قائد کا فرمان اور موجودہ حکمران

Quaid e Azam and Pakistani Politics

Quaid e Azam and Pakistani Politics

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
23 مارچ 1940کو قرار داد لاہور پاس ہوئی جوبعد میں قرار داد پاکستان کہلائی اور دنیا کے نقشے پر خالص نظریے کی بنیاد پر ایک ملک معرض وجود میں آیا۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد سے ہی ملکی سیاست پلیدگی کا شکار ہونے لگ پڑی تھی۔مارشلا ئوں نے کئی بار سیاسی تڑکے لگائے اور یحیٰی خان نے تو اپنی رنگین شاموں اور رت جگے کی عیاشیوں سے مشرقی پاکستان ہی گنواڈالا گو حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ آج تک شائع نہیں ہوسکی۔مگر جو بھی معلومات اس بارے میں ملی ہیں اس سے یہ امر عیاں ہے کہ جو مقتدر تھے یاآئندہ قابض ہو نا چاہتے تھے وہی خودملک توڑنے کی سازشوں میں ملوث تھے۔اور ” اُدھر تم اِدھر ہم” کے نعرے نے تو ملک کے ٹوٹنے کے عمل پر مہر تصدیق ثبت کرڈالی تھی۔یہ سب کچھ یحیٰی خان کی لاڑکانہ میں”شکار مہم ” کے دنوں میں طے پاچکا تھا۔

قومی اسمبلی کا اجلاس بلاتے ہی یہ نعرہ مستانہ گونج اٹھا۔ کہ جو ڈھاکہ میں منعقدہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں مغربی پاکستان سے جائے گا اس کی ٹانگیںتو ڑ ڈالی جائیں گی۔ اور یہ نعرہ 1970 کے انتخابات میں مغربی پاکستان سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے والے سیاستدان نے لگایا۔ تاکہ ملک ٹوٹنے پروہ مغربی پاکستان میں اقتدار کی باگیں سنبھال سکیں۔قوم کو تو رونے کا وقت بھی نہ دیا گیا اور اندر ا،یحیٰی اور بھٹو کی تکون نے مشرقی بازوکٹوا ڈالا۔اور ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں نام نہاد”تقریب سعید”منعقد کی گئی۔جہاں جنرل نیازی نے بھارتی جنرل اروڑا سنگھ کے قدموں میں اپنا پستول رکھ کر شکست قبول کرنے کاا علان کردیا۔اورساتھ ہی 98ہزار فوجیوں کو بھی ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہونا پڑا۔

حالانکہ فوج میں بھرتی تو ملکی دفاع کے لیے ہی کی جاتی ہے نہ کہ ہتھیار ڈالنے کے لیے۔دنیا کی تاریخ میںنہ تو کوئی ایسا واقعہ ملتا ہے اور نہ ہی آئندہ کی صدیوں میں مل سکے گا۔ہندوستانی فوجی اور را کے ایجنٹ پاک فوج کے جوانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک کر لے گئے۔اور آجکل شریفوں کا دوست مودی اس بات کو ببانگ دھل بیان کرتا ہے کہ ہاں ہم نے مشرقی پاکستان کو توڑنے میں حصہ لیا تھا جس پر ہمیں فخر ہے۔اور اندرا گاندھی نے تو اسی وقت اعلان کردیا تھا کہ ہم نے نظریہ پاکستان کو بحر ہند میں ڈبو ڈالا ہے۔98ہزار فوجیوں نے ہتھیار ہی نہیں ڈالے تھے بلکہ انھی کے ہوتے ہوئے28ہزار نوجوان مسلم بچیوں کو بھی ہندوستانی اٹھا کر لے گئے تھے۔

1947 Muslim Killed

1947 Muslim Killed

تین ہفتے تک قتل و غارت گری اور لوٹ کا بازار گرم رکھا یہ اس شہر میں واقعہ ہوا جو کہ مسجدوں کا شہر ڈھاکہ کہلاتا ہے۔اور اس میں دنیا کے کسی بھی شہر سے زیادہ مدارس عربیہ موجود ہیں۔پتہ نہیں اس وقت پاک سپاہ اور اس شہر کے باسیوں کی غیرت کو کیا ہوا؟اور عقل تو گھاس چرنے ہی جاچکی ہو گی۔اس واقعہ سے غیرت ایمانی جاگ پڑنی چاہیے تھی مگر قوم کو آج تک عیاشیوں حکمرانوں کی کہہ مکرنیوں اوررنگ رنگینیوں میں مشغول کر رکھا ہے بلکہ تحفظ حقوق نسواں بل کے ذریعے مغربی سامراجی غلامی میں دے ڈالنے کی سر توڑ کوششیں جاری ہیں۔کہ اگر کسی نوجوان،بچی، بیٹی،بہن یا بیوی کو ماں باپ خاوند یا بھائی منع کرے گا کہ رات کو دیر سے گھر نہ آیا کرویا اس وقت باہر سیر سپاٹا اور کسی مخصوص کلب یا بوائے فرینڈ کے ساتھ مت جائو تو اسے نفسیاتی دبائو کی صورت قرار دیکر تھانہ کاروائی لواحقین کے خلاف کرکے سموں والے کڑے پہنا سکے گا۔ اور ماں باپ خاوند یا بھائیوں کو گھر سے تین دن کے لیے نکال ڈالے گا۔

یہ مغربی ایجنڈے کی تکمیل کے احکامات ہی نہیں تو اور کیا ہے یہ باغیرت مسلمان قوم کو بے غیرت بنانے کا پلان ہے۔مشرقی پاکستان سے اپنی بہنوں بیٹیوں کو اٹھا کر لے جانے والوں کے خلاف غیرت ایمانی نہیں جاگی تھی اور اب اسلامی غیرت کا جنازہ اٹھانے کے لیے اسٹیج تیار کیا جارہا ہے۔تاکہ کل کلاں اگر سامراجی دیگر اسلامی ملکوںعراق ،شام، لیبیاکی طرح یہاں بھی کاروائی کریں تو کوئی مزاحم نہ ہوسکے۔ اور کچرا حکمرانوں کے تو باہر پلازے کاروبار تیار اور صنعتیں لگ چکی ہیں اور پاکستانی محلات میں ذاتی طیارے اور ائیر پورٹ موجود ہیں تاکہ فراری میں کوئی مزاحمت نہ ہوسکے۔ مگر شاید حکمرانوں کو یاد نہیں کہ ایک وہ خدا بھی موجود ہے جس نے حجر اسود پھینکا تو زمین کے وسط میں آکر گرا تھا۔

ایک زرداری “مرد حُر” سب پر بھاری نے مال کی پو ٹلی اٹھائی اور کرلی فراری۔ ملکی دفاعی قوتوں کو آنکھیں دکھائیں بڑھکیں لگائیں اور بیرون ملک چل دیا۔ ملک بنانے میں قربانیاں دینے والے مسلمانوں کا خون کب ر نگ لائے گا۔ بینظیر بھٹو ،اکبر بگٹی کو قتل اور لال مسجد میں قتل عام کرنے والا اور ملک سے غداری کا مرتکب کمانڈو بیماریوں کے علاج کے لیے جاچکا۔ریمنڈ ڈیوس کو بھی ہم بھگا چکے عدالتیں صرف بے کس غرباء کے لیے ہی ہیں انصاف ہوتا تو تبھی نظر آسکتا ہے جب غریب اور امیر جنرل اور حکمرانوں کے لیے ایک ہی قانون ہو جو کہ عملاً مفقود ہے اب سیاسی کچر ا صاف کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔23مارچ کی قراردادکی غرض و غائیت کو پورا کرنے کے لیے لاکھوں قربانیوں سے حاصل ہونے والے ملک کو مزید سیاسی پلید گیوں کا شکار ہونے سے ہم نے بچا نا ہے۔

Raheel Sharif

Raheel Sharif

اب جب کہ شہید وں کے خاندان کا فرد اسلامی سپاہ کا کمانڈر دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ رہا ہے وہ سیاسی کچرا اٹھانے اور اسے گہرا دفنانے کا کام بھی ضرور مکمل کرے گا تاکہ قرار داد پاکستان کے مندرجات اور قائد کے فرمودات کیمطابق ملک اسلامی فلاحی مملکت بنے۔جہاں سے غربت ،مہنگائی بیروزگاری کا خاتمہ ہو کر مزدوروں اور محنت کشوں کو کم ازکم پچاس ہزار روپے ماہانہ معاوضہ ملے۔کھانے پینے کی اشیاء پانچواں حصہ ،ہمہ قسم تیل تیسرا حصہ کم قیمت پر ملے،بجلی ،گیس ،صاف پانی،اعلیٰ سیوریج سسٹم تعلیم علاج جیسی ضروری سہو لتیں ہر فرد کی دہلیز پر مفت مہیا ہوں۔

حکومتی باندی بنی نیب اگر کرپٹ سیاسی کچرے پر مظبوط ہاتھ نہیں ڈالتی اور ان کے بیرون ممالک بینکوں میں دفن کردہ سرمایوں کے ڈھیر کو واپس ملک میں نہیں لاسکتی تو پھر بابا یہ سب کہانیاں ہیں!پھر تو سابقہ روایات کی طرح غریب لٹیرا جیل میں امیرڈاکو مزید ریل پیل میں رہے گا۔

قائد کے فرمودات کے علی الرغم صنعتکار پریشان ہو کر250ارب ڈالر سے زائد سرمایہ بیرون ملک بھجوا چکا ہے نیب نے کچھ نہ کیا تو پھر زرداری کہہ مکرنیاں اورسرمایہ پرستیاں،عمرانی بڑھکیاں اور دھرنیاں،شریفوں کی حکمرانیاں اور آنی جانیاں الطاف کی شراب دھتیاں سراج الحق کی کرپشنی جلسہ جلوسیاں،فرقہ پرست اور کٹھ ملائیت کے علمبرداروں کی فرقہ وارانہ دہشت گردیاں اور بالآخر آفاقی کوڑے کی انتظاریاں اور اس کی رحیمانہ نوازشیاں بھی جاری و ساری رہیں گی۔

Mian Ihsan Bari

Mian Ihsan Bari

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری