔ حقیقت سامنے دکھائی دیتی ہے۔ اسے مخلوق ِ کائنات کی خدمت، عبادت نظر آتی ہے۔

Education

Education

یہ نورِخداہے۔ جو گناہگا روں اور بد بختوں کو نہیں دیا جاتا۔ اس شعورِ ہدایت کو عام کرنے کے لیے اس کی اہمیت ،اپنی ذات کو پہچاننے میں مدد دینے کے لیے مختلف اوقات میں اسی نورِ خدا کے توسط اسکے نیک بندے اس دنیا میںآئے ۔ا س کابول بالاکیالیکن خطاکارانسان نہ سمجھ سکا۔علم وشعورسے عاجز لاکھوں کروڑوںانسان سمجھ نہ سکے اصل میں انہیں کیاسمجھایا،سکھایا جارہا ہے۔ حضرت عیسی نے جب انسان کو اپنے اندر جھانکنے ،خودی کی پہچان کرنے کا کہا انہیں سولی پر سجا دیا گیا۔

چونکہ انسان برسوں سے ایک جہالت کے خول میں تھا وہ اپنے اندر سے باہر جھانکنے کا طلب گار نہ تھا اسے ان باتوںسے سخت کو فت ہوئی اس کے بعدآنحضرتۖتشریف لائے۔ آپ نے بھی وہی تعلیمات ایک نئے انداز میںسیکھائی۔ اسی نور کی اہمیت کو اجاگرکیا جس کا راستہ حبُ انسانیت سے گزرتا ہے۔ لیکن لوگ انسانیت تو نہ سمجھ سکے ہاں مسلمانیت ضرورسیکھ لی جب کہ مسلما نیت تو انہوںنے انسا نیت کو سمجھنے کے لیے ایک مشق کے طور پر دی۔ حقیقت میں جب انسانیت سمجھ میں آتی ہے پھر نورِخدا کا ظہور ہوتا ہے جس سے گناہگار بہت دور ہیں۔آپ اپنی چشمِ باطن سے دیکھیںآپ کو لاکھوں کروڑوں لوگ نظر آئیںگے بڑے بڑ ے افسربڑے دفتروں کوچلانے والے تعلیم یافتہ لوگ توجو بہت اچھی مشینیں ہیںجن کے پاس اعلی تعلیم ہے مگر اپنی ذات اپنی پہچان میںوہ زیرو ہیں۔

اس خشک تعلیم نے انہیں بے حِس کر دیا ہے ۔انہیں اپنی اعلی تعلیم پر بہت فخر ہے۔آپ کو ایک مقابلے بازی کا ماحول نظر آئے گا جس میں ایک انسان باقی سب کو ہرانے کی دوڑ میں مصروف ہے اس سے کیا حاصل ہو گا کیا آپ دوسروں کو ہرا کر ان کا استحصال کر کے ایک بڑے آدمی بن جائیں گے ؟نہیں اور بھی چھوٹے ہو جائیں گے ایسی تعلیم آپکو کیا بناتی ہے؟ ایک بڑا انسان جو ساری انسانیت کو ہرا کر ان کا استحصال کر کے سب سے بڑا بننا چاہتاہے یاپھر ایک چھوٹا انسان جو دوسروں سے بڑا بننا چاہتا ہے ۔یہ مقابلے بازی کیوں شروع ہو تی ہے ؟ایسا کیوں ہوتا ہے انسان اپنا اصل مقصد بھول کر ایک غیر ضروری کام کی طرف دوڑتاہے؟ یہ کام بچپن سے شروع ہو تا ہے۔

School

School

سکول آ کر اس کو ترویج ملتی ہے وہ پہلے کلاس میں مقابلے بازی کی فضابناتا ہے پھرپورے سکول میں۔ایسا کرنے سے اسے بڑے انعاموں سے نوازا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے اسکی ساری زندگی پر حاوی ہوجاتاہے۔کیا ایسے ا نسان نورِخدا کے قابل ہوسکتے ہیں جن کی ساری زندگی دوسروں سے بر تر بننے میں گزر گئی ہو؟ جبکہ تمام انسان برابرہیں۔برتری کا کوئی تصورہے تو وہ خدمتِ انسانیت کی راہ سے گزر کرعلم او ر شعورِ ہدایت تک رسائی ہے۔ ایسے ہی لوگوں کو گناہ گار اور بدبخت کہا گیا۔

آخر یہ نورِبصیرت یہ دانشمندی جسے علم کہا گیا یہ کہاں سے حاصل ہو ہمارے تعلیمی ادارے تو اس سے نا آشنا ہیں پھر یہ کیسے ممکن ہے ؟اس کا ایک ابتدائی راستہ ہے ۔اگر آپ اس میں کامیاب ہو جا ئیں تو پھر بقیہ راستے خودبخود عبور ہو جاتے ہیں پہلا راستہ اپنی اَنا کا راستہ جب آپ اپنی اَنا اپنی خودداری چھوڑکر ایک عام انسان بنتے ہیں پھر ہی آپ خاص انسان بنتے ہیں۔ یہ کافی مشکل ہے مگر قدرے آسان ہے۔

دوسری طرف مذہبی ادارے ہیںجو صرف مذہب کی تعلیم دیتے ہیں جب ایک بچہ کسی مذہبی ادارے میں تعلیم حاصل کرتا ہے اس کا مستقبل کیا ہوتا ہے وہ صرف ایک مبلغ ہوتا ہے جو مذہب کی تبلیغ کرکے اپنا روزگار چلاتا ہے مبلغ ہونا کچھ غلط نہیں لیکن صرف مبلغ ہونا غلط ہے آپکو اس وقت ہزاروںنیم مبلغ نظر آئیں گے جو تبلیغ کے اصل مفہوم سے بھی واقف نہیںلیکن اسلام کا پر چارکرتے وعظ دیتے ہوئے اسلامی محفلوں میں جھوم رہے ہوتے ہیں کیا ایسے مبلغ ہمیں حقیقی علم سے شناسا کراسکتے ہیں؟ آج ہمارے تعلیمی اداروں میں کشمکش سی صورتحال ہے ایک ریس لگی ہوئی ہے۔

سبھی لنگڑے، لولے گھوڑوںکی مانند دوڑ رہے ہیں۔ جس وجہ سے آج ہم علوم و فنون کی دنیا میں دیگر اقوام سے صدیوں پیچھے ہیں ایک ہزار سال کے لگ بھگ ہم ایجادات میں صفر چلے آ رہے ہیں۔ علم وشعور کا مقصد اس کی اصل اہمیت کہیں نظر نہیں آتی۔ انسان کو اشرف لمخلوقات اسی علم کی بدو لت کہا گیا ہے ۔استاد کو اتنا بلند مقام کیوں دیا گیا تا کہ وہ دوسروں کو ان کے اصل مقام سے روشناس کرائے ۔ہمارے ہاں بیشتراساتذہ تو خود اپنے ہی مقام سے آشنا نہیں ایک بلندسوچ دانشمندانہ دماغی تخلیق کی ضرورت ہے پہلے ٹیچر خود کو ا ستاد بنائے پھر استاد اپنے طلباء کو حقیقی علم سیکھاکر انہیں باشعور انسان بنائے۔

Zahid Mehmood

Zahid Mehmood

تحریر : زاہد محمود