پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندا طبع لوگ

Dr. Mohammad Hamidullah

Dr. Mohammad Hamidullah

تحریر: اختر سردار چودھری ،کسووال
معروف محدث، فقیہ، قانون دان اور اسلامی دانشور ،تاریخ قرآن وحدیث کے محقق کو دنیا ڈاکٹر محمد حمید اللہ کے نام سے جانتی ہے ۔ حیدرآباد دکن میں 9 فروری 1908 ء کو پیدا ہوئے ۔آپ 8 بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے ۔ والد کا نام محمد خلیل اللہ تھا، جو خود بھی ایک ادیب اور عالم شخصیت تھے۔دادا محمد صبغت اللہ عظیم علماء تھے، جنہوں نے67 کتابیں عربی ،فارسی ،اردو میں لکھی تھیں ۔ آپ نے گھر میں ابتدائی تعلیم حاصل کی اس کے بعد جامعہ نظامیہ میں داخلہ لیا اور 1924ء میں درس نظامی مکمل کیا ۔اس کے بعد امتیازی حیثیت سے میٹرک پاس کیا ۔1924ء میں آپ نے جامعہ عثمانیہ میں داخلہ لیا اور اسلام، علم قانون میں ایم اے اور ایل ایل بی کی سند 1930ء میں حاصل کی۔ 1932ء میں جامعہ بون، جرمنی سے ڈی فل کی سند حاصل کی اور پھر اسی جامعہ میں عربی و اردو کے استاد مقرر ہوئے ۔تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا ،جرمنی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری اور جامعہ سوربون میں 11 ماہ میں ڈی لٹ کی سند حاصل کی ۔وطن واپس آ کر جامعہ عثمانیہ میں بطور لیکچرار اور اسسٹنٹ پروفیسرکے 1935 ء سے 1948 تک خدمات سرانجام دیں ۔

پاکستان کا پہلا مسودہ قانون یا قرارداد مقاصد کی تیاری کے لیے 1950 ء میں پاکستان نے جہاں دنیا بھر کے اہم علما سے رابطہ کیا انہی میں ڈاکٹر حمید اللہ بھی شامل تھے ۔آپ نے 1952ء سے 1978ء تک ترکی کی مختلف جامعات میں بطور مہمان استاد خدمات انجام دیں۔ آپ 20 سال سے زائد عرصے تک فرانس کے قومی مرکز برائے سائنسی تحقیق سے وابستہ رہے ۔جامعہ بہاولپور میں 1980ء میں طلبا کو خطبات دیے جنہیں خطبات بہاولپور کے نام سے بعد ازاں شائع بھی کیا گیا۔
پاکستان نے 1985ء میں آپ کو اعلٰی ترین شہری اعزاز ہلال امتیاز سے نوازا۔ آپ نے اعزاز کے ساتھ ملنے والی تمام رقم (ایک کروڑ روپیہ) بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ادارہ تحقیقات اسلامی کو عطیہ کردی۔ اِس جامعہ کا کتب خانہ (لائبریری) ڈاکٹر حمید اللہ کے نام سے موسوم ہے ۔آپ نے علم و تحقیق سے ایسا رشتہ باندھا کہ رشتہ ازدواج سے دور رہے ۔ علم و تحقیق سے شادی کی اورکتابیں ورثہ چھوڑا ۔آپ اردو، عربی، فرانسیسی، جرمن،قدیم و جدید ترکی، اطالوی, فارسی، انگریزی اور روسی وغیرہ سمیت 22 زبانوں پر عبور رکھتے تھے ۔اورانگریزی اور اردو کے علاوہ فرانسیسی، جرمن، عربی، فارسی اور ترکی زبان میں بھی مضامین اور کتابیں لکھی۔

Europe

Europe

ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی تحریروں کی بدولت امریکا، یورپ اور افریقہ میں اسلام پھیلا اور صرف فرانس میں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرگئی۔ ڈاکٹر صاحب کی چند مشہور کتابیں اور تصانیف کچھ اس طرح سے ہیں۔ان کی تصانیف، تالیفات، ترجموں، نظر ثانی شدہ کتابوں، کتابچوں اور رسائل کی تعداد 164 کے قریب بنتی ہے ۔ اردو مقالات کی تعداد 350 سے زائد ہے ۔ عربی میں 15 کتابیں جبکہ عربی مقالات کی تعداد 35 ہے ۔فارسی میں 6 مقالات تحریر کیے ۔”تعارف اسلام” دنیا کی 22 زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے ۔ قرآن کریم کا مکمل فرانسیسی زبان میں ترجمہ اور تفسیر ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگرد صحیفہ ہمام بن منبہ نے (احادیث کی سب سے اولین کتاب ( 677 عیسوی۔ 101ھ میں تحریر کردہ) جسے انہوںنے اپنے شاگردوں کو پڑھانے کے لیے تیار کیا تھا)۔

خطبات بہاولپور(12 خطبات )جن میں تاریخ قرآن،تاریخ حدیث ،تاریخ فقہ،تاریخ اصول فقہ و اجتہاد،اسلامی قانون بین الممالک،
دین(عقائد، عبادت، تصوف) ،عہد نبوی میں مملکت اور نظم و نسق،عہد نبوی میں نظامِ دفاع اور غزوات،عہد نبوی میں نظامِ تعلیم،عہد نبوی میں نظامِ تشریع و عدلیہ،عہد نبوی میں نظامِ مالیہ و تقویم،عہد نبوی میں تبلیغ اسلام اور غیر مسلموں سے برتاؤ۔”رسول اکرم ۖکی سیاسی زندگی ‘ ‘سیرت ابن اسحاق” سیرت طیبہ کا پیغام عصر حاضر کے نام”ا سلامی قانون کا ارتقاء و غیرہ ۔بے شک تحقیق کے مختلف میدان انہوں نے بڑے معرکہ کی چیزیں پیش کیں، لیکن شاید ان کا سب سے بڑا کارنامہ مسلمانوں کے بین الاقوامی قانون کے میدان میں ہے ،جس میں انہوں نے علمی دنیا سے یہ منوا لیا کہ بین الاقوامی قانون کے اصل بانی مسلمان فقہا اور علما ء ہیں، سترہویں صدی کے مغربی مفکرین نہیں۔

پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندا طبع لوگ
افسوس تم کو میرسے صحبت نہیں رہی

ڈاکٹر حمید اللہ اس وقت تک تصنیف و تالیف اور تحریر و تقریر میں مصروف رہے ،جب تک صحت نے ساتھ دیا ۔جب بیماریوں نے آلیا، یہ کام جاری نہ رکھ سکے، خود امریکہ میں اپنے عزیزوں کے پاس چلے گئے ۔ آپ 17 دسمبر 2002ء کو امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر جیکسن ول میں انتقال کر گئے ۔ اللہ تعالیٰ ان کی دینی و دنیا وی خدمات کو قبول فرمائے ، اور انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے ۔

Akhtar Sardar Chaudhry

Akhtar Sardar Chaudhry

تحریر: اختر سردار چودھری ،کسووال