حاصل اور ہجر کی پہلی فجر میری نظر میں۔۔!

Hijar ki Pahli Sham

Hijar ki Pahli Sham

تحریر: منشاء فریدی
شاعری مافی الضیر کا نام ہے۔۔ مافی الضمیر ایسا کہ جس سے تخلیقی عمل انجام پا سکے۔ شاعری ایک پیغام کا نام ۔ ۔۔ جو معاشرے میں مثبت روایات کو فروغ دیتا ہے۔ ۔۔ اس فن لطیف اور حسِ لطیف کے ذریعے ابلاغ کا کام انجام پاتا ہے۔۔۔ سوچتا ہوں کہ اگر دنیا میں شاعری کا فن اور علم نہ ہوتا یا الفاظ کی ایسی ہی ترتیب ‘ جڑت اور بُنت نہ ہوتی تو میرے خیال میں عالم رنگ و بو کی بجائے یہ دنیا متعفن ہوتی۔ یہاں شر اپنی انتہائی حدوں کو چھو رہاہوتا ہے۔ یہ دنیا امن کی بجائے فساد کی جڑہوتی اور امن کے سرچشمے معدوم ہوتے ۔ محبتیں بانٹتے شعرء اپنے پیغام خاص کے ذریعے شعور کی دولت بانٹتے پھرتے ہیں احساس کی لذت سے سنگدلوں کو موم کرتے ہیں ۔ آج اگر کچھ حد تک انسانیت باقی ہے تو وہ اس حسِ لطیف کا نتیجہ ہے جس حس کے ذریعے شاعری اپنا وجود پاتی ہے ۔ محبتوں کے سفیر اور امن کے داعی شاعر راقم کے نزدیک امر ہیں۔ جنھیں زیست دوام، مرگ سے محفوظ رکھتی ہے۔ پس امن کا پیام بر”اوتار’ ‘ کا درجہ رکھتاہے۔ مضمون ہذا دو شعراء کی دو کتب ( تصانیف) پر مختصرسے تبصرے پر مشتمل ہے۔

شاعری الہام کا نام ہے یا یوںکہیے کہ شاعر ی الہام کا روپ ہے ۔ مضمون کا حصہ اول صائمہ اسحاق کے شعری مجموعہ ” حاصل” پر تبصرے پر مشتمل ہے ۔ یہ مجموعہ ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔ اس میں صائمہ اسحاق ” میرے لفظوں سے شجر پھوٹ پڑیں گے اک دن ، کوئی قرطاس کی مٹی کو ذرا نم کر دے” ۔ جیسا زرخیز شعر لکھ کر گویا یہ ثابت کر دیا ہے کہ قرطاس کی مٹی کا نمو کے لیے نم ہونا شرط اول ہے ورنہ گلشن میں بہار نہ ممکن ہے ۔ اورنہ ہی اس کے بغیر لفظوں سے اشجار پھوٹیں گے ۔ میرے نزدیک لفظوں سے اشجار کے پھوٹنے سے مراد ذہن کی بے آب و گیاہ دھرتی کو اریگیٹ کرتا ہے ۔ صائمہ اسحاق نے ہجر و فراق کو اپنا مقدر قرار دے کر لکھا کہ” صائمہ غیر ارادی سی اجازت پاکر، عشق لے آیا ہمیں ہجر مسلسل کی زمیں” یہی ” وچھوڑا ” ہی تو ہے جو کسی بھی حساس عورت کی سوچوں کو امر اور زندہ کر دیتاہے۔ صائمہ اسحاق کی شاعری میں یہی فراق اسے اس کی لذت سے ہمکنار کر رہا ہے ورنہ شاعری میں سوزوگداز کا اظہار نہ ہوتا اور ان کی شاعری اس حُسن سے محروم رہتی ۔ اُن کا مذکور ہ شعر اسی دردکا عکاس ہے۔ ”بوجھ اک دائمی فرقت کا لیئے سینے پر، ، جھٹپٹے نے بھی سہا ساتھ میں دن رات کا دُکھ” اسی غزل کا ایک دوسرے شعر میں فرقت کی بھر پور عکاسی ہے۔ ” وہ جو پردیس میں بیٹھا ہے اُسے کیا معلوم ، راہ تکتی ہوتی آنکھوں سے ملاقات کا دُکھ” صائمہ اسحاق نے جس طرح غزلوں میں لطیف احساسات کو پرایہ اظہار بنایا اسی طرح سے انہوں نے نظموں میں بھی اپنی روایت کو نہیں چھوڑا اور خوبصورت ذریعہ اظہار کو ابلاغ دیا۔

” کاش اسطرح ہوتا ، راستے بدلنے سے ، منزلیں بدل جاتیں ، آس کے درختوں پر، ناسمجھ پرندوں کے ، پھر سے لوٹ آنے کی، خواہش بھی جل جاتی ” کاش صائمہ اسحاق کی آس اور امید کے درخت ثمر بار ہوں۔ ” مگر جو پھو ل ہیں دل کے ، کبھی وہ کھل نہیں سکتے، وہ دونوں مل نہیں سکتے ” لیکن صائمہ اسحاق کی اس ناامیدی کا حل کبھی تو مل سکے گا۔ جس کی تلاش انہوں نے تسلسل کے ساتھ جاری رکھی ہوئی ہے۔ لیکن یہ عقدہ بھی حل ہو چکا ہے۔ ایک یسا المیہ جو سب کو لاحق ہے جس کا اظہار خاصا مشکل ہے ورنہ ۔۔زندان۔۔۔!

” تمھیں ناحق ہے امید عدالت، کہ منصف شہر کا بیناکہاں ہے۔ حاصل کے آ خر میں بھی صائمہ اسحاق نے ہجر و فراق کی چاشنی اور کرب کاذکر جاری رکھا۔ ” صائمہ گزری ہوں اس کرب سے ہنس کر اکثر ، پر ترا ہجر قیامت کی گھڑی ہے اب کے” اسی طرح” ہجر کی پہلی فجر” میں طیار خان ( طیار مہدی ایڈوکیٹ ) نے اس کتاب کی ٹا ئٹل نظم میں ”ہجر کی پہلی فجر جو ابھری۔۔۔، جاناں میں نے سب کچھ پایا ۔۔۔ کچھ۔۔۔، ریت سی قسمت میں راتیں ۔۔۔، کچھ اُ جڑی نیندوںکی باتیں !!، کچھ ڈوبتی نبضیں سانسوں کی ۔۔۔، اور ہجر میں بارش آنسوؤ ں کی !!!، کچھ خواب صلیبوں پہ لٹکے۔۔۔، کچھ ذہن فراقت میں اٹکے !!!

Milala

Milala

تھی جن پر قیامت ٹوٹ پڑی ، ہاں ایک ملال کی شام بھی تھی ،کچھ خزاں کی شاخوں سی ، اور عشقِ زوال کی شام بھی تھی!!!، ہر روتے سال کی شام بھی تھی۔۔۔ ، اِ ک تیرے وصال کی شام بھی تھی، اک شام غم کا صحرا بھی !!!، اور جاناں خوب اندھیرا بھی!!!، ہجر کی پہلی فجر جو ابھری ۔۔۔۔، تجھ سے رشتہ ٹوٹ گیا، بس تیرا ساتھ تھا چھوٹ گیا ۔۔۔” لکھ کر فراق کی تلخی ذکر کر دی اور جس ہجر کے کربناک سلسلے چلے سب بیان کر دیے۔ اس سے ظاہر اور ثابت ہوا کہ طیار خان کی شاعری ضرور کسی گہری چوٹ کا پیش خیمہ ہے اور زیر نظر تصنیف ان کا دوسرا شعری مجموعہ ہے۔

جس میں غزلیات اور نظموں کی خوبصورت شاعری موجود ہے جو قاری کو مسحور کر دیتی ہے جس سے وہ کرب سے بھر ی لذت کشید کرتا ہے۔ طیار خان مہدی محبتوں کا شاعر ہے ۔ شاعرانہ انداز میں لکھے الفاظ کو طیار خان نے شاعری قرار دیا اس سے قطع نظر کہ واقعی طیار خان شاعر ہے۔ بھلا اس سے کسے انکار ہوسکتا ہے۔ مکرر تحریر کر رہا ہوں کہ طیار خان کی شاعری میں ہجر و فراق کا کرب شدت سے محسوس ہوتا ہے۔

Taya Khan

Taya Khan

” تیرے ہجر میں ہوں بُجھ گیا ، مجھے وصل شب کا طواف دے” طیار خان کی شاعری میں معصوم خواہشوں کی نشاندہی ہوتی ہے جن کی تکمیل شاید ممکن نہ ہو۔ طیار خان نے اپنی شاعری میں نثر کی آمیزش کی ہے یعنی یہ شاعری نثری حُسن بھی اپنے اندر رکھتی ہے۔ نظم ”حب سے تم ملے ہو” میں شاعرانہ نثر ملاحظہ ہو” کہتے ہیں آنکھ کا پھڑکنا ، وحی ہوتا ہے۔۔۔، حب سے تم ملے ہو!!، تب سے میری دائیں ، آنکھ کا سُرخ حلقہ۔۔۔، یوں پھڑکتاہے، جیسے سینے میں ، دل دھڑکتا ہے۔”

نہ جانے مضمون میں طیار خاں کی غزلوں کے حوالے دینے سے کیوں ہچکچاہٹ ہورہی ہے ۔ ”ہجر کی پہلی فجر ”میں شائع شدہ نظموں نے راقم کو متاثر کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ نظموں کا حوالہ دینا ہی میرے مضمون کو متحکم و معتبر ٹھہرا رہا ہے ۔نظم ”خصوصیات ” میں طیار خان نے ایک سچ کا اظہار کیا ہے جو ہمارے سماج میں پایا جاتا ہے ۔ وہ سچ یہ ہے کہ زمانے والے سچ کو غارت کر دیتے ہیں اور جھو ٹ کو سُر خرو ٹھہراتے ہیں ۔ نظم ” خصو صیات ” ْقارئیں کے لیے کوڈ کی جا رہی ہے ۔ ” عجیب وصف ہے ، میرے قبیلے والوں کا ، اس طرح محبت کے سوالوں ، کو حل کرتے ہیں ، بے ردا خوابوں کو قتل کرتے ہیں”۔ اس قدر بے اعتنائی بھی مناسب نہیں طیار مہدی ایڈووکیٹ کی غزلیں مسترد کر دی جائیں ۔ ایک غزل کے چند اشعار جن میں حسیں سوچوں کی موجودگی کے اظہار کے لیے شاعر نے لطیف حس کا استعمال کیا۔ اس سے قبل کہ مضمون اختتام پزیر ہو صائمہ اسحاق کے لیے با لعموم اور طیار خان کے لیے بطور خاص عرض ہے کہ میدان ِ سخن میں اپنا لوہا منوانے کے لیے مشق سخن انتہائی اہم ہے ۔ اور اب طیار خان کی غزل کے چند اشعار:
دلِ مسرور جیسی ہے ، محبت نور جیسی ہے
کبھی حبشی کا جذبہ ہے ، کبھی منصور جیسی ہے
کبھی قرآن کی صورت ، کبھی یہ طور جیسی ہے

Mansha Fareedi

Mansha Fareedi

تحریر: منشاء فریدی
ڈیرہ غازیخان
03336493056