زندگی لوٹ آئی ہے

Eiffel Tower

Eiffel Tower

تحریر: شازیہ شاہ
پیرس کا شمار دنیا کے چند مصروف اور خوبصورت ترین شہروں میں ہوتا ہے -دہشت گردی کے واقعے کے بعد اس شہر کی رونقیں کافی حد تک کم ہوگئی تھیں- فضا سوگوار اداس تھی – حکومت نے مرنے والوں کی یاد میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا- اس مشکل گھڑی میں فرانس آلوند نے اپنی قوم کو متحد رہنے کی تلقین کی- اور زندگی کو معمول کے مطابق جاری رکھنے کا پیغام دیا۔

سیکیورٹی کے اداروں نے بھی ٹریننگ سیشنز کا انعقاد کیا جس کا مقصد لوگوں کو ایسی ناخوشگوار صورتحال میں اپنی حفاظت کرنے کی تربیت دی- حکومت کے بروقت اقدامات کی ََجہ سے لوگوں میں خوف و ہراس کم ہوا – اور نئے عزم اور حوصلے سے آگے بڑہنے لگے۔

Social Media

Social Media

سوشل میڈیا نے بھی بھرپور انداز میں لوگوں کو زندگی کی جانب واپس لانے میں اہم کردار ادا کیا -آج پیرس اپنی تمام تر چکاچوند روشنیوں اور خوشبوؤں کے ساتھ دوبارہ زندگی کی طرف پلٹ چکا ہے جو 14 نومبر سے پہلے پیرس تھا – لوگ اس دکھ اور صدمے کے لمحات میں بھی پُرامید ہیں انہوں نے بہادر قوم کی طرح دہشت گردوں کو اپنے طرز عمل سے یہ واضح پیغام دیا کہ ہماری زندگی میں منفی طرز عمل کی کوئی گنجائش نہیں۔

ہمارا اپنا انداز ہے جسے بزدلانہ کاروائیوں سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا- ریسٹورنٹس کافی بارز ہم خیال احباب کے ساتھ پرسکون لمحات گزارنا اور حالات حاضرہ پر سیر حاصل گفتگو ان کا من پسند مشغلہ ہے جو اسی طرح جااری و ساری ہے- یہی وجہ ہے کہ آج شاپنگ مالز ہوں یا ریسٹورنٹس سپورتس کامپلیکس ہوں یا پارکس ہر طرف زندگی نظر آتی ہے – بچے بوڑھے جوان سب مل کر کرسمس کی تیاریوں میں جوش و خروش سے حصہ لے رہے ہیں – شہر کو برقی قمقموں سے سجا دیا گیا ہے۔

Ban Ki-moon and Madame Anne hdalgu

Ban Ki-moon and Madame Anne hdalgu

اس موقعہ پر عالمی برادری نے بھی بھرپور یکجہتی کی مثال قائم کی پچھلے دنوں یونائیٹڈ نیشنز کے جنرل سیکیرٹری بانکی مون نے پیرس کی مئیر مادام این ہدالگو کے ہمراہ جائے حادثہ پر پھول چڑہائے اور مارے جانے والوں کو خراجَ تحسین پیش کیا۔

پیرس کے لوگوں نے مختصر وقت میں دوبارہ زندگی کی رونقوں کو بحال کر کے یہ ثابت کر دیا کہ وہ ڈرنے والے نہیں اور نی جھکنے والے انہوں ںنے بتا دیا کہ وہ زندگی وک بھرپور انداز میں جینے کا سلیقہ رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج ایفل ٹاور پھر اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جگمگا رہا ہے۔

تحریر: شازیہ شاہ