بلدیاتی الیکشن اور ہم عوام

Local Body Elections

Local Body Elections

تحریر: نادیہ خان
پاکستانی عوام اور حکمران ملک کے نِکے وڈے (چھوٹے بڑے) پُٹے سِدھے (الٹے سیدھے) سبھی مسائل کو بھول کے اِک ہی مسئلے میں اُلجھی ہوئی ہے وہ ہے بلدیاتی انتخابات۔ بلدیاتی انتخابات کا بخار ہمارے ملک پہ کچھ یوں چڑھا ہے کہ کچھ من چلوں نے اپنے منہ ماتھے ہاتھ یا کسی نہ کسی جگہ اپنی انتخابی پارٹی کا نشان ضرور بنوا رکھا ہے۔اور کچھ کا اس سے بھی زیادہ دل نہ بھرا تو فیس بک اکائونٹ پہ ہی اپنی پروفائل پکچر پہ وہی نشان لگا دیا۔

تو گویا اُن کو تربوز ، گھڑا، بالٹی یا لوٹا سمجھا جائے؟ اس سے ہٹ کے اگراپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو گلی ، چوراہے، دیوار ،آتی جاتی گاڑیوں حتیٰ کہ گدھا گاڑی پہ بھی کسی نہ کسی پارٹی کا پوسٹرملے گا۔اِک صاحب نے تو حد ہی کر دی، سڑک کنارے لگے درخت کو بھی نہ چھوڑا۔وہاں بھی اپنی پارٹی کا پوسٹر تھوپ دیا۔آیا کہ درختوں پہ بیٹھے ان کے رشتہ دار (گرگٹ)اُنھی کے حق میں ووٹ کریں گے۔ اور پوسٹر بنانے والوں کے پاس اس قدر بڑھ گیا ہے کہ انھیں اندازہ ہی نہیں کہ کیا لکھ رہے ہیں۔ایک صاحب کے پوسٹر میں ان کے نام کے ساتھ غلطی سے (یا خوشی سے) نامرد (نامزد) لکھ دیا۔ ہمیں اس موقع پہ بے ساختہ اک شعر یاد آ گیا۔

Poor

Poor

اک نقطے کے فرق نے
مجھے محرم سے مجرم بنا دیا
اور ان صاحب نے بھی اس بات کو اہمیت ہی نہ دی ۔ وہی پوسٹر اپنی گاڑی پہ لگا دیا۔اب بھلا ہمارے علاقے کے مرد اس نامرد کو کیونکر ووٹ کریں گے؟بلدیاتی الیکشن کی تیاری کی چالیں دیکھ کر ہماری ناقص عقل میں یہ بات آئی کہ اور کسی کا فائدہ ہو یا نہ ہومگر غریب کوکچھ دن بھوکا نہیں سونا پڑے گا۔ ایسے غریب جن کے گھر میں شام کا کھانا بھی نہیںبنتا اب وہ ہر شام وڈیروں کے کے ڈیروں پہ جا کے، پیٹ بھر کے کھانا کھا سکتے ہیں وہ بھی بالکل مفت۔ یقین نہ آئے تو کسی روز جا کے دیکھ لیجیئے۔ صرف کھانا ہی نہیں اور بھی کئی کام نکال سکتے ہیں۔ کل کالج میں ہم نے اپنے بوڑھے گارڈ کو مٹھائی بانٹتے دیکھا۔

ہم تو دم بخود رہ گئے کہ انھیں کیا ہوا، کہیں انہیں بھی تو کسی پارٹی کا ٹکٹ تو نہیں مِل گیا؟ ویسے بھی ہمارے سبھی لیڈر جسم نہ سہی عقل سے ضرور معذور ہیں۔(اور تعلیم بھی صرف نام کی ہے)مگر ہمارا اندازہ غلط تھا ، بابا ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے بیٹا مٹھائی کھائو۔ ہم نے کہا کس خوشی میں مٹھائی بانٹی جا رہی ہے؟ بیٹے کی نوکری کا مسئلہ تھا فُلاں صاحب نے سفارش کی ، کام ہو گیا۔بیٹے کو نوکری مل گئی۔ہم مبارک باد دینے کے بعد دل میں سوچنے لگے کہ صاحب تو بڑا نیک آدمی ہے۔دیکھنا پڑے گا ہے کون؟ ہم نے بابا سے پوچھا ، صاحب کہاں رہتے ہیں؟؟؟ تو کہنے لگے آپ نہیں جانتے؟

Vote

Vote

ارے وہی جو الیکشن میں کھڑے ہوئے ہیں۔انتخابی نشان لوٹا ہے۔بڑے اچھے آدمی ہیں آپ بھی انھیں ووٹ دینا۔تب ہمیں ذرا معاملہ سمجھ آیا۔ ہم نے بھی ٹھان لی کہ موقع اچھا ہے، ہم بھی اپنا کام نکلوا لیں۔ 18 کی ہوئی تو ایک سال ہوگیا ہے، شناختی کارڈ ہی بنوا لیتے ہیں صاحب کی توسط سے۔اور گھر میں بھی بابے ، ابا، بھائی بھابی کا بھی ووٹ ہے۔ انھیں بھی اس مفتے کے بارے بتاتے ہیں۔تاکہ وہ بھی اپنے الو سیدھے کروا لیں۔ووٹوں سے پہلے ہی۔ ورنہ اگر ان کا الو نکل گیا تو یہ بھر سلیمانی ٹوپی پہن لیں گے۔ووٹ کسے دینا ہے یہ تو ہم ووٹ دیتے وقت ہی طے کریں گے۔مفت کا مشورہ ہے اگر آپ بھی متفق ہیں تو عمل کیجیئے۔مگر ووٹ کسے دینا ہے کام کرواتے وقت نہیں ووٹ دیتے وقت سوچیں۔

تحریر :نادیہ خان