لاہور کی تیسری بڑی سبزی منڈی، غلاظت منڈی بن گئی

Lahore Vegetable Market

Lahore Vegetable Market

تحریر : محمد نورالہدیٰ
لاہور کی وحدت روڈ پر واقع سبزی منڈی علامہ اقبال ٹائون عرصہ دراز سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ۔ یہاں عموماً غلاظت کے ڈھیر لگے رہتے ہیں اور اکثر بارش ہونے پر کئی کئی دن تک کیچڑ سے اتھڑی رہتی ہے … میں گذشتہ 2 عشروں سے اس جگہ کو یونہی دیکھ رہا ہوں ۔ ممکن ہے یہاں کی ایسی حالت اس سے بھی پرانی ہو ۔ مگر 20 سال سے یہاں کی کوئی سڑک بنانے کی کوشش نہیں کی گئی ۔ ہاں سال 2005ء میں ایک مرتبہ جماعت اسلامی کی ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی جب ایم این اے تھیں ، تو انہوں نے خصوصی فنڈ سے سبزی منڈی جانے والی ایک شاہراہ بنوائی تھی ، مگر ایک اپوزیشن پارٹی کی ممبر کے طور پر جتنا ان کے بس میں تھا ، انہوں نے کیا … بعدازاں منڈی کے اندر کی دیگر سڑکیں تاحال یہاں کے منتخب نمائندوں کی ”نظر کرم” کی منتظر ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ یہ غیرگنجان آباد علاقہ ہے جس کی وجہ سے یہاں کی گلیاں عدم توجہی کا شکار ہیں ، بلکہ صرف اس سبزی منڈی کے اطراف کی آبادی تقریباً تقریباً 15 ہزار کے قریب ہے جبکہ یہاں سے مستفید ہونے والے علاقوں کی مجموعی آبادی کو ملائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک سے ڈیڑھ لاکھ کے نفوس پر مشتمل ہے ۔ علامہ اقبال ٹائون ، ملتان روڈ ، اعوان ٹائون ، یتیم خانہ ، سمن آباد ، مصطفی ٹائون ، منصورہ ، ہنجروال ، اعظم گارڈن ، ایجوکیشن ٹائون اور دیگر علاقوں کے لوگ اس منڈی سے استفادہ کرتے ہیں ۔ یہ منڈی نہ صرف قومی اسمبلی کے 2 حلقوں کو مستفید کرتی ہے بلکہ دیگر قریبی یونین کونسلوں سے بھی لوگ یہاں پر آتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کسی پسماندہ دیہات سے گزر رہے ہوں ، جہاں وسائل کی شدید قلت اور آبادی ناخواندہ ہو ۔ مگر یہاں معاملہ الٹ ہے ۔ مذکورہ علاقہ جات پڑھے لکھے لوگوں پر مشتمل ہیں ۔ البتہ ، یہاں آنے والے بیوپاریوں کو یقینا یہ احساس نہیں ہوتا ہوگا کہ وہ اپنے گھر ، محلے یا علاقے سے کہیں دور ہیں ۔ یہاں کی سڑکیں واقعی انہیں ”گھر” جیسا ماحول دیتی ہیں ۔ لیکن جو لوگ قرب و جوار سے یہاں خریداری کیلئے آتے ہیں ، وہ شدید مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔

این اے 126 اور پی پی 151 کا یہ علاقہ جوکہ یونین کونسل215 میں آتا ہے ، یہاں کی سبزی و پھل منڈی لاہور کی غالباً تیسری بڑی منڈی ہے ۔ اس کا رقبہ 20 سے 30 ایکڑ جبکہ اس کے ساتھ ہی ملحقہ فروٹ منڈی کا رقبہ بھی اسی کے قریب قریب ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں روزانہ کی بنیاد پر کم از کم 5 سے 6 ہزار لوگ خریداری کرنے آتے ہیں … یہاں کے ایم این اے تحریک انصاف کے شفقت محمود اور ایم پی اے میاں محمود الرشید ہیں ، جبکہ حال ہی میں منتخب ہونے والے بلدیاتی نمائندے بھی پی ٹی آئی سے تعلق رکھتے ہیں ۔ اس سے قبل یہاں کے منتخب عوامی نمائندوں میں جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ کے علاوہ اعجاز احمد خان ، طارق بانڈے ، عمر سہیل ضیا بٹ اور سہیل ضیا بٹ ایم پی اے اور ایم این اے ہوا کرتے تھے ، تعلق ن لیگ سے تھا ، میرا نہیں خیال کہ کبھی کوئی عوامی نمائندہ اس آبادی میں آیا ہوگا ، یا کسی نے اس مسئلے کے حل کیلئے سنجیدہ رویہ اپنایا ہوگا ۔ انہوں نے محض اقتدار کے مزے لوٹے ۔ یوں کہئے کہ چراغ تلے اندھیرا رہا ۔ وہ شہباز شریف جیسے گڈگورننس کے حامل وزیراعلیٰ کی بدنامی کا ذریعہ بنے رہے ۔ جس صوبے کا شہباز شریف جیسا ایڈمنسٹریٹر ہو ، وہاں کے کم از کم ن لیگی نمائندے ترقیاتی کاموں سے آنکھیں موندے رکھیں تو ان کا کڑا احتساب ہونا چاہئے ، کہ انہوں نے ابنِ میاں شریف کے عوام دوست ویژن کی توہین کئے رکھی … اب یہاں تحریک انصاف کے نمائندے عوامی مسائل کے حل کے ذمہ دار ہیں ، لیکن یہ منتخب اراکین اسمبلی اور بلدیاتی نمائندے فنڈز کی عدم دستیابی اور یتیمانہ سلوک کا رونا رو کر علاقہ مسائل سے خودساختہ چشم پوشی اختیار کرکے ”ممبری” کے دن پورے کرنے میں مصروف ہیں۔

میاں محمود الرشید نے یہاں سے 58 ہزار ووٹ لئے اور 31 لوگوں کا مقابلہ کرکے عوامی نمائندے منتخب ہوئے … شفقت محمود بھی 17 حریفوں کو ”پچھاڑ” کر اور ساڑھے 96 ہزار سے زائد ووٹ لے کر یہاں کے ممبر قومی اسمبلی بنے ہیں ۔ انہوں نے خواجہ احمد حسان ، لیاقت بلوچ اور زاہد بخاری جیسے اہم سیاستدانوں کو شکست دی ہے ، مگر اہم عوامی مسئلے کے حل میں ناکام دکھائی دئیے ہیں ۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے محمود الرشید کا کہنا تھا کہ انہوں نے بارہا ضلعی حکومت کی توجہ اس جانب دلوائی لیکن وہ مارکیٹ کمیٹی پر ملبہ ڈال کر بری الذمہ ہوجاتی ہے جبکہ مارکیٹ کمیٹی فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے بے بسی کا اظہار کررہی ہے … دوسری جانب جن کے دن رات ، اپنے حلقے کی بجائے شہر اقتدار میں گزرتے ہوں ، انہیں عوامی مسائل سے کیا سروکار ہوسکتا ہے ۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ہمارے رابطہ کرنے پر شفقت محمود نے اس مسئلے سے لاعلمی اور بے چارگی کا اظہار کرتے ہوئے جانبدارانہ سلوک کا شکوہ کیا ۔ ہماری توجہ پر سب سے موثر ردعمل جماعت اسلامی لاہور کے امیر ذکراللہ مجاہد کا آیا ، جنہوں نے اس مسئلہ پر بھرپور احتجاج اور مقامی حکومت کو توجہ دلانے کا عندیہ دیا اور بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

قابل ذکر امر یہ بھی ہے کہ حکومتی سطح پر اس مارکیٹ کو ہر سال ایک ”ٹھیکہ” دیا جاتا ہے ، رواں سال بھی 53 لاکھ روپے کا ”ٹھیکہ” دیا گیا، جس کے مطابق صبح کے اوقات میں منڈی کا ایک ایک نمائندہ باہر نکلنے والے ہر راستے پر کھڑا ہوجاتا ہے اور سامان لے جانے والوں سے 10 روپے ”پرچی فیس” وصول کرتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ”سائیکل سٹینڈ” کے پیسے ہیں ، حالانکہ منڈی میں کہیں بھی باقاعدہ سٹینڈ نہیں ہے ، جسے جہاں جگہ ملتی ہے ، اپنی وہیکل کھڑی کرلیتا ہے ۔ یہ تمام پیسہ کہاں جاتا ہے ، یہ سوال توجہ طلب ہے ۔ اس رقم سے منڈی کی کچھ نہ کچھ شکل نکالی جاسکتی تھی ، حالت زار بہتر ہوسکتی تھی لیکن مجال ہے جو یہاں اتنے عرصہ میں ایک آنے کا بھی کام ہوا دکھائی دیا ہو ۔ مارکیٹ کمیٹی کے ذمہ داران کے مطابق منڈی کی سڑکیں بنانے کیلئے 27 کروڑ روپے کا بجٹ درکار ہے ، جو کہ اونج لائن منصوبہ کی وجہ سے جاری نہیں کیا جارہا ۔ ایک استفسار پر جواب ملا کہ گذشتہ سال ڈی سی او لاہور کو اس ضمن میں درخواست دی گئی تھی ، مگر شنوائی نہیں ہوئی ۔ یہاں یہ سوال بھی توجہ طلب ہے کہ میٹرو بس منصوبہ 2012 جبکہ اورنج ٹرین منصوبہ 2015 کے آخر میں شروع ہوا ، مذاکورہ مسئلہ کم از کم 20 سال پرانا ہے ۔ مارکیٹ کمیٹی یا منتخب نمائندوں نے کتنی بار حکومتی توجہ یہاں مبذول کروائی ، اس سوال کا جواب شاید کسی کے پاس نہیں ہے۔

بہرحال لاہور کی یہ تیسری بڑی فروٹ و سبزی منڈی درحقیقت غلاظت منڈی بن چکی ہے ۔ اس گندگی سے نہ صرف علاقے میں ڈینگی سمیت مختلف بیماریاں پھیلنے کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے بلکہ علاقہ مکین اور گاہک بھی سخت پریشان ہیں ۔ ٹوٹ پھوٹ اور جگہ جگہ کچڑے و گندگی کے ڈھیر کا شکار اس منڈی کی سڑکوں سے عموماً پیدل افراد کا گزرنا بھی محال ہوتا ہے ۔ مکینوں کیلئے روزمرہ اشیائے خوردو نوش کا حصول عذاب بن کر رہ گیا ہے ۔ تھوڑی سی بارش کی صورت میں بھی منڈی کی ہر سڑک کئی کئی دن تک کیچڑ اور غلاظت سے اتھری رہتی ہے ۔ لوگ سبزیوں کے ساتھ ساتھ بیماریاں بھی ساتھ لے جانے پر مجبور ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر لوگ منڈی آنے کی بجائے گلی محلوں یا ریڑھی بانوں سے بوجوہ مہنگا سودا لینے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں ۔ دوسری جانب تاجر بھی اس بات پر سخت نالاں ہیں کہ حکومت اور عوامی نمائندوں کی جانب سے اس حصے کو نظرانداز کرنے کی وجہ سے ان کا کاروبار تباہ ہورہا ہے ۔ اگر فی الوقت 5 سے 6 ہزار روزانہ کی بنیاد پر گاہک یہاں آتا ہے تو سڑکیں صحیح ہونے کی صورت میں یہ تعداد 10 ہزار سے بھی بڑھ سکتی ہے ۔ تاجروں اور اہلیان علاقہ نے ارباب اختیار سے مطالبہ کیا ہے کہ سبزی منڈی وحدت روڈ کی تمام سڑکیں ہنگامی بنیادو ں پر پختہ کی جائیں اور اسے وزیراعلیٰ پنجاب کے ترقیاتی ویژن کے مطابق ایک ماڈل منڈی بنایا جائے تاکہ لوگ یہاں اطمینان سے آسکیں ، ایک اچھے ماحول میں خریداری کرسکیں اور مضر صحت اشیاء کی بجائے صحت افزاء خوراک لے کر جائیں۔

Muhammad Noor-Ul-Huda

Muhammad Noor-Ul-Huda

تحریر : محمد نورالہدیٰ