اُف مہنگائی کا یہ عالم ہے

Inflation

Inflation

اُف مہنگائی کا میرے ملک میں یہ عالم ہے کہ میرے دیس کے غریب لوگ اپنی ایک معمولی سی خواہش کی تکمیل کے لئے بھی مدتوں پریشان رہتے ہیں، اور ایسے میں کہ جب مہنگائی بے لگام ہو جائے تو اِنسانیت پر لرزہ طاری کر دینے والے اندہولناک واقعات اور اِن سے بھی کہیں زیادہ افسوس ناک واقعات کا ہونا لازمی ہو جاتا ہے، جن پر دماغ ماوف اور دل کی دھڑکنیں بند ہونے لگ جاتی ہیں اور جب غریب لوگ غربت کا مقابلہ کرتے کرتے تھک جاتے ہیں تو اِن کے سامنے مایوسیوں اور محرومیوں سے نجات اور جھٹکارہ دلانے کا صرف ایک ہی سہارا خودکشی کرنا رہ جاتا ہے۔

اگرچہ ہمارے ملک میں خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں خودکشی کا رجحان قدرے کم ہے، مگرپھر بھی حکمرانوں کی نااہلی اور اِن کی ناقص منصوبہ بندیوں کی وجہ سے ملک میں ہونے والی مہنگائی کی وجہ سے کچھ لوگ اِس فعل کے مرتکب ہوہی جاتے ہیں،مگرآج بھی جو چندایک خودکشی کے واقعات رونما ہوتے ہیں اِن پر بھی ہمیں افسوس ہوتاہے کہ ایسے واقعات ہمارے معاشرے میں کیوں ہوگئے ہیں اگرچہ اِن چند ایک واقعات کی بھی ایک بڑی خاص اور اہم وجہ یہ ہے کہ الحمداللہ ہم مسلمان ہیں اِس لئے بحیثیت مسلمان ہمارایہ ایمان ہے کہ خودکشی کرناحرام ہے، اِس عمل کو اللہ رب العزت نے ناپسندفرمایاہے، اور مسلمان کا تو یہ ایمان ہے کہ محض غربت اور ماسیوں کی بناپرخودکشی کرنا کمزروایمان کی نشانی ہے۔کسی بھی حال میں ایک مسلمان کو کم ازکم خودکشی نہیں کرنی چاہئے ،اوراِسی کے ساتھ ہی آج اگرہم دیکھیں تواِس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک میں جو چیزتیزی سے بڑھ رہی ہے یا بڑھائی جارہی ہے وہ صرف اور صرف مہنگائی ہے ، اِس کے علاوہ ہمارے یہاں کسی چیزمیں اضافے کا ہونااور بڑھنا فضول ہے۔

خیر ایک روز کا ذکر ہے کہ ہمارے جگری دوست عبدالحق بلوچ نے اپنے محلے کے ایک غریب شخص کا واقعہ کچھ اِس طرح سے سنایا کہ اس غریب کی کسمپرسی پر جہاں ہمیںافسوس ہواتووہیں حکمرانوں کی بے فکرانہ ا نااہلی پر بھی بڑاغصہ آیا۔ بہرحال..!وہ واقعہ جس کا میں ذکرکرناچاہ رہاہوں عبدالحق بلوچ کی زبانی کچھ یوں ہے کہ اِن کے محلے کا ایک مہنگائی کا مارا شاہ جی نامی غریب شخص اپنی قلیل آمدنی میں سے کچھ گنجائش نکال کر مدتوں بعد آخرکار ایک روز ایک پاو مچھلی فرائی خرید ہی لایا،اور اِس ایک پاومچھلی فرائی کو پہلے اِس نے رچ کے کھایا، پھر اِس کے بیوی اور بچوں نے بھی رچ کے کھایا، مہمان آئے تو انہوں نے بھی رچ کے کھایا اور پھر بھی یہ بچ گی تو اِس نے اگلے روز کے لئے بھی اِسے کھانے کو رکھ دی، اب جس ملک میں مہنگائی کا یہ عالم ہو کہ غریب ایک پاو مچھلی فرائی کی خواہش بھی مدتوں بعدپوری کریں اور اِسے اِس طرح کھائیں جیسے غریب شاہ جی اور اِس کی فیملی اور گھرآئے ہوئے مہمانوں نے بھی کھایا اور اِس کے بعد بھی اس غریب کی ایک پاومچھلی بچ بھی گئی توپھرسوچیں اِس ملک میں غریب اور غربت کس درجے پر ہوگی، اِس پر میں کچھ نہیں کہوں گا آپ خود سوچیں کہ ہمیں کیا کہنا اور کیا ہونا چاہئے…؟

اِسی طرح ہمارے دوست عبدالحق بلو چ نے ایک واقعہ یہ بھی سنایا کہ اِن کے کسی جاننے والے کو کسی نے مشورہ دیا کہ وہ فلاں بیماری کے علاج کے طور پر زندہ دیسی مرغا لائیں اور اِسے اپنے گھر پر ذبح کریں اور اِس کا گوشت کھائیں تو اِس سے اِنہیں آفاقہ ہو گا اِس غریب نے کئی ماہ بعد اِس مشورے پر عمل کیا اور ایک مہنگا(800سو کا )مگر زندہ اوربڑادیسی مرغا خرید لایا، شام ہوچکی تھی اور رات سرپر تھی ، یوں اِس غریب بیچارے نے مرغاذبح کرنے کا پروگرام اگلے روز صبح پر رکھ دیا، اور مرغے کی ایک ٹانگ اپنے پلنگ کے ساتھ باندھ کر سوگیا، مرغا اِس عالمِ قیدمیں رات بھر پھڑ پھڑاتا اور چیخ وپکار کرتا رہا، جس سے اِس بیچارے بیمارکے آرام میں خلل واقع ہوا، پھرخدانے رات کے کس پہر اِس بیمار بیچارے غریب کی نیندسے آنکھ کھلی اوراِس نے مرغے کوپکڑااور جھلاتے ہوئے اِسے ڈیپ فریجرمیں بندکردیااور سکون سے جاکر بسترپر سو گیا، صبح جب اٹھاتو برف لگے مرغے کو مسجد کے ملا کے پاس ذبح کرانے لے گیامسجد کے مللانے اِسے بتاکہ یہ تومرچکاہے، اِس کا گوشت استعمال نہیں کیاجاسکتاہے، اِس پر غریب شخص نے کہاکہ مگرمولاناصاحب یہ خراب تونہیں ہوا ہے، اِس کا گوشت کیوں نہیں کہا سکتے ہیں۔

مولانا صاحب نے اِس غریب کی اِس بے وقوفانہ بات کا مختصرا یہ جواب دیا کہ ارے میاں یہ مرغا مر چکا ہے، اور مرے ہوئے جانور کا گوشت کھانا مسلمان پر حرام ہے، اِس لئے اِس کا گوشت نہیں کھا سکتے، بس اتنا سننا تھا کہ بیچارے غریب نے اپنا سر پیٹ لیا اور اپنے پیرپٹختے ہوئے افسوس سے ہاتھ ملتے ہوئے اپنے گھرلوٹ آیااور پھر سوچنے لگاکہ غربت نے اِس کی عقل پر پردھ ڈال دیا تھا وہ اِسے بچانے اور سنبھالنے کے چکرمیں فریج میں رکھ کر اِس سے محروم ہو گیااور اب پھر کب اِس کے پاس آٹھ سوروپے آئیں گے تو پھر یہ کوئی نیا اور بڑازنددہ دیسی مرغاخریدے گا۔آج اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ میرے دیس میں کڑوروں ایسے غریب ہوں گے جنہیں اپنے علاج کے غرض سے بھی مہنگے داموں بہت ساری دوائیاں اور کھانے کے لئے مہنگے داموں گائے، بکری ، بھیڑ، مچھلی اور مرغی اور مرغے کا گوشت اور پھل فروٹ خریدنے پڑرہے ہیں، اِن غربت کے ماروں کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے، کہ کوئی حکومتی ادارہ ہی ایساہوجو ایسے غریبوں کا علاج مفت کرے ،جو خطِ غربت سے بھی نیچے زندگیاں گزارنے پر مجبورہیں ایسے لوگوں کی کوئی حکومتی ادارہ اِن کی خوراک اور دوائیوں کی فراہمی کا مفت او رآسانی سے انتظام کرے۔

Loan Scheme

Loan Scheme

آج ملک کو مہنگائی کے عفریت نے اپنے شکنجوں میں جکڑ رکھا ہے، اورایسے میں چارسو آہ وفغان کرتے بیچارے عوام ہیں، مگر مہنگائی ہے کہ وہ دانت کھٹے کرکے توڑے جارہی ہے، اور عوام کے پیٹ چاک کرکے بھی رکھ رہی ہے، مگردوسری طرف ہمارے حکمران ہیں کہ یہ کے ٹو کی دھن میں مگن ہیں، اور اپنی پانچ ماہ کی حکومت میں 206 ارب روپے کے اضافی نوٹ چھاپ کر بھی یہ دعوے کررہے ہیں کہ اِنہوں نے ملک سے مہنگائی کے طوفان کو قابو کرکے اِسے ختم کر دیا ہے، عوام کو مہنگائی سے نجات دلادی ہے، ہر غریب کے گھر کا چولہا جل اٹھا ہے، ملکی معیشت آسمان سے بھی اونچی اڑان اڑرہی ہے، بے روزگار نوجوانوں کو قرضہ اسکیم کے تحت انتہائی کم شرح سود پر سود جیسی لعنت کا طوق اِن کے گلے میں لٹکا دیا گیا ہے، اور نوجوان اِس طوق کو اپنے گلوں میں ڈال کر خوش ہیں اور حکومت کے اِس اقدام کی تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں،کراچی سمیت سارے ملک میں حکومتی اقدامات کے باعث مثالی امن قائم ہوگیاہے، امن پسندعوام کو گولی اور دھماکوں کی آواز یںسنیں مہینوں گزرگئے ہیں، چوری ، ڈکیتی، قتل وغارت گری ،کرپشن اور بھتہ خوری جڑ سے ختم ہوچکی ہے، تب ہی بیرون ِ ملک کے سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے بے چین ہیں،مگرحکومت ہے کہ وہ اِنہیں ابھی اِس بات کی اجازت یوں نہیں دے رہی ہے کہ وہ اِن کی بے چینی اور بے تابی میں اضافہ کرکے اِن کا امتحان لے رہی ہے، اورجب یہ اِس میں پورااترجائیں گے تو پھر حکومت اِنہیں پاکستان میں سرمایہ کاری کی فورا اجازت دے دیگی ،اور ملک معاشی طور پر اوجِ ثریاکو چھولے گا،اور اِنفیٹی ایسے ہی بہت سے دعوے ہیں جن کا آج حکومت اور بالخصوص ہمارے کمرشل اور کمرشل ازم کے دلدادہ وزیراعظم میاں نواز شریف کرتے نہیں تھک رے ہیں۔

آ ج اِن کا خام اور قوی خیال یہ ہے کہ قومی خزانے کوچھوڑکر جنتے بھی منافع بخش سمیت خسارے میں چلنے والے خواہ جیسے بھی قومی ادارے ہیں اِن سب اداروں کو حکومتی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی بن بولے اور بن تولے فروخت کر کے نجی تحویل میں دے دیاجائے اِس معاملے میں آنکھ بند رکھی جائے اور یہ بھی نہ دکھااور سوچااور سمجھاجائے کہ قومی اداروں کو خریدنے والیاں(خواہ ملکی نجی کمپنیاں ہوں یا اغیارکی یار بیرونی نجی سرمایہ کارکمپنیاں ہوں ) بس قومی اداروں کو نجی تحویل میں دے دیاجائے، اور پھر اِس کے بعد جھولی پھیلاکر اور ہاتھ بڑھاکر ڈالرزبٹورے جائیں ، آج ہمارے حکمرانوں کی بس اتنی ہی سوچ بن چکی ہے، کہ قومی اداروں کو کوڑیوں کے دام فروخت کرکے ملکی ترقی کا بیڑاغرق کردیاجائے اِس کے علاوہ اِن کا اپنی حکومت میں اور کچھ کرنے کا قطعا کچھ بھی ارادہ نہیں ہے ،اپنے بزنس مائنڈور پورے کے پورے کمرشل وزیراعظم میاں نوازشریف کے ملک کو کمرشل بنانے والے عزائم دیکھ کر ایسالگتاہے کہ جیسے انہوں نے پہلے سے یہ سوچ رکھاہے کہ آج مقدر سے پاک پروردگارنے اِنہیں تیسری مرتبہ ملک کا وزیراعظم بنادیاہے تو اِنہیں اپنے کاروبار اور اپنی کاروباری برادری کے لئے اتناکچھ اچھاکردیناچاہئے کہ اِن کے جانے کے بعد بھی اِس کے ثمرات اِنہیں اور اِن کی کاروباری برداری کو نصیب ہوتے رہیں اور وہ سکھ سے اپنا کاروبار چلاسکیں اور آئندہ پھر سے بھلے اِنہیں وزارتِ عظمی کا منصب نہ ملے مگراِس مرتبہ یہ اپنے اور اپنی کاروباری برادری کو خوش کرجائیں،سوآج وزیراعظم میاں نوازشریف اور اِن کی حکومت میں شامل اِن کا ہر کارندہ یہ سوچ رکھتاہے کہ وزیراعظم کی کمرشل ازم پالیسیوں کو مستحکم کیا جائے، اور قومی اداروں کو فروخت کر کے کمرشل سٹم کو ملک میں پروان چڑھایا جائے۔

جبکہ آج اِس حقیقت سے بھی کوئی ذی شعور محب وطن پاکستانی اِنکارنہیں کرسکتاہے کہ نوازلیگ کی اِس حکومت نے اپنی پانچ ماہ کی مدت میں نہ تو ملک کے لئے کچھ اچھاکرنا تو درکناہے اِس نے اچھے کرنے کے بارے میں سوچنابھی شاید گوارانہیں کیا ہے تو یہ حکومت اور اِس کے سربراہ میاں محمدنوازشریف اور اِن جیسے دوسرے بھلااپنے مظلوم اور بیکس عوام کی فلاح وبہودکے لئے کیا کچھ بہترسوچیں گے…؟ اور کریں گے..؟، جب اِنہیں اپنا ہی دامن بھرنے اور اپنی ہی خالی جیبوں کو جلدی جلدی بھرنے کی پڑی ہو۔اِس موقع پر مجھے شاعرکا یہ شعر یاد آگیا ہے کہ:-

جس کا دعوی تھاکہ غربت کو کریں گے نابود آج وہ لوگ بنے بیٹھے ہیں یاربِ معبود
خدمتِ قوم ووطن خاک کریں گے وہ لوگ جن کا مقصودہو صرف اپنی فلاح وبہبود

اِدھرملک میں منہ توڑاور سرپھوڑمہنگائی نے غریبوں کا بھرکس نکال دیاہے، غریب روٹی کو ترس رہے ہیں، ملک میں آئی ایم ایف کے پِتھوحکمرانوں نے اِس کے تلوے چاٹنے کو اپنا دین دھرم اور اِس کی غلامی کواپنے لئے باعث افتخارسمجھ رکھاہے اور اِس عمل کے عوض اِس (آئی ایم ایف) سے ملنے والے مشوروں کو عملی جامہ پہنا پہنا کر ملک میں بجلی و گیس کی شکل میں توانائی کا مصنوعی بحران پیدا کر دیا ہے، حالانکہ ایسا کچھ نہیں ہے جس سے متعلق آئی ایم ایف نے ہمارے حکمرانوں کو انڈسنڈمشورے دے کر ملک کو توانائی کے بحرانوں میں جکڑ دیا ہے، جبکہ مجھے یقین ہے کہ میرے دیس میں موجودہ گیس کے ذخائر مزید سو سالوں تک نہ تو ختم ہو سکتے ہیں اور نہ ہی میرے ملک میں اِس کے بعد بھی گیس کی کبھی قلت درپیش ہو گی، مگر جب آئی ایم ایف کے ایسے الٹے سیدھے مشوروں (جن میں اِس نے ہمارے حکمرانوں سے کہاہے کہ گیس کے ذخائر پاکستان میں چندایک سال میں ختم ہوجائیں گے، اِس کا استعمال احتیاط سے کیاجائے یا اِس کے متبادل کے طورپر دوسرے ذرائع تلاش کئے جائیں جب بِن سوچے سمجھے اور بغیرکسی تحقیق کے )حکمران اِن پر عمل کریں گے تو اِس سے ملک میں لامحالا مہنگائی بڑھے گی اورکئی ایسے مسائل بھی پیداہوں گے جن فورا قابوپانامشکل اور ناممکن بھی ہوجائے گا اور ملکی معیشت کا اِسی طرح ستیاناس ہوتارہے گا، جیساکہ آج ہو رہا ہے۔

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

محمداعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com