جھوٹ کی فصل

Sheikh Rasheed

Sheikh Rasheed

تحریر: پروفیسر رفعت مظہر
ایک افسانوی کردار شیخ چِلی ہوا کرتا تھا جو ہمیشہ دُور کی کوڑیاں لاتا ۔ لوگ اُس کی لاف زنی سے محظوظ تو ہوتے لیکن کبھی یقین نہ کرتے ۔ ہمارے ہاں بھی ایک ایساہی کردار پایا جاتاہے جوالیکٹرانک میڈیا کو بہت مرغوب ہے کیونکہ ایک تو وہ ہمہ وقت دستیاب ہوتا ہے اور دوسرے لاف زنی میں یَدِطولیٰ رکھتاہے ۔ نام اُس کا شیخ رشید ہے جو شیخ چِلی کی طرح دور کی کوڑیاں لاتا ہے ، لوگ محظوظ بھی ہوتے ہیں لیکن کبھی اُس پریقین نہیںکرتے ۔ ہم نے ایک دفعہ اپنے کسی کالم میںلکھا تھا کہ شیخ صاحب اگر لال حویلی کے سامنے ”پھٹا” لگاکر ، اُس پر فال نکالنے والا طوطا لے کربیٹھ رہیں تواُن کا کاروبار چمکنے کی گارنٹی ہم دیتے ہیں لیکن شیخ صاحب کویا تو ہماری تجویز پسند نہیں آئی یا پھر ہمارا کالم ہی اُن کی نظروںسے نہیں گزرا۔

اِس لیے تاحال وہ الیکٹرانک میڈیا پرہی بیٹھ کر طوطافال نکالنے میںمصروف ہیں ۔ اُن کی تازہ ترین پیشین گوئی یہ ہے کہ اگلے تیس دنوںمیں نوازلیگ کی حکومت ختم ۔ یہ غالباََ اُن کی ایک ہزارویں پیشین گوئی ہے جوغلط ثابت ہونے جارہی ہے ۔ اِس سے پہلے وہ پانچ سالوںتک ایسی پیشین گوئیاں آصف زرداری صاحب کے بارے میںبھی کرتے رہے ہیں لیکن جب کچھ بَن نہ پڑاتو جَل بھُن کر سیخ کباب ہوتے شیخ صاحب نے کہہ دیا ”فوج ستّو پی کرسوئی ہوئی ہے”۔ دراصل ”وَن میَن پارٹی” کے سربراہ شیخ رشیداحمد کے بلغمی مزاج کوصرف پرویزمشرف جیسا آمرہی راس آتاہے اسی لیے وہ دِن رات امپائر کی انگلی کھڑی ہونے کی دعائیں مانگتے اور دُرفتنیاں چھوڑتے رہتے ہیں۔

Raheel Sharif

Raheel Sharif

اُدھر ہمارے انتہائی محترم سپہ سالار جنرل راحیل شریف ہیں جن کی جمہوریت سے کمٹمنٹ اظہر مِن الشمس ہے ۔ اسی لیے شیخ صاحب کی دال گلتی نظرنہیں آتی ۔ آمرپرویز مشرف کو دَس باروردی میں منتخب کروانے کا دعویٰ کرنے والوںنے توفوج پہ تکیہ کرنا شائد چھوڑ دیا کہ اُن کی طرف سے اب ایساکوئی بیان نظرنہیں آتالیکن شیخ رشید کی رَٹ بدستور جاری ہے ۔ جب اُنہیں فوج کی طرف سے کوئی ہلچل نظرنہیں آتی توپھر وہ عوام کو جلاؤ ، گھیراؤ ، مارو ، مَرجاؤ ، جیسے نعرے لگاکر اُکسانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن بات وہاں بھی نہیںبنتی ۔ اسی لیے لوگ کہتے ہیںکہ ”شرم اُن کومگر نہیںآتی”۔

پچھلے انتخابات میں جب شیخ صاحب بُری ہزیمت کاشکار ہوئے تو الیکٹرانک میڈیاکے اینکرز کی غالب اکثریت نے اُنہیں گھاس ڈالناچھوڑ دی ۔وہ چونکہ اپنا رُخِ روشن ہرحالت میںعوام کے سامنے لانا چاہتے تھے اِس لیے ٹی وی چینلز کے مختلف تفریحی پروگراموں میںجلوہ گَرہونے لگے ۔ دراصل اُنہیں ٹی وی سکرین پرآنے کاشوق ہی بہت ہے اور ٹی وی سکرین پر آناکیسے ہے ؟، یہ فَن کوئی شیخ صاحب سے سیکھے ۔ اُن کی ”ناکامی لیگ” میں چونکہ تانگہ تو دَرکنار ، رکشے کی سواریاںبھی نہیں ، اِس لیے اُنہوںنے کپتان صاحب کاکندھا استعمال کرنا شروع کردیا اور ہرجلسے میں بِن بلائے بھی پہنچ جاتے حالانکہ وہ خوب جانتے ہیںکہ تحریکِ انصاف میںاُن کے خلاف نفرت عام ہے ۔ یوں محسوس ہوتاہے کہ جیسے اب وہ فوج کے بعد کپتان صاحب سے بھی مایوس ہوتے جارہے ہیں ۔ اُن کاتازہ ترین بیان یہ ہے ” عمران خاںتحریک کی کامیابی تک شادی نہ کریں ، وہ تحریک پر نکلتے ہیں تو یا تواُن کاپاؤں پھسل جاتا ہے ، یاپھر شادی کا تڑکا لگ جاتاہے ۔ اب تو اُن کے بچوں کے بیاہ کی عمرہے”۔ شاید شیخ صاحب نے خبروںمیں ”اِن” رہنے کے لیے سوچاہو کہ
جی چاہتا ہے چھیڑ کے ہوں اُن سے ہم کلام
کچھ تو لگے گی دیر سوال و جواب میں

اُدھر خاںصاحب سمجھتے ہیں کہ دو طلاقوں کے بعدانسان اتنا تجربہ کار ہوجاتا ہے کہ پھرتو اُسے تیسری شادی ضرور کرنی چاہیے۔اسی لیے آجکل وہ تیسری ”تبدیلی” کے لیے سَرگرداں ہیں۔ اُنہوںنے شیخ صاحب کو تُرکی بہ ترکہ جواب دیا ”جب شریعت میںشادی جائزہے توشیخ صاحب کوکیا مسٔلہ ہے؟”۔ نہ جانے ہمارے مردوںکو صرف شادی کے معاملے پرہی شریعت کی یاد کیوں ستانے لگتی ہے ، شرعی قوانین تواور بھی بہت ہیں۔

Narendra Modi

Narendra Modi

شیخ رشید ہی کی طرح کاایک اور شیخ چِلی بھارت میں بھی پیدا ہو گیاہے جس کی لاف زَنی اور بڑھک بازی سے اب خود بھارت کے لوگ بھی تنگ اور پریشان ہیں ۔ نام اُس کا نریندر مودی ہے اوریہ بھارت کی بدقسمتی ہے کہ وہ وہاںکا وزیرِاعظم بھی ہے ۔ کچھ ہی عرصہ پہلے اُس کے دہشت گردانہ رویے کی بناپر امریکہ نے اُسے ویزہ دینے سے بھی انکار کردیا تھا لیکن جونہی وہ بھارت کا وزیرِاعظم بنا ، امریکہ نے دیدہ ودِل فرشِ راہ کردیئے ۔ وہ شیخ چِلی کی طرح ”اکھنڈبھارت” کے خواب دیکھتااور منصوبے باندھتا رہتاہے ۔ اُس بین الاقوامی دروغ گو نے 15 اگست کو بھارت کے یومِ آزادی کے موقعے پرکہا ”بلوچستان ، آزادکشمیر اورگلگت بلتستان کے لوگوںنے وہاں ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اُٹھانے پر میراشکریہ اداکیا ہے”۔ مودی کے اِس بیان کے بعدنہ صرف بلوچستان ، آزادکشمیر اورگلگت میںاُس کے خلاف متواتر جلوس نکل رہے ہیں بلکہ بھارت اورمقبوضہ کشمیر میںبھی لعن طعن ہورہی ہے ۔ کوئی اُس بین الاقوامی دروغ گوسے پوچھے کہ اُسے بلوچستان ، آزادکشمیر یا گلگت بلتستان میںکہاںاور کِس جگہ ظلم ہوتا نظرآیاہے۔ اگر دہشت گردوںکا پیچھا کرناظلم ہے توپھر یہ ظلم ہم کرتے رہیںگے کیونکہ ہمارے نزدیک ”را” کے ایجنٹوں کاشکار ”عین عبادت ہے”۔

تاریخ بتاتی ہے کہ بلوچستان کے باسیوںنے بنا کسی جبرکے اپنی خوشی سے پاکستان سے الحاق کافیصلہ کیا ۔ اُس کے صفِ اوّل کے تقریباََ تمام رہنماء انتخابات میںحصّہ لیتے رہے اور تاحال لے رہے ہیںجبکہ مقبوضہ کشمیرکوظلم وجبر کے بَل پربھارت کااٹوٹ انگ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ وہاں ہونے والے مظالم سے پوری دنیا آگاہ ہے ۔ اُسے اقوامِ متحدہ بھی متنازع علاقہ تسلیم کرتی ہے اوریہ تنازع بھی خود بھارت ہی اقوامِ متحدہ میں لے کرگیا ، کوئی اورنہیں ، جبکہ بلوچستان کو اقوامِ عالم میںسے کوئی بھی متنازع علاقہ تسلیم کرنے کوتیار نہیں ۔مقبوضہ کشمیر میں تو1948ء سے آزادی کی تحریک جاری ہے اورمتواتر پاکستانی پرچم لہرائے جارہے ہیں جبکہ بلوچستان کی تاریخ گواہ ہے کہ وہاں آج تک کہیں بھی ”ترنگا” نہیں لہرایا گیا۔ نریندرمودی کے اِس بیان نے بہرحال اقوامِ عالم پریہ توعیاں کردیا کہ بلوچستان میںہونے والی تمام گَڑبَڑ اور دہشت گردی کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی ”را” کی خباثتوںکا ہاتھ ہے۔

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر: پروفیسر رفعت مظہر