مسلم لیگ ن نے بلدیاتی اداروں پر بالادستی برقرار رکھی ہے

Election

Election

تحریر : محمد اشفاق راجا
پنجاب کے 36 اضلاع میں بلدیاتی اداروں کے سربراہوں کے انتخابات کا عمل بالآخر مکمل ہو گیا ہے، اب حکومت کی کوشش ہونی چاہئے کہ یہ ادارے بلاتاخیر تیزی کے ساتھ کام شروع کر دیں۔ اگرچہ فنڈز کی ایلوکیشن کیلئے کمیٹی قائم ہوچکی ہے تاہم ناقدین کا خیال ہے کہ بلدیاتی اداروں کے چیئرمینوں اور میئروں کو اسی طرح اختیارات نہیں مل پائیں گے اور جس طرح کراچی میں میئر وسیم اختر اپنے اختیارات کیلئے کوشاں ہیں اسی طرح یہاں بھی منتخب لوگ مارے مارے پھر رہے ہوں گے غالباً ایک سینئر سیاستدان نے طنزاً کہا تھا کہ ان کو اپنے اختیارات کیلئے مظاہرے کرنا ہوں گے۔

چھوٹے موٹے مظاہرے تو پچھلے دنوں ہو بھی چکے ہیں تاہم اب آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔۔؟ مجموعی طور پر مسلم لیگ (ن) نے بلدیاتی اداروں پر اپنی بالادستی برقرار رکھی ہے، کہیں کہیں دوسری جماعتیں بھی کامیاب ہوئی ہیں لیکن پلڑا وفاق اور پنجاب میں حکمران جماعت کا ہی بھاری ہے۔ چونکہ بلدیاتی ارکان کا زیادہ تر تعلق اسی جماعت سے تھا اس لیے ان نتائج کی توقع تو تھی لیکن کہیں کہیں مسلم لیگ (ن) کے باہمی اختلافات اتنے کھل کر سامنے آگئے کہ دبائے نہ دب سکے، مثلاً فیصل آباد میں چودھری شیر علی اور رانا ثنائ اللہ خان کے گروپوں کا مقابلہ تو پرانا ہے، اگرچہ دونوں کا تعلق ایک ہی جماعت سے ہے اور چودھری شیر علی کے صاحبزادے عابد شیر علی جو وفاقی وزیر ہیں مقامی سیاست میں اپنے والد کے ساتھ ہیں اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ فیصل آباد میں مقابلہ ایک وفاقی وزیر اور ایک صوبائی وزیر کے گروپوں کے درمیان تھا جو ایک ہی جماعت میں ہونے کے باوجود اپنے اختلافات ختم نہیں کر سکے۔

رانا ثناء اللہ کے خلاف چودھری شیر علی بڑی دور تک چلے گئے تھے لیکن رانا صاحب نے میئر کا الیکشن جیتنے کیلئے کوچہ رقیب میں بھی سر کے بل جانے سے گریز نہیں کیا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے کونسلروں نے بھی رانا ثنائ اللہ کے امیدوار کو ووٹ دیا۔ اب یہ ووٹ بھلے رانا ثناء اللہ کی محبت میں ڈالا گیا ہو لیکن کامیاب امیدوار ہے تو مسلم لیگ (ن) کا امیدوار، انہیں پہلے مسلم لیگ (ن) نے ٹکٹ بھی دیدیا تھا لیکن پھر دوسرے گروپ کے پریشر کی وجہ سے اس انتخاب کو ”اوپن” چھوڑ دیا، جس کا مطلب یہ لیا گیا کہ جو بھی کامیاب ہو وہ مسلم لیگ کا ہے۔ اس طرح دونوں گروپوں نے آپس میں مقابلہ کرکے رانا ثناء اللہ کو فتح دلا دی جو اپنی کامیابی کے بارے میں پہلے ہی پرامید تھے اور کامیابی کی پیش گوئی بھی کر رہے تھے۔ اس الیکشن میں تحریک انصاف کے کردار پر بہرحال حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے جو مسلم لیگ (ن) کے وزیراعظم سے تو استعفا مانگ رہی ہے اور رانا ثناء اللہ کو کامیاب کرا رہی ہے، سیاست میں اس طرح تو ہوتا ہے۔

PML-N

PML-N

اٹک میں وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کے بھانجے احسن علی خان ہار گئے ہیں اور چودھری شجاعت حسین کی بھانجی ایمان طاہر جیت گئی ہیں تاہم گجرات میں بھی مسلم لیگ (ن) کو کامیابی ہوئی ہے جو چودھری برادران کا آبائی علاقہ اور مضبوط سیاسی گڑھ ہے۔ لاہور اور راولپنڈی کے میئر پہلے ہی بلامقابلہ کامیاب ہوچکے ہیں البتہ بہاولپور میں مخدوم احمد محمود کی ناکامی پر حیرت ہے جہاں ان کا اپنا بیٹا ہار گیا ہے کیونکہ کونسلروں میں ان کے بہت سے حامی شامل تھے۔ ان کی شکست کی وجہ ان کی پارٹی کی عدم مقبولیت ہے یا اسے ان کی ذاتی شکست گردانا جائے گا اس کا تجزیہ مستقبل میں ہوتا رہے گا تاہم یہ ان انتخابات کا بڑا اپ سیٹ ہے۔ کئی مقامات پر تحریک انصاف کے امیدوار کھڑے ہوئے تھے لیکن حیران کن طور پر انہیں ایک بھی ووٹ نہیں پڑا، معلوم نہیں ان کے اپنے ووٹ کہاں چلے گئے۔ انہوں نے اپنا ووٹ کاسٹ ہی نہیں کیا یا مدمقابل کو دیدیا اس کا انکشاف کچھ دن بعد ہوگا۔

اہم بات یہ ہے کہ کیا ان انتخابات کے آئینے میں مستقبل کے عام انتخابات کی کوئی تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔۔؟ جو اب زیادہ دور نہیں اور اگر طے شدہ وقت کے مطابق ہوں تو بھی مئی 2018ء میں ہوں گے۔ اس لحاظ سے ڈیڑھ سال سے بھی کم وقت ہے، عمومی طور پر عام انتخابات کی انتخابی مہم چھ آٹھ ماہ تو لیتی ہے اس لیے اگلے سال کے وسط سے پہلے ہی انتخابی مہم اپنے جوبن پر ہوگی۔ آصف علی زرداری کی ڈیڑھ سال بعد پاکستان آمد اور اس سے پہلے بلاول بھٹو زرداری کی جوشیلی تقریروں کو بھی اگر انتخابی مہم کا حصہ تصور کرلیا جائے تو کہا جاسکتا ہے انتخابی مہم تو پہلے ہی شروع ہے، جہاں تک تحریک انصاف کا تعلق ہے اس کا سفر تو مستقل جاری ہے۔ دھرنے اور لاک ڈاؤن کے ساتھ ساتھ عام جلسے بھی شدومد سے ہوتے رہے تاہم عام انتخابات کے بعد یہ جماعت ضمنی انتخابات، کنٹونمنٹ بورڈوں، بلدیاتی، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کسی بھی انتخاب میں کوئی قابل ذکر کارکردگی نہیں دکھا سکی، قومی اسمبلی کا طویل بائیکاٹ بھی کیا گیا۔

اب اگرچہ بائیکاٹ پر تو نہیں لیکن عمران خان نے اپنی قومی اسمبلی میں آمد کو وزیراعظم کی آمد سے مشروط کر رکھا ہے، لیکن آج ہونے والے انتخابات کے نتائج کے بعد یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ اب جبکہ بلدیاتی ادارے بڑی حد تک پنجاب کی حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والوں کے کنٹرول میں ہوں گے اور یہ ترقیاتی کاموں کا آغازبھی کردیں گے تو کیا ان کا 2018ء کے انتخابی نتائج پر بھی کوئی اثر پڑے گا؟ اس کا سادہ جواب تو ہاں میں ہے کیونکہ ہمارے ووٹر کسی اعلیٰ و ارفع مقصد سے زیادہ ترقیاتی کاموں کو پیش نظر رکھ کر ووٹ دیتے ہیں۔ اگر اب ان بلدیاتی اداروں نے تاخیر سے تشکیل کی کسر بھی نکال دی تو ان کا اثر عام انتخابات پر ضرور پڑے گا۔

تحریک انصاف کی کے پی کے میں حکومت ہے اور وہاں کے بلدیاتی اداروں پربھی تحریک انصاف کا کنٹرول ہے، اگر وہاں کے بلدیاتی اداروں کی کارکردگی سے کے پی کے کا ووٹر متاثر ہوگا تو پنجاب کے بلدیاتی اداروں کی کارکردگی سے پنجابی ووٹر کیوں متاثر نہیں ہوگا؟ اس لئے اگر موجودہ بلدیاتی نتائج کو پیش نظر رکھیں تو عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو اپنی برتری قائم رکھنے میں خاصی مدد ملے گی۔ اپوزیشن جماعتوں کا جو گرینڈ الائنس بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ اگر بن گیا اور تحریک انصاف اس کا حصہ بن گئی تو یہ مسلم لیگ (ن) کیلئے ایک بڑا چیلنج ہوگا بہرحال بلدیاتی انتخابات کے سربراہوں میں تو مسلم لیگ (ن) نے اپنی حیثیت منوا لی ہے۔

Ishfaq Raja

Ishfaq Raja

تحریر : محمد اشفاق راجا