محبت کے پھول

Flower Roses Bouquet

Flower Roses Bouquet

تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
لاہور سے لندن کے طویل اور تھکا دینے والے سفر کے بعد اب میں ہیتھروائر پورٹ کی برقی قمقوں سے سجی لمبی راہداریوں میں معذور مسافر ویل چئیر کو چلاتا ہوا مختلف موڑ کاٹتا ہوا امیگریشن ہال کی طرف بڑھ رہا تھا۔ معذور شخص بار بار ممنون اور تشکر آمیز تاثرات اور مسکراہٹ کے ساتھ میری طرف دیکھ رہا تھا۔ راستے میں ایک گورے اور سیاہ فام نے ہماری راہنمائی کی اُن کی بتائی ہو ئی معلومات کے سہارے ہم تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے۔

میرے ساتھ میرا ساتھی حافظ نصیر احمد بھی تھا۔ میرے دونوں ساتھی زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے اِس لیے میں اِن دونوں کے لیڈر کے فرائض بھی انجام دے رہا تھا آخر کار کافی زیادہ پیدل چلنے کے بعد ہم امیگریشن ہال میں داخل ہو گئے ۔ کیونکہ ہم جہاز سے اُترنے والے آخری مسافر تھے اِس لیے ہم ہال میں بھی سب سے لیٹ پہنچے اِس لیے ہمارے آنے سے پہلے تمام لوگ لمبی لمبی لائینیں لگا کر کھڑے تھے۔ ہال میں داخل ہو تے ہی ہمیں احساس ہو گیا کہ ہم یہاں لیٹ پہنچے ہیں لہذا ہمیں لمبا انتظار کرنا ہو گا لہذا ہم تینوں ایک طرف کھڑے ہو گئے اور انتظار کر نے لگے کہ جیسے ہی رش کم ہو تو ہم امیگریشن کا ئونٹر کی طرف بڑھیں۔

میرے دونوں ساتھی اور خاص طور پر معذور شخص بہت خوفزدہ تھا کہ کائونٹر پر انگریزی میں بات چیت کر نا ہو گی اور یہ دونوں انگریزی میں Flowکے سا تھ بات کر نے سے قاصر تھے ۔ میرے دونوں ساتھی با ر بار مدد طلب نظروں سے میری طرف دیکھ رہے تھے اور میں بار بار اُن دونوں کو حوصلہ دے رہا تھا کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے سب اچھا ہو گا کیونکہ ہم انتظار میں تھے اِس لیے میں ہال میں موجود لوگو ں اور امیگریشن عملے کو دیکھ رہا تھا ۔ چند لمحوں میں ہی مجھے احساس ہو گیا کہ انگریز جو ہر وقت انسانی حقوق اور انسانیت کی جگالی کر تے نظر آتے ہیں یہاں اُن کے قول و فصل میں واضح تضاد اور منا فقت نظر آرہی تھی یہاں پر گوروں اور بر طانوی شہریوں کے لیے الگ کائونٹر بنے تھے جہاں گورے رسمی کاروائی کے ساتھ ہی تیزی سے باہر جا رہے تھے۔

جبکہ ایشیائی اور سیا ہ فاموں کی لمبی قطاریں اور اِن قطاروں میں خوفزدہ چہرے نظر آرہے تھے امیگریشن کا ئونٹر پر موجود عملہ تکبر انہ انداز سے پسماندہ ممالک کے شہریوں کو ڈیل کر رہے تھے جن پر امیگریشن والوں کو زرہ سا بھی شک ہو جاتا اُس پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی جاتی اور وہ بے چارہ منتوں ترلوں پر اُتر آتا کئی بے چارے بار بار وضاحتیں دے رہے تھے لیکن امیگریشن عملہ قصائیوں کی طرح اُن کی وضاحتوں اور جوابات کو نظر انداز کر رہا تھا ۔ کئی نوجوانوں کو تو الگ کھڑا کر دیا گیا یا اُن کو تفتیشی عملے کے ہا تھوں دے دیا گیا تاکہ وہ اچھی طرح تسلی کر کے اُن کو چھوڑیں یا اُن بیچاروں کے ملکوں میں واپس بھیج دیں بر طانیہ آنے والے بیچارے اِس نا روا سلوک کے لیے بلکل بھی تیار نہیں تھے اِن مشتق ِ ستم بننے والوں میں پاکستانی سب سے زیا دہ نمایاں اور زیادہ تھے ۔ ایسے لوگوں کے چہرے خوف اور دہشت زرد نظر آرہے تھے بیچارے حسرت و بے بس بے چارگی اور بے بسی کی تصویر نظر آرہے تھے میرے ایک ساتھی با ریش تھے اوپر سے پاکستانی یہ سب دیکھ کر اُس پر اور زیادہ خوف طاری ہو گیا لیکن میں اُسے بار بار حوصلہ دے رہا تھا۔

Immigration

Immigration

اِن حوصلہ شکن مناظر اور رویوں کے با وجود اب میں نے امیگریشن کائونٹر کی طرف بڑھنے کا فیصلہ کر لیا اب بہت ساے لوگ جا بھی چکے تھے اِسی دوران میں نے ایک ایشیائی لڑکی کو امیگریشن عملے میں دیکھا اور اُس کی طرف بڑھ گیا وہ مسافروں کی قطاریں بنوانے میں مدد کر رہی تھی مجھے اپنی طرف آتا دیکھ کر وہ میری طرف متوجہ ہو ئی اور اردو بولی میں آپ کی کیا مدد کر سکتی ہوں تو میں نے معذور شخص کی طرف اشارہ کیا تو اُس نے اشارہ کیا کہ اُن کو لے آئو پھر ہمیں ایک خالی کائونٹر کی طرف بڑھا دیا اور امیگریشن کائونٹر پر سیا ہ فام بڑی عمر کی عورت کو کہہ بھی دیا ۔ اب ہم کائونٹر کے قریب آئے اور میں نے پاکستانی پاسپورٹ اُس سیاہ فام عورت کے سامنے رکھ دیاپاکستا نی پاسپورٹ اور میرے ساتھ مولوی وہ عورت ایک دم چونکی اُس کی تفتیشی تمام حسیات بیدار ہو گئیں اب وہ غور سے ہم تینوں کا جائزہ لے رہی تھی جیسے ہمارے سروں پر سینگ اُگ آئے ہوں وہ بار بار پاسپورٹ اور ہمیں دیکھ رہی تھی پھر وہ سامنے لگی کمپیوٹر سکرین اور بٹنوں کی طرف متوجہ ہو ئی اب وہ حیران خوفزدہ اور پریشان نظر آرہی تھی وہ بار بار کمپیوٹر کے بٹنوں سے کھیل رہی تھی۔

جیسے کوئی چیز تلاش کر رہی ہو۔ اب اُس کی تلاش اُلجھن میں داخل ہو چکی تھی اُس کا یہ رویہ میرے ساتھیوں کے لیے جان لیوا ثابت ہو رہا تھا تقریباً 10منٹ بعد وہ میری طرف متوجہ ہو ئی اور اُس نے سوال کا پہلا گو لا ہم پر داغا۔ آپ کون ہیں ۔ میں نے مسکرا کر جواب دیا Teacherوہ غور سے میری طرف دیکھتی رہی اور میں پر سکون چہرے کے ساتھ اُس کو دیکھتا رہا وہ شاید تھک چکی تھی اب اُس نے بار ی باری ہمارے انگوٹھوں کا بائیومیٹرک پر چیک کیا پاسپورٹوں پر مہر لگائی اور پاسپورٹ ہمارے حوالے کئے اور ہمیں یو کے داخلے کا پر وانہ جاری کر دیا میرے ساتھیوں کے چہروں پر گمشدہ مسکراہٹ واپس آچکی تھی اب ہمیں اگلے ہال میں بیگ اور سامان مل گیا۔

اُس کو لے کر جب آگے بڑھے تو کسٹم والوں نے ہمارے سارے بیگ اُدھیڑ دیے سارا سامان چیک کیا وہ شاید سگریٹ ڈھونڈ رہے تھے اِن لوگوں کا ناروا سلوک بھی ایک لمبی داستان ہے یہاں سے فارغ ہو کر اب ہم باہر کی طرف لپکے جلد ہی ہم اُس حصے کی طرف آگئے جہاں معذور کے میزبان اور میرے دو آشنا چہرے حافظ نور احمد اور خالد فاروق گھمن والہانہ انداز میں اشارے کرتے نظر آئے پر دیس میں اپنوں کے چہرے اللہ کا خاص انعام ہو تے ہیں خالد گھمن پتہ نہیں کہا ں کہاں سے گلاب کے پھولوں کے ہار گلدستے اور پھولوں کی ٹوکریاں لیے کھڑا تھا نور احمد رانجھا کیمرہ مینوں اور اپنے دوستوں کے ساتھ کھڑا تھا ۔ میں نے فوری طور پر معذور دوست کو اُس کے میزبانوں کے حوالے کیا سلام کیا اور اپنے میزبانوں کی طرف بڑھا میرے میزبانوں کے ہا تھ میں پھولوں کے ہا ر تھے اور چہروں پر عقیدت محبت اور احترام کے پھول کھلے تھے خوشی سے اُن کے چہرے چاند کی طرح روشن تھے دونوں میزبان بہت محبت احترام سے گرم جوشی سے ملے۔ میں انگریزوں کے ملک آچکا تھا وہ گورے جن کی بادشاہی میں سورج غروب نہیں ہو تا تھا لیکن آج برطانیہ سمٹ کر اپنی پرانی جگہ پر آچکا تھا۔

PROF ABDULLAH BHATTI

PROF ABDULLAH BHATTI

تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
help@noorekhuda.org
03004352956

Love Flower

Love Flower