عشق رسول جنت سے بڑھ کر (حصہ) 22

Muhammad PBUH

Muhammad PBUH

تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
حضرت اسامہ بن زید سے روایت ہے کہ ایک دن ساقی کوثر رحمتِ دو عالم حضرت محمد ۖ نے مُجھے تھوڑا سا بھُنا ہوا گوشت دیا اور فرمایا کہ اِسے عثمان کے گھر دے آئو میں وہاں گیا تو دیکھا کہ حضرت عثمان اور حضرت رقیہ ایک ہی چٹائی پر بیٹھے ہیں یہ دونوں میاں بیوی اِس قدر حسین تھے کہ میں کبھی ایک کو دیکھتا اور کبھی دوسرے کو پھر جب واپس آیا تو سرور کائنات ۖ نے مُجھ سے پوچھا کہ کیا تم اندر گئے تھے میں نے عرض کیا کہ جی ہاں یارسول اللہ ۖ اِس پر محبوب خدا مالکِ دو جہاں ۖ نے پوچھا کہ کیا تم نے اِن دونوں میاں بیوی سے اچھا کوئی اور جوڑا بھی دنیا میں دیکھا ہے میں نے عرض کی جی نہیں یا رسول اللہ ۖ۔ حضرت رقیہ شافع محشر فخرِ دو عالم کی دوسری صاحبزادی تھیں آپ حضرت زینب سے تین برس چھوٹی تھیں۔ آپ کی ولادت نبوت سے پہلے ہوئی اُس وقت محبوب ِ خدا ۖ کی عمر مبارک 33برس تھی۔ جب حضرت رقیہ کی عمر سات سال ہوئی تو خالقِ ارض و سما نے ان کے والد محترم کو اپنے مقرب فرشتے ھضرت جبرائیل کے ذریعے نبی آخر الزمان ہونے کی خوشخبری سنائی تو نبی کریم ۖ نے اس بات کا ذکر اپنی ہمدرد اور محبوب بیوی سے کیا تو وہ فوراً اپنے شوہر نا مدار رسول کریم ۖ کی نبوت پر ایمان کے آئیں۔

اِس موقع پر آپ ۖ کی صاحبزادیاں بھی آپ ۖ کے ہم رکاب تھیں حضرت رقیہ نے بھی اسلام قبول کر لیا ۔ ظہور ِ اسلام سے قبل اس دور کے دستور کے مطابق سرور کائنات ۖ نے حضرت رقیہ اور اپنی تیسری بیٹی حضرت ام کلثوم کا نکاح اپنے چچا ابو لہب کے دو بیٹوں بالترتیب عتبہ اور عتیبہ کے ساتھ کر دیا ۔ یہ کم سنی کا نکاح تھا جب کہ رخصتی ابھی نہیں ہوئی تھی۔ جب نبی کریم ۖ نے کھل کر دعوت ِ اسلام دی تو دشمنانِ اسلام نے مسلمانوں کو مصائب و آلام کے بھنور میں پھنسانا شروع کر دیا ۔ ابو جہل اور ابو لہب مسلمانوں کو تنگ کرنے میں سب سے آگے تھے ۔ ابو لہب جہاں ظالم و جابر تھا وہاں اُس کی بیوی امِ جمیل نہایت زباں دراز اور جھگڑالو مغرور عورت تھی دونوں میاں بیوی نہایت مسلمانوں کے خلاف بغض اور عناد میں اندھے ہو چکے تھے ۔ ابو لہب کی بد دماغ بیوی نے اپنے شوہر پر زور دیا کہ رحمتِ دو عالم ۖ کی دونوں بیٹیوں کو طلاق دے دیں لہذا ابو لہب نے اپنے بیٹوں کو کہا کہ اگر تم نے محمد ۖ بن عبداللہ کی بیٹیوں کو طلاق نہ دی تو میں تمھیں منہ نہیں لگاو ں گا اور تمھارا چہرہ تک نہیں دیکھوں گا۔

باپ کے کہنے پر ابو لہب کے بیٹوں نے حضرت رقیہ اور ام کلثوم کو طلاق دے دی ۔ حقیقت میںخدا کی ذات نہیں چاہتی تھی کہ مقدس و مطہر صاحبزادیاں دشمنان ِ اسلام کے گھر پہنچیں ۔ حضرت عثمان غنی نبی کریم ۖ کی حقیقی پھوپھی زاد بہن اروٰی کے بیٹے تھے آپ اسلام قبول کر چکے تھے ۔ حضرت عثمان فطرتاً صالح پارسا دیانت دار اور راست باز انسان تھے ۔ جب رقیہ کو طلاق مل گئی تو حضرت عثمان نے نکاح کا پیغام بھیجا جسے رحمتِ دو جہاں ۖ نے بصد مسرت منظور فرما لیا ۔ حضرت عثمان اور حضرت رقیہ کا نکاح ہجرت مدینہ منورہ سے پہلے ہوا ۔حضرت عثمان کے لیے یہ بہت بڑی سعادت مندی تھی کہ انہیں محبوب رب العالمین ۖ کی دامادی کا شرف حاصل ہوا ۔ حضرت رقیہ جہاں حسب و نسب کے حوالہ سے ارفع اور سیرت وکردار کی رو سے اعلیٰ صفات کی مالک تھیں وہاں رب تعالی نے اُنہیں حُسن و جمال کے وصف سے بھی خوب نوازا تھا۔

Muhammad PBUH

Muhammad PBUH

جب حضرت عثمان اور حضرت رقیہ کی شادی مبارک تکمیل پزیر ہوئی اور مکہ کی عورتیں شادی شدہ جوڑے کو دیکھنے آتیں تو سب کے منہ سے بے اختیار نکلا ترجمہ: انسان نے جو حسین ترین جوڑا دیکھا ہے وہ رقیہ اور ان کے شوہر عثمان ہیں ۔ شادی کے بعد حضرت عثمان اور حضرت رقیہ مکہ مکرمہ میں ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگے ۔ دونوں میاں بیوی میں محبت الفت اور انس بدرجہ اتم موجود تھا ۔ آپ مکہ میں خوشگوار زندگی گزار نا چاہتے تھے مگر مشرکین مکہ روز بروز عرصہ حیات تنگ کرتے جا رہے تھے مسلمانوں پر ظلم و ستم کو کوئی موقع اور بہانہ ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔

جب مشرکین مکہ کے مظالم حد سے بڑھ گئے اور مسلمانوں کے لیے اپنے ہی گھروں میں رہنا مشکل ہو گیا تو شافع دو جہاں ۖ نے صحابہ کرام سے فرمایا بہتر ہوگا کہ اگر تم حبشہ چلے جائو وہاں ایک ایسا حکمران ہے جس کی سلطنت میں کسی پر ظلم نہیں ہو تا آپ ۖ کے حکم پر گیارہ مردوں اور چار عورتوں کا ایک قافلہ حبشہ کی جانب روانہ ہو گیا سب سے پہلے نکلنے والے حضرت عثمان اور اُن کی زوجہ مطہرہ حضرت رقیہ بنتِ رسول ۖ تھے ۔ شہنشاہ ِ دو عالم ۖ کو جب پتہ چلا کہ مسلمانوں کا قافلہ کشتیوں پر بیٹھ کر ساحل سمندر سے دور جا چکا ہے تو حضرت ابو بکر صدیق کو مخاطب کر کے فرمایا اے ابو بکر حضرت ابراہیم اور حضرت لوط کے بعد حضرت عثمان پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنی بیوی حضرت رقیہ کے ساتھ کفار کی ایذا رسانی کے باعث خدا کی راہ میں ہجرت کی۔

ہجرت کو ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے کہ حبشہ میں کسی نے یہ افواہ پھیلا دی کہ رسول کریم ۖ کی قریش سے صلح ہو گئی ہے ۔ جب مسلمانوں نے یہ حبشہ میں یہ خبر سنی تو رسول کریم ۖ کی محبت میں شدت آگئی اور یہ تمام مکہ واپس آگئے واپسی پر پتہ چلا کہ وہ تو محض افواہ تھی مکہ میں تو دشمنان ِاسلام کے مظالم کم ہونے کی بجائے شدید ہو چکے ہیں چنانچہ نبی کریم ۖ نے دو بارہ مسلمانوں کوحبشہ ہجرت کر نے کی ہدایت فرمائی لہذا دوسری ہجرت میں حضرت عثمان اور حضرت رقیہ کے ہمراہ ایک سو سے زیادہ افراد کا قافلہ حبشہ پہنچا۔ اِس بار حضرت عثمان ا ور حضرت رقیہ نے حبشہ میں زیادہ عرصہ قیام کیا اِس دوران ربِ ذولجلال نے انہیں ایک لڑکا مرحمت فرمایا جس کا نام عبداللہ رکھا گیا۔

کچھ عرصہ بعد ہجرت ِ مدینہ کے وقت حضرت عثمان اور حضرت رقیہ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مکہ واپس آگئے ۔ لاڈلی بیٹی جب اپنے گھر پہنچیں تو اپنی بہنوں سے اپنی والدہ حضرت خدیجہ کے بارے میں پوچھا وہ خاموش رہیں دوسری بار پوچھنے پر حضرت امِ کلثوم نے سر جھکا لیا جب کہ حضرت فاطمہ زار و قطار رونے لگیں اب حضرت رقیہ کو اپنے سوال کا جواب مل چکا تھا۔ وہ آنسو بہاتی ہوئیں والدہ محترمہ کی قبر مبارک پر تشریف لے گئیں۔ اِس کے بعد رحمتِ دو جہاں ۖ کے حکم پر ہجرت مدینہ کی یہ حضرت رقیہ کی تیسری ہجرت تھی۔ مدینہ منورہ پہنچ کر حضرت عثمان اور حضرت رقیہ شاندار ازدواجی زندگی گزارنے لگے مدینہ منورہ میں دو ہجری میں غزوہ بدر پیش آیا۔

تیاری کے دوران ہی حضرت رقیہ کو چیچک کی بیماری لاحق ہو گئی جو روز بروز بڑھتی جا رہی تھی رحمتِ دو عالم ۖ نے حضرت عثمان سے فرمایا آپ رقیہ کی تیمار داری کے لیے مدینہ میں ہی قیام فرمائیں ۔نبی کریم ۖ جنگ میں شرکت کے لیے چلے گئے ادہر حضرت رقیہ کی بیماری شدت اختیار کر گئی اور والد محترم کی غیر موجودگی میں ہی حضرت رقیہ کا انتقال ہو گیا ۔ آپ کے کفن دفن کی تیاری کی گئی ادھر غزوہ بدر میں مسلمانوں کو رب العزت نے شاندار فتح نصیب فرمائی ۔ جب مدینہ میں جنگِ بدر کی فتح کی بشارت پہنچی تو اُس وقت حضرت رقیہ کی قبر پر مٹی ڈالی جارہی تھی ۔ نبی کریم ۖ کو خبر ملی تو بہت مغموم ہو ئے اور بیٹی کی یاد میں آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب بہہ نکلا چند دن بعد رحمتِ دو جہاں ۖ مدینہ تشریف لائے فوری جنت البقیع تشریف لے گئے آپ ۖکے ہمراہ لاڈلی چھوٹی بیٹی حضرت فاطمہ بھی تھی جو اپنی پیاری بہن کی جدائی اورغم میں قبر کے کنارے بیٹھ کر رونے لگیں تو بابا جان نے اپنی لاڈلی بیٹی کو تسلی دی حضرت رقیہ جب اس دنیا سے تشریف لے گئیں تو اُس وقت آپ کی عمر مبارک تقریباً بائیس سال تھی۔

Prof Abdullah Bhatti

Prof Abdullah Bhatti

تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
help@noorekhuda.org
03004352956