خوشی کا دن موت کا پیغامبر ثابت ہوا

Leyyah News

Leyyah News

لیہ (طارق محمود پہاڑ) 19 اپریل کی شام عمر حیات کے بیٹے سجاد حسین کے گھر اس کے پہلے بیٹے کی پیدائش کے موقع پر خوشی کا دن موت کا پیغامبر ثابت ہوا قریبی چک 111 اڈے سے خرید کر لائے گئے لڈو کھانے سے موت کی ایسی سیاہ اندھیری چلی کہ اب تک 31 افرادنے تڑپ تڑپ کر جان دے دی چک نمبر 105 اور گردو نوا ح کے چکوک ماتم کدہ بنا دیے گئے یوں کہئیے کہ یہ چک قبرستان کا منظر پیش کر رہا ہے اسی طرح چک نمبر 109 اور265کے محنت کشوں نے بھی اسی دکان سے مٹھائی خرید کی اور اُن میں سے بھی کچھ لوگ موت کے منہ میں چلے گئے اس واقع کے بعد قوم کے مسیحا ڈاکٹروں کے چہروں سے بھی نقاب اُتر گئے جنہوں نے متاثرین کے ساتھ ناروہ سلوک کیا اور اس طرح کے دل خراش واقع کے ایک ہفتہ کے بعد بھی تشخیص کے عمل میں موجود حامیوں کو بھی آشکار کر دیادوسری جانب ضلعی افسران اور سیاستدانوں نے عوام کو مصیبت سے نکالنے کے لئے عملی قدم اُٹھانے کی بجائے لاشوں پر سیاست کی 60 کے قریب متاثرین میں سے 30لقمہ اجل بن گئے۔

آئے روز لاشوں کی وصولی کا سلسلہ جاری ہے لیکن خادم اعلیٰ پنجاب قریبی ضلع راجن پور آ کر چلے گئے اور لیہ آنے کی زحمت گوارہ نہ کی خیرات بانٹتا پھرتا ہے چھین کر آنکھیں کہ مصداق اپنے ایک وزیر خوارک بلال یاسین کو چیک دے کر لیہ بھجوا دیااطلاع کے مطابق 19اپریل کی شام سجاد کے گھر نامعلود کی پیدائش پر عمر حیات نے سجاد کے گھر پہلا بیٹا ہونے کی خوشی میں خاندان اور اہل محلہ کو اکھٹا کر کے خوشیوں کے شادیانے بجانے کا احتمام کیا برادری اور محلہ سے خواتین منے کی آمدپر ڈھولکی لے کر لڈیاں ڈال رہی تھیں کہ بچے کا داداعمر حیات پر دادا با با لطیف اور دادی خوشی کے مارے پھولے نہیں سما رہے تھے کہ نومولود کا چچامحمد رمضان قریبی چک نمبر 111موڑ پر خالد محمود نامی شخص کی دکان سے لڈو خرید کر لایا اور لڈو تقسیم کئے گئے سب سے پہلے عمر حیات نے لڈو کھایا اور کہا کہ لڈو ؤں میں کڑواہٹ ہے نا کھائے جائیں لیکن بچوں نے کہا کہ ابو آپ کے منہ کا ذائقہ خراب ہے اور تقسیم کرنا شروع کر دیے دیکھتے ہی دیکھتے چند افراد کی حالت خراب ہونے لگی۔

کچھ افراد اُلٹیاں کرنے لگے اور کچھ کو بنیادی ہیلتھ سنٹر لی جایا گیا وہاں بھی عمر حیات نے چیخ چیخ کر کہا کہ لڈؤں میں زہر ہے اس طرح ٹائم گزرتا گیا اور 60کے قریب لوگ جنہوں نے اس دکان سے مٹھائی خرید کی تھی ڈسٹرک ہیڈ کواٹر لیہ پہنچتے رہے جہاںپر ڈاکٹروں نے روٹین کے مطابق لاپرواہی سے زہر خورانی کا علاج شروع کردیا اور کچھ افراد کے میدے واش کئے گئے اس طرح ڈاکٹروں نے مریضوں کی لائن لگتے دیکھ کر اُنہیں یہاں ٹریٹمنٹ دینے کی بجائے نشترہسپتال ملتان ریفر کر دیاجہاںپر وہ لوگ موت و حیات کی کشمکش میںنشتر پہنچے تو اُنہیں 2گھنٹے تک کسی نے نہ پوچھا اور بلا آخر سنگدل اور سفاک ڈاکٹروں نے جو کہ خود کو مسیحا کہلواتے ہیں متاثرہ 8افراد کو دھکے دے کر نکال دیا جس کے بعد لیہ ہسپتال میں داخل پہلے مریض نے دم توڑ ااور پھرلاشوں کے نا تھمنے کا سلسلہ شروع ہو گیا اور پھر دونوں ٹانگوں سے معذور جس نے خود بھی لڈو کھایا تھا زندہ و جاوید ہے۔

لیکن اُس کے 8بیٹے 28سالہ سجاد،26سالہ ارشاد،24سالہ خضر حیات،20سالہ عرفان ،18سالہ سکندر16سالہ شیر محمد،15سالہ شہباراور 9 سالہ فرزانہ بیٹی ،18سالہ ماموزاد سرور،5سالہ شائستہ پوتی،اڑھائی سالہ حسیب پوتا،3سالہ حفیظ پوتا،دیگر 4سالہ عشرت ،12سالہ سانول ،عدنان ولد محمد صدیق اور بشیر احمداسی طرح چک نمبر 107کے محمد اشرف، امیر محمد،عبدالغفور ،انڈس نہر کے نیاز خان کا اکلاتا بیٹا 4سالہ عادل ،نصرت بی بی ،سمیت 30افراد یک بعد دیگرے جاں بحق ہوتے رہے چک نمبر 105کے عمر حیات کے خاندان کے 13افراد سمیت 17جبکہ 109ٹی ڈی اے کے 14افراد نے بھی اس دکان سے مٹھائی خرید کر کھائی ان میں تین افراد جو آپس میں کزن بتائے جاتے ہیں موت کے منہ میں چلے گئے اسی طرح چک نمبر 110ٹی ڈی اے کی 3معصوم کلیاں بھی مرجھا گئیں ۔ موت کا فرشتہ جانے کا نام نہیں لے رہا لیکن 10روز گزرنے پر بھی ضلعی انتظامیہ اور حکومت اصل حقائق سامنے نہ لاسکی ،لاہور سے وزیر خوراک بلال یاسین ڈائریکٹر فوڈ عائشہ ،سیکٹری ہیلتھ علی جان اور انسپکشن ٹیم کے 7افراد کو لیہ بھجوایا گیا۔

جنہوں نے متاثرین اور مرنے والوں کے لواحقین کے بیانات قلم بند کئے جہاں پر لوگوں نے چیخ چیخ کر ڈاکٹروں کے رویے پر بات کی DGہیلتھ پنجاب میڈیکو لیگل ڈائریکٹر فوڈ پنجاب جناح اور میوں ہسپتال کے سینئیر ڈاکٹر کی خصوصی ٹیمے سرگرم ہوئیں تاہم 10دنوں کی کوششیں بے کا رثابت ہوئیں تاہم فرانزک رپورٹ آنے کے باوجود بھی زہر کا تریاق تلاش نہ کیا جا سکااموات کا سلسلہ جاری پولیس نے ابتدائی طور پر مٹھائی فروش خالد محمود اُس کے بھائی طارق محمود اور کاری گر کر گرفتار کر کے پوچھ گھوچ کی جہاں پر یہ بات سامنے لائی گئی کہ اُن کے ہمسائے میں زرعی ادویات کی دکان ہے جنہوںنے ہماری دکان میںاپنا سامان رکھا ہوا تھا اور غلطی سے پوڑیا جسے چائنہ کی سلفولائل بتایا گیاکاری گر نے کڑھائی میں ڈال دی کڑھائی میں ڈال دی پتہ چلنے کے باوجود لالچی مٹھائی فروش نے چند ہزار کی گھانی کو لاشوں پر ترجیع دی اور زائع کرنے کی بجائے اس میں ٹاٹری و دیگر اجزاء ڈال کر ذائقہ کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتا رہا اور مٹھائی فروخت کردی ،انسانی جانوں سے کھیلنے والے ملاوٹ مافیا جو کہ ملک میں کھلے عام دو نمبر کا کاروبار کر ہے ہیں کو شرم نہیںآتی اور وہ یہ نہیں سمجتھے کے وہ تاجر نہیں صارف بھی ہیں۔

اگر ایک چیز فروخت کرتے ہیں تو دس چیزیں خرید بھی کرتے ہیں حوس اور لالچ نے اُن کی آنکھوں پر پردے ڈال دیے ہیں یہاں یہ بات قابل ذکر ہے خصوصا جنوبی پنجاب کے ہسپتالوں میں سہولیا ت ہوتیں تو پہلے شخص کی موت پر اس کی وجہ معلوم کرنے کے لئے آغا خان لیبارٹری سمیت کہیں سے بھی تحقیق کر لی جاتی تو شائد باقی زندگیوں کو بچایا جاسکتا تھا 9روز میں 30افراد کی موت واقع ہونے کے بعدآنے والی فرانزک رپورٹ کے مطابق یہ زہر سلفولائل کی بجائے کلوروفینا ہے جو کہ کیڑے مکوڑے مارنے کے لئے استعمال ہو تا ہے DCOلیہ اور دیگر انتظامیہ نے عملی طور پر کچھ نہیں کیا اور اب تک اپنے ذمہ داروں کو بچانے پر لگے ہوئے ہیںمقامی MNAصاحبزادہ فیض الحسن نے بھر پور کوششیں کیں اور وہ ڈسٹرک ہیڈ کواٹر لیہ ،جناح لاہوراورنشتر ہسپتال ملتان بھی مریضوں کی عیادت کے لئے پہنچے اور صوبائی سطح پر معاملے کو آجا گر کر کے وزیر اعلیٰ سے امداد منظور کرائی،RPOڈیرہ غاذی خان رحمت اللہ نیازی، سابق صوبائی وزیر احمد علی اولکھ ،سابق MPAعبدالشکور سواگ ،نیاز گجر ،DPOکپٹن ریٹائرڈ محمد علی ضیائ,DCOرانا گلزار،چوہدری اصغر علی گجر ،سردار شہاب الدین خان سیہڑ،سردار بہادر احمد خان سیہڑ،MPAحاجی عبدالمجید نیازی نے پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں محمودالرشید کے ہمرا ہ دورہ کیا اور یقین دہانی کرائی حاجی عبدالمجید نیازی نے لواحقین کو 6لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا۔

اسی طرح پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید اور سابق وزیر اعظم سید یوسف رضاء گیلانی اور سابق گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور ،MNAجمشید دستی بھی چک نمبر 105پہنچے جنہوں نے جنوبی پنجاب کے ہسپتالوں سے اُٹھتے مسیحائی کے جنازوں کو ماجرہ سنا یہاں پر بد قسمت خاندان کے سربراہ عمر حیات نے پھوٹ کر روتے ہوئے بتایا کہ اُس کا سارا خاندان ختم ہو گیا اور پورا گھر قبرستان میں تبدیل ہو چک میں زندہ لاش کی طرح ہوں حکومت لوگوں کے مرنے کا انتظار کرنے کے بعد پیسے دینے کی بجائے علاج معالجے کی سہولیات بہتر کردیں تو ایسے سانحات نہ دیکھنے کو ملیں لیہ کے چک یہ گھرانہ بے بسی کو سمیٹ کر مٹی کی چادر اُوڑھ کر ابدی نیند سو گیا مگر لاشیں مسیحا اور حکمرانوں کے لئے بہت سے سوالات چھوڑ گئیں ڈاکٹروں کے مطابق متاثرین 12گھنٹے بعد ہسپتالوں مین پہنچے اور اُس وقت تک یہ زہر ان کے جسموں میں سراہیت کر چکا تھا جس کی وجہ سے نقصانات زیادہ ہوئے لیکن افسوس اتنی بڑی تعداد میں آنے والے مریضوں کے لئے نا تو لیہ ہسپتال اور نہ ہی نشتر ہسپتال میں خصوصی بلکہ نشتر ہسپتال جہاں پر تعینات MSکا تعلق فتح پور سے ہے اسی طرح ڈسٹرک ہیڈ کواٹر ہسپتا لے کے MSاور DGہیلتھ کا تعلق بھی فتح پور سے ہے۔

بیماری اس قدر خطرناک اور سلو پوائزنگ کی صورت اختیار کر گئی کہ ہسپتالوں میں داخل مریضو ں میں سے کوئی بچنے کا نام نہیں لے رہا اور جو لوگ ہسپتالوں میں نہیںپہنچے وہ ٹھیک ٹھاک پھر رہے ہیں عوام ان جذباتی حکمرانوں سے پوچھتے ہیں جو آئے روز اپنی ایمان داری اور لوگوں کی ہمدردی کا راگ الاپتے ہیں کہ کروڑوں روپے سے کالج اور ہسپتال بنا دیے لیکن عوام کو ایسی بلڈنگوں کا کیا فائدہ جن میں نہ ادویات ہوں نہ ڈاکٹر جہاںپر ایک لاکھ سے زائد تنخواہ لینے والا ڈاکٹر ڈیوٹی دے نہ اپنی ذمہ داری کو نبھا سکے اور یہ مسیحا قصائی کا روپ دھار لے اسی طرح حکومت لوگوں کو بیماریوں سے بچانے کے لئے پینے کے صاف پانی کے پلانٹ لگائے سانس لینے کے لئے صاف ستھراہ ماحول میسر کرے تو بیماریوں میں کمی واقع ہو سکتی ہے اطلاع کے مطابق صوبائی وزیر بلال یاسین نے میاں شہبار شریف کی جانب سے لواحقین کو 50لاکھ روپے کے چیک دئے لیکن 50لاکھ روپے انسانی جانوں کا متبادل ہر گز نہیں پنجاب اسمبلی میں میاں محمود الرشید نے کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکمرانوں مذاق سمجھ رکھا ہے جنوبی حکمران جنوبی پنجاب کا تمام پیسہ اُٹھا کر اورنج ٹرین اور برجز پر لگا رہی ہے۔

جنہیں لوگوں کی صحت کا بلکل خیال نہین انہوں نے کہا کہ اگر ان ہسپتالوں میں سہولیات ہوتیں اور متاثرین کی سنجیدگی سے دیکھ بھال کی جاتی تو اتنا بڑ نقصان نہ اُٹھانا پڑتا انہوں نے معاملے کو پنجاب اسمبلی میں اُٹھانے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ اسمبلی کے باہر احتجاج کرنے کا بھی علان کیاسابق وفاقی وزیر سردار بہادر احمد خان نے کہا کہ جب تک جنوبی پنجاب کا استحصال اور جبر کا شکار رکھا جائے گا ہمیں ایسے سانحات دیکھنے کو ملتے رہیں گے وقوعے کے بعد محکمہ فوڈ اور زراعت کا عملہ حرکت میں آگیا چوک اعظم زرعی دوائی بنانے والی ایک فیکٹری کو سیل کرکے اُس کے مالک کو گرفتار کر لیا گای اسی طرح ڈپٹی ڈائریکٹر سرٹیفکیشن نے بھی فتح پور سمیت دیگر شہروں میں چھاپہ مار کاروائی شروع کر دی۔

(میں کس کے ہاتھ پے اپنا لہوتلاش کروں تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں داستانے) چند روز قبل 105چک کے 13افراد کی قل خوانی ادا کر دی گئی جس میں معززین اور اہل علاقہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی اس موقع پر ہر آنکھ اشک بار تھی جبکہ 13ویں روز بلا آخر وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف بھی چک نمبر 105پہنچ گئے جن کے ہمراہ کمشنر وRPOڈیرہ غا زی خان ڈائریکٹر فوڈ ڈاکٹر عائشہ ممتاز صاحبہ سمیت اراکین اسمبلی موجود تھے وزیر اعلیٰ نے ورثا ن کو تسلی دیتے ہوئے کہا انہیں ہر قسمی انصاف فراہم کیا جائے گا اور زہر ڈالنے والے افراد کو ہر گز معاف نہیں کیا جایا گا انہوں نے چک نمبر 120کی ڈسپنسری کو رولر ہیلتھ سنٹر کا درجہ دینے اور مرنے والوں کے بچوں کو ملازمتیں دینے کا اعلان کیا اور کہا کہ میں اگلے ہفتے پھر آؤں گا۔