محبت

Love

Love

تحریر : محمد ریاض بخش
محبت کے اتنے زیادہ رنگ ہیں کہ انسان اس کی گنتی یا حساب نہیں لگا سکتے ہر انسان کے ساتھ اُس کا Pastوابسطہ ہوتا ہے۔اور انسان جتنا چاہے کوشش کرلے Pastکو بھلانے کی مگر ناکام رہتا ہے۔خاص کرکے محبت جیسے لمحات ۔دنیا میں ہر انسان کے پاس اپنی ایک کہانی ہے۔محبت کی راہ پے قربانی دینا پڑتی ہے۔یہ میں نے اب جاکر جانا ہے۔میں writerبن رہا ہوں جلدہی میرا ناول مارکیٹ میں آجائے گاآج میں محبت کے بارے میںکافی کچھ جانتا ہوں۔اور جب لکھنے بیٹھتا ہوںتو میرا اپنا Pastیاد آجاتا ہے۔یہ کہانی میں کبھی لکھنا نہیں چاہتا تھا۔کچھ دن پہلے میری دوست نے مجھے کہا کہ آپ بھی کوئی کہانی لکھو سنڈے میگزین میں اِس کی کافی کہانیاں چھپی ہیں۔تو میں نے بھی لکھ ڈالی جو میرے ساتھ بیتی۔مجھے 7سال ہوگئے ہیں یہاں لاہور میں 2006میںگائوں سے آیاتھا یہاںمیاںچنوں کے پاس میرا گائوں ہے۔تب تو مجھے پتہ ہی نہیں تھا کہ محبت کس کو کہتے ہے ۔۔جس بازار میں میرا گھر تھا اُسی بازار کے کارنر پے نازیہ رہتی تھی ہاں میری نازیہ۔میں تو جٹ ہوں وہ اور قوم کی ہے مسجد جاتے وقت اُن کے گھر کے آگے سے گزرنا ہوتا تھا۔ میں اور ابو صبح جلدی اُٹھتے میں ابو کے ساتھ ہی جاتا مسجد میں نماز پڑھنے کیلئے ابو نماز پڑھ کے کھیتوں میں چلے جاتے بھینسوں کا دودھ نکالنے اور چارہ ڈالنے میں درس لے کے آتا روزمرہ کی یہی روٹین چل رہی تھی۔

کہتے ہیں محبت بھی اُن لوگوں کو ہوتی ہے جن کو اللہ پسند کرتا ہے اور محبت کو لفظوں کی ضرورت نہیں ہوتی ۔۔میرے ساتھ بھی کچھ عجیب ہوا ایک دن میں روزمرہ کی طرح مسجد سے گھر آرہاتھا۔نہ زیادہ اندھیرہ تھا اور ناہی روشنی ایک لڑکی اپنے گھر کے باہر جھاڑو دے رہی تھی۔آپ یقین مانے جب میں اُس کے پاس سے گزرا میرے منہ سے سبحان اللہ کا لفظ نکلا کیسے نکلا مجھے نہیںپتہ وہ لڑکی نازیہ تھی۔دن گزرتے گئے میری روٹین بن گئی کوئی دن ایسا نہ گزرتاجس روز میں اُس کونہ دیکھوں اور اُسے دیکھ کر سبحان اللہ نہ کہوںاُس کا ٹائم بھی میں نے نوٹ کر لیا کس ٹائم وہ گھر سے باہر نکلتی ہے۔میری عمر تب 12سال تھی وہ مجھ سے چھوٹی تھی میرا روز اُسے دیکھ کر سبحان اللہ کہنا رنگ لے آیا مگر 4سے 5ماہ بعد وہ بھی مجھے دن کے ٹائم دیکھنے لگ گئی میں صبح 8بجے سکول کیلئے نکلتا اُس کا بھائی بھی میرے ساتھ ہی پڑھتا تھا ارومیرا دوست بھی تھا۔اب اِس طرح ہوگیا تھا کہ اس کو بینادیکھے میرا دن نہیں گزرتا تھا۔اُس کا بھی یہی حال تھا ۔۔وہ روز صبح 8بھے دروازے پے آتی صرف مجھے دیکھنے کیلئے میں گھر سے سائیکل پے نکلتا سکول کیلئے جب گلی کے کارنر پر آتا تو سائیکل سے اُتر جاتا اور پیدل چلنے لگ جاتا وہ دروازے پر گھڑی ہوتی ۔۔چاہے بارش آئے آندھی آئے یہاں تک کے چھٹی والے دن بھی وہ میرا انتظارکرتی ایک سال ایسے ہی گزر گیا ہم نے ایک دوسرے سے بات نہیںکی۔بس ایک دوسرے کو دیکھتے۔۔

دن میں ہم ایک دوسرے کے سامنے کم از کم 10بار آتے۔گورا رنگ گال پے کالا تل باریک سی ناک بڑی بڑی آنکھیںلمبے بال قاتل آدائیںمیں کیسے بتائوں کیا تھی وہ۔ کچھ عجیب اتفاق ہوا میں اس سے دور ہوگیا۔کچھ یوں ہواہماراکچا مکان تھا اس کی چھت گرگئی میں مسجد میں تھاابو کھتیوں میں چلے گئے 2بہنیں وہ بھی درس لینے گئی ہوئیں تھیں۔مجھے ایک شخص نے آکر بتایا کہ میرے گھر کی چھت گر گئی ہے میرا چھوٹا بھائی نواز تب 6ماہ کا تھا وہ اندرہی ہے۔میں مسجد سے نکلا دوڑتا ہوا گھر کی طرف آیا آج میں نے نازیہ کو دیکھ کر سبحان اللہ نہ کہا۔گھر آیا سردیاں تھیں اور رم جھم چل رہی تھی۔میرے سگے چاچوکھڑے ہوکر تماشہ دیکھ رہے تھے ۔۔گائوں میں زیادہ کچے مکان ہوا کرتے تھے اور چھت لکڑی اور کانے سے بنائی جاتی تھیں۔اِس کے اُوپر بہت ساری مٹی ڈالی جاتی تھی ۔۔ساری چھت گر گئی تھی کوئی آگے نہیں بڑھ رہا تھا ہمار ہمسایہ ظفر اقبال نے آگے بڑھ کر ملبا ہٹایا۔دیکھا توجس سائیڈپہ میرا بھائی سویا ہوا تھا۔اُس سائیڈکی چھت ابھی بھی سہی تھی اور میرا بھائی بے خبر سویا ہوا تھا ظفر نے آگے بڑھ کر بھائی کو اُٹھایا میری ماں کو دیاشاہدیہ بات آج کوئی نہ مانے جس سائیڈ پہ میرا بھائی سویا ہوا تھاوہاں ایک لکڑی کی سلیپ بنی ہوئی تھی جہاں قرآن شریف رکھا ہوا تھا جیسے ہی ظفر نے وہ قرآن شریف اُٹھایا وہ چھت گرگئی یہ بھی ایک مجزہ تھا۔

Slum

Slum

پھر ہم وہاں سے ایک کچی آبادی میںشفٹ ہوگئے فیملی میں مسلے چلنے لگ گئے میرے چاچے ہمارے ساتھ اچھے نہیں تھے۔گائوں میں 2مسجد تھیں ایک بڑی ایک چھوٹی اور وہ چھوٹی مسجد بالکل ہمارے نئے گھر کے پاس تھی ہم نے پرانے راستے ہی چھوڑدیئے سکول بھی میں دوسرے بازار سے جاتا کیونکہ میرے انکل ہمیں دھمکیاں دیتے تھے کہ پرانے بازار سے ہم گزرے تو ہمارے لیے اچھا نہیں ہوگا ۔۔کچھ عرصہ ایسے ہی گزرا ایک دن میں نے نازیہ کو اُس کی ماسی کے ساتھ کھیتوں میں جاتے دیکھا تو مجھ سے رہا نہ گیا۔میں بھی پیچھے چلا گیا نازیہ نے جیسے ہی مجھے دیکھا تو کھل اُٹھی ایسے جیسے گلاب ڈوڈی سے پھول بن جاتا ہے۔ میں اس کو کافی دیر دیکھتا رہا وہ رُک نہیں سکتی تھی کیونکہ اُس کی ماسی اس کے ساتھ تھی۔اس دن میں نے فیصلہ کیا کہ میں پرانے والا ریاض بن جاتا ہوں اور ایسا ہی کیا پہلے کی طرح اُسی بازار میںآنا جانا دن میں دس بار ایک دوسرے کو دیکھناہمارا معمول بن گیا۔اس بات کو 2سال بیت گئے ہم بس ایک دوسرے کو دیکھتے مگر بات نا کرتے۔ہمارے بیچ کیا تھا یہ ہم نہیں جانتے تھے مگر لوگوںکو پتا چلنا شروع ہوگیا۔میری فیملی میں پھر لڑائی ہوگئی اس لڑائی میں میرے بازو پے چوٹ لگی جس کانشان آج تک میری کلائی پر موجود ہے۔۔ میرے ابو اور انکل پر پرچہ ہوگیا۔وہ زیادہ تر گھر نہیں رہتے تھے گھر کی ساری ذمہ داری مجھ پر آہ گئی۔نازیہ کے لیے مجھے ٹائم نہ ملتا ایک مہینے تک میرے ابو اورانکل گھر سے باہر رہے گھر میں پولیس آتی جاتی رہتی تھی۔۔

ایک رات ہم سب سوئے ہوئے تھے کہ رات کے 12بجے ہماری حویلی کے دروازے پے دسک ہوئی میری بہن بھائی سب اندر مکان میں سوئے ہوئے تھے۔میں برامدیںمیں سویا ہوا تھا۔امی جاگ گئی امی کو زیادہ خطرہ تھا کہ کہی پولیس نہ آگئی تو امی اندر سے ہی بُرا بھلا کہے جارہی تھیں۔ میں نے امی کو کہا کہ امی جی میں دیکھتا ہوں رات کا ٹائم تھا ۔۔میں نے دروازہ کھولا تو باہر کوئی نہیں تھا میں حویلی سے باہر نکل کر دیکھا تو دیوار کے ساتھ کوئی کھڑا تھا میرے ہاتھ میں بیٹری تھی میں نے جب روشنی سے دیکھا تو وہ کوئی اور نہیں تھا بلکے نازیہ تھی میری نازیہ دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑی تھی ۔۔میں اس ٹائم کس کیفیت میں تھا میں بیان نہیں کرسکتا بس اِتنا بتا سکتا ہوں کہ گائوں میں لڑکی کا باہر نکلنا یا کسی لڑکے سے ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ مجھے لفظ ہی نہیں مل رہے کہ میں کیسے بیان کروںوہ ٹائم وہ وقت وہ لمحے ہاں اِتنا کہہ سکتا ہوں کہ نازیہ 13سال کی ہوکر مجھ سے بھی زیادہ بہادر تھی۔خیر امی کی آواز آئی اندر سے کون ہے میں نے کہا امی جی ہمسایہ ہے وہ ابو کا پوچھنے آیا ہے امی نے کہا ٹھیک ہے آکر سو جائو ۔میں نے دروازہ باہر سے ہی بند کیا کچھ دیر ہم وہی کھڑے رہے اِس کے بعد گھر کے ساتھ ہی مٹی کا ڈھیر لگا ہوا تھا وہاںآکر بیٹھ گئے آج وہ باتیں وہ لمحے مجھے یاد آتے ہیں تو میںہنستاہوں۔

رات تھی کچھ نظر بھی ہمیں نہیں آرہا تھا بیٹری تھی وہ تھوڑی دیر چلی اس کے بعد بند ہوگئی۔عجیب حالت تھی ہماری بہت دیر بیٹھے رہے صبح کی آذنیں شروع ہوگئیں۔تب نازیہ نے صرف مجھے یہ کہا کہ مجھے گھر چھوڑ کر آئو میں نے اپنا سر ہلایا۔۔ہنسنے والی بات ہے نہ کہ اندھیرے میں سر ہلتا ہوا کیسے نظر آیا ہوگا ۔۔ہم دونوں ساتھ چلنے لگ گئے۔ہم جب اُن کے گھر کے قریب پہنچے تو میرا ایک انکل حاجی ظہور وہ امام مسجد تھا تب اُس نے ہمیں دیکھ لیا۔نازیہ اندر چلی گئی میں واپس گھر آگیا۔ کچھ دن بعد ہماری فیملی میں لڑائی ختم ہوگئی اور آپس میں صلح ہوگئی میں شام کے وقت اکثرکھیتوں میں چلاجاتا تھا۔ایک دن میں روز مرہ کی طرح جارہا تھا میری کزن شائستہ وہ میرے آگے تھی میں پچھے چل رہا تھااُس کے اورمیرے بیچ ٢سو فٹ کا فاصلہ تھا۔ہمارے کھیتوں کی طرف جوراستہ جاتاہے وہ قبرستان سے گزرتا تھا۔ہمارے جہاں جانور باندھے ہوئے تھے اُس سے پہلے مٹی کا ایک بہت بڑا ٹیلاہے جو آج بھی ہے ایک پہاڑنماہے۔ اِس کے ایک سائیڈپے ایک نالا بہتا ہے ۔۔جس میں سے سرکاری پانی گزرتا ہے۔یہ سب چیزیں آج بھی قائم ہیں۔میری کزن اس نالے کے کنارے پے جاکر بیٹھ گئی میں قبرستان میں رُک گیا گائوں میں اُس ٹائم گھر میں باتھ روم نہیں ہوا کرتے تھے میں کافی دیر کھڑارہا یہاں تک کہ 35منٹ گزر گئے ۔۔اِس کے اور میرے بیچ فاصلہ کافی تھا۔اچانک شائستہ کھیتوں کی طرف بھاگی اور دوسرے ہی لمحے نازیہ کا بھائی یوسف ٹیلے سے نیچے اُتر رہا تھا ۔۔میرا رنگ اُڑگیا کہ یہ کہاں سے آگیا۔میں آگے بھڑا اس سے سلام دعا ہوئی وہ مجھ سے بڑا بھی تھا اور طاقتور بھی ویسے میرا دوست بھی تھا میں نے پوچھا یوسف صاحب کہاں سے آرہے ہو تو اس نے کہا کہ میں سیال کے پاس گیا تھا پانی کا پوچھنے۔

Tube Well

Tube Well

گائوں میں جو ٹیوب ویل لگے ہوتے ہیں۔اُس کا پانی باری باری ملتا ہے میں نے اُس سے کہا کہ وہ تو دوسرا راستہ ہے تویہاں کیا کررہا ہے اِتنے میں فلک شیر ہاتھ میں کلہاڑی لے کر آگیا۔اِس ٹیلے کے ساتھ ایک جنگل بنا ہوا ہے وہاں کافی سارے درخت ہیں وہاں پر گیارویںکو دیگیںپکتی ہیںفلک شیر وہاں رہتا تھا ۔۔اِس نے وہ سارا ماجرہ دیکھا تھا شائستہ اور یوسف کا اور میرا وہ بہت خیر خواہ تھا اِس نے آتے ہی یوسف سے پوچھا کیا کرنے اآیا تھا یہاں ۔۔یوسف نے پھر وہی جواب دیا فلک شیر ُاس کو گالی نکالتے ہوئے اس کو کلہاڑی کا ڈنڈا دے مارا یوسف زمین پر گر گیا اور بول دیا کہ میں شائستہ کے پچھے آیا تھا ۔۔فلک شیر نے یوسف کو بھگا دیا اور مجھے کہا کہ اس بات کا کسی کو پتہ نہ چلنے دینا۔۔میں رات کو گھر آیا میری ایک انکل سے کافی بنتی تھی۔میں نے آکر سب کچھ اُسے بتا دیا انکل نے مجھے لیا اور یوسف کے گھر آگیا سب بیٹھے ہوئے تھے نازیہ بھی تھی یوسف کی 3فیملیاں ایک ہی گھر میں رہتی تھیں۔چاچو نے وہ ساری بات یوسف کے امی ابو سے کہی۔یوسف کے امی ابو نے یوسف کو کافی بُرا بھلا کہا لیکن میرا سر جھک گیا نازیہ کے سامنے پتا نہیں کیوں۔۔ ہم واپس گھر آگئے شائستہ کو اس بات کا علم ہوگیا دوسرے دن صبح جب شائستہ کے ابو کو یہ بات پتا چلی تو اُس نے شائستہ کو بہت مارا یہاں تک کہ اُس کا گلا دبادیا مارنے کیلئے مگر شائستہ کی سوتیلی ماں نے اُسے بچا لیا۔

شائستہ نے اپنی جان بچانے کیلئے اپنے گھر والوں کو یہ کہا کہ میں بے قصور ہوں اصل بات تو یہ ہے کہ ریاض نے مجھے کہا تھا کہ نازیہ کو بلاکر لائو نازیہ اور ریاض کا آپس میں چکر ہے۔میں جب نہیں مانی تو ریاض نے مجھے مارا اور میرے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کی۔ بس پھر کیا تھا جٹ پاگل ہوگئے اور چاروں بھائی ہمارے گھر آگئے۔۔ میں سکول کیلئے تیار تھا بس ناشتہ کرنا تھا آتے ہی چاروں چاچوں نے میری دھلائی کرنا شروع کردی ابو نے جب پوچھا تو ایک چاچے نے ساری بات بتائی مار تو ہمیںبچپن سے ہی مطلب جب سے ہوش سمبھالہ ہے تب سے پڑتی آرہی ہے۔لیکن یہ مار کچھ الگ تھی اتنی الگ کہ میری ایک داڑھ ٹوٹ گئی۔جو ابھی تک ویسے ہی ہے۔خیر کچھ سکون ملا کافی دھمکیاں ملی مجھے لیکن معملا ٹھنڈا ہوگیا۔سکول جانے کی حالت نہیں تھی میں کافی زخمی ہوگیا تھا سر بھی پھٹ گیا تھا دوسرے دن فلک شیر گھر آیا میں چارپائی پے لیٹا ہوا تھا آتے ہی اُس نے مجھے ایک بات ہی کہی میں نے کہا تھا نہ کہ اس بات کا علم کسی کو مت ہونے دینا اب انجام دیکھ لیا۔۔خیر دن گزرے میں نازیہ سے دوبارہ نا ملا میں نے دسویں کلاس کے پیپر دیے 4ماہ تک ہم نے ایک دوسرے کی شکل تک نہ دیکھی۔

ایک دن میں ٹیوب ویل سے نہا کر آرہا تھا نازیہ اپنی ماسی کے ساتھ آہ رہی تھی جیسے ہی اُس کی نظرمجھ پے پڑی میں دوڑنے لگا ۔۔اُس نے پیچھے سے آواز لگائی خدا کے واسطے رک جائو۔یہ سب باتیں پنجابی میں ہے اُردو میں میں لکھ رہا ہوں میں نہ چاہتے ہوئے بھی رُک گیا۔نازیہ کی ماسی نے اُس کو کچھ کہا تو نازیہ نے اُسے کہا جائو جو کرنا ہے کرلو جس کو بتانا ہے بتا دو۔۔نازیہ میرے سامنے آگئی میں نے اپنا سرجھکالیا ایسے جیسے میں نے بہت بڑا جرُم کیا ہو۔۔نازیہ کہتی خدا کا واسطہ ریاض میری طرف دیکھو جب میں نے اُس کی طرف دیکھا تو اُس کی آنکھوں میں آنسوں تھے یہ بڑی بڑی کالی آنکھیں اس میں ہلکی لالی اُہ خدا گورے رنگ پے کالا تل چمک رہا تھا جیسے بنا سورج کے ہر طرف روشنی ہو وہ کافی باتیں کر رہی تھی مجھے ایک کی بھی سمجھ نہ آئی میں تو بس اُس کی آنکھوں میں کھو گیا تھا۔صرف ایک بات مجھے سمجھ آئی وہ بھی سمجھ نہ آتی اگر اُس نے مجھے ہاتھ سے جھنجھوڑا نہ ہوتا۔اُس نے کہا کہ آج میں اپنے گھر میں تمہارا انتظار کرونگی اگر تم نا آئے تو صبح میری لاش ملے گی۔میں نے اپنا سرہلایا وہ چلی گئی اپنی ماسی کے ساتھ اُسے سب باتوں کا پتہ تھا کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے۔رات ہوئی 11بجے میں اس کے گھر چلا گیا اس کی چارپائی کے ساتھ اس کی امی سوئی ہوئی تھی میں اور نازیہ ایک چارپائی پر بیٹھ گئے نازیہ نے کہا اب تم مجھے دیکھ کر سبحان اللہ کیوں نہیں کہتے میں کچھ نہ بولا اس نے بہت کوشش کی کہ میں کچھ بولوں مگر میں کچھ نہ بولاکافی دیر بیٹھے رہے پھر نازیہ نے کہا کہ اب تم جائو اور اگر اب مجھے جس دن تم نے اپنی شکل نا دیکھائی تو اُس دن میں مرجائونگی۔

Praying Namaz

Praying Namaz

میں گھر آیا کچھ دیر سویا آذنیں ہوئی وضو کیا بڑی مسجد میں چلا گیا واپسی پے نازیہ جھاڑو دے رہی تھی میں نے رک کر نازیہ کو سبحان اللہ کہایہ میرا آخری سبحان اللہ کہنا تھا۔۔اس دن میں نازیہ کا انتظار کرتا رہا لیکن وہ گھر سے باہر نہ آئی چھٹے دن مجھے پتہ چلا کہ نازیہ اپنے ماںباپ کے ساتھ شیخ فاضل چلی گئی ہے۔شیخ فاضل ایک شہر کا نام ہے وہاں نازیہ کے رشتے دار رہتے تھے مجھے دس دن بعد پتا چلا حقیقت کاجس رات میں نازیہ کے گھر گیا تھا اور صبح اُسے دیکھ کر سبحان اللہ کہا تھا وہ شب اس کے گھر والوں کو پتہ چل گیا تھا۔۔میرے چچا حاجی ظہور نے اس کی ماں کو بتایا بس پھر کیا تھا نازیہ کے گھر والوں نے اُسے بہت مارا اتنا مارا کہ اُس کا ایک بازوتوڑدیا نازک سی بچاری نازیہ اِس پے اتنے صتم بازو ٹوٹنے کی وجہ سے اس کے گھر والے نازیہ کو لے کر شیخ فاضل چلے گئے۔اگر یہاں رہتے تو لوگ پوچھتے اور ان کی بدنامی ہوتی۔دن گزرنے لگ گئے جہاں میرا وزن 60کلو تھا وہ کم ہوکر 40رہ گیا آرام ہی نہیں آتا تھا گھر والے کوئی کام کہتے تو میں بھول جاتا اور مار کھاتا۔کچھ اچھا نا لگتا ہر ٹائم اس کا معصوم سا چہرہ میری نظروں کے سامنے رہتا 2ماہ بعد نازیہ واپس آئی سوموار کا دن تھا آج تک دن یاد ہے مجھے دوپہر کا ٹائم تھا میں اپنے ڈیرہ سے ہو کر آرہا تھا۔

ہمارے گائوں کے بیچ ایک ہی راستہ ہے اڈے کی طرف جانے اور آنے کا اور وہی راستہ ہمارے کھیتوں کو بھی جاتا ہے آج بھی قائم ہے وہ اپنے امی ابو اور بھائی کے ساتھ تھی ہاتھ میں شاپنگ بیگ پکڑا ہواتھا۔جب میری نظر پڑی تو کیا بتائوں کیا حالت تھی میری اس ٹائم بس دیکھتا ہی رہ گیا اس نے مجھے ایک نظر دیکھا اس کے بعدنہیں دیکھا میں گھر آیا جشن منایا میں بہت خوش تھا۔۔دوسرے دن صبح میں پہلے کی طرح نماز پڑھی واپسی پے جب اُنکے گھر کے سامنے سے گزرا تو وہ باہر نہیں تھی۔کچھ دیر وہاں میں کھڑا رہا گھر آیا تھوڑی دیر بعد پھر گیا میں نے اس کو نادیکھا 4دن گزرگئے خوش تومیں تھا کیونکہ وہ واپس آہ گئی تھی۔لیکن مجھے کیا پتہ تھا کہ آنے والے حالات کچھ اور ہی ہیں۔چوتھے دن شام کے ٹائم وہ اپنی ماسی کے ساتھ کھیتوں کی طرف جا رہی تھی میں تو پہلے ہی کارنرپے اس کے انتظار میں بیٹھا تھا۔وہ بالکل میرے پاس سے گزر گئی اس کے ہاتھ میں ایک شاپئر بیگ تھا جو آگے جاکر اس نے ایک سائیڈ پر رکھ دیا میں آگے بڑھا اور وہ بیگ اُٹھالیا بس یہ میری اور نازیہ کی آخری ملاقات تھی مطلب میں نے اُس کو آخری بار دیکھا ۔میں گھر آیا بیگ کھولا ایک رومال تھا جس کے اوپر ریاض اور نازیہ لکھا ہوا تھا۔اور ہاتھ سے کڑھائی کی ہوئی تھی۔ایک ناڑا تھا مطلب نالہ جو شلوار میں ڈالتے ہیںاس پے بہت پیارے پھول بنے ہوئے تھے۔ایک پن تھا جس کے اوپر کپڑے کا Coverتھا Coverپر بھی کڑھائی کی ہوئی تھی۔ایک سویٹر جو ہاتھ سے بنا ہوا تھا کچھ ٹوفیاں تھی ایک چھلّہ تھاایک خط تھا اُس پے کچھ یوں لکھا ہوا تھا۔

تسی تاں کدے بولے وی نئیں ہو ساڈے نال پر میں تہاڈی خاموشی دی زبان سمجھ جانی آں شاہد اج توں بعد اسی کدے نا مل سکے ارو نا ہی اک دوجے نو ویکھ سکاں گے۔۔ لیکن یاد رہوا گے اک دوجے نوں مرن تک اللہ حافظ۔بس اور کچھ نہیں لکھا ہوا تھا شاہد یہ بھی اس نے کسی سے لکھاواتھا کیونکہ وہ بس تیسری کلاس تک پڑھی یہ سب چیزیں میرے پاس آج بھی ہیں ٹوفیاں میں نے کھالی تھیں۔باقی سب کچھ میرے پاس ہے آج بھی باکل ویسے جیسے اُس نے دیا تھا اب جب مجھے اُس کی یاد آتی ہے تو میں وہ چیزیں دیکھ لیتا ہوں تو سکون مل جاتا ہے ان چیزوں سے اس کی خوشبو آج بھی آتی ہے۔3دن بعد اس کی شادی ہوگئی میری دنیا اُجڑ گئی۔میں بزدل تھا جو کچھ کرنہ سکا مگر وہ بہت بہادر تھی شادی سے ایک رات پہلے اُس نے اپنے گھر والوں کو کہہ دیا تھا کہ میںشادی نہیں کروں گی مجھے ماردو۔جب نازیہ شیخ فاضل سے واپس آئی تھی وہ مجھے اسلئے نہیں دیکھتی تھی کیونکہ اس کے گھر والوں نے اُسے کہا تھا کہ اگر تم نے اُس کی طرف دیکھا تو ہم اُسے مارڈالیں گے مارنا آسان تو نہیں تھا مگر وہ بچاری چھوٹی سی بچی ڈرگئی۔

Talk

Talk

یہ باتیں ساری مجھے شائستہ نے بتائی نازیہ کے بھائی اور ابو نے نازیہ کو بہت مارا یہ بھی میں نے سنا تھا کے نازیہ کو شادی والے دن بہوش ہی گاڑی میں ڈالا گیا تھا۔میں کچھ کربھی نہیں سکتا تھا آج یہ میں لکھارہا ہوں اور روبھی رہا ہوں۔بس میری کہانی ختم ہوگئی۔ ہمارا جو نیا گھر ہے اس کے سامنے مراسی تھے اب نہیں ہیں۔کیونکہ ابو نے وہ جگہ خرید لی تھی اُن مراسیوں کا لڑکا لاہور میں کام کرتا تھا میں اُس کے ساتھ لاہور بھاگ آیا کیونکہ مجھ سے گائوں میں رہا نہیں جاتا تھا لوگوں کا سامنا نہیں کر سکتا تھا کچھ دن لاہور میں رہا پھر گائوں چلا گیا یہ سوچ کر کے نازیہ کو ایک بار دیکھ آئوپر نہ دیکھ سکا وہ شادی کے بعد گھر آئی ہی نہیں ۔۔مجھے گائوں بہت پیارا لگتا ہے۔پر چھوڑ آیا اب میں لاہور میں ہی رہتا ہوں سال یا 2سال بعد چلا جائو تو بہت بڑی بات ہے وہ بھی صرف ایک رات کیلئے نازیہ کی شادی کو اب 7سال ہوگئیں ہیں۔

وہ بھی زیادہ سے زیادہ 5یا 6دفعہ گائوں آئی ہوگی میری کزن شائستہ مجھے بتاتی رہتی ہے شائستہ نے کئی بار نازیہ سے پوچھا کہ تم گائوں کیوں نہیں آتی تو نازیہ نے کہا اس گائوں سے مجھے نفرت ہے اس گائوں نے میرے ریاض کو کھا لیا اب میرا کچھ نہیں ہے وہاںفون پے جب شائستہ اور نازیہ کی بات ہوتی ہے تو وہ میرے بارے میں پوچھتی ہے آج ہم سمجھدار ہیں اگر چاہے تو مل سکتے ہیں وہ جہاں رہتی ہے مجھے پتہ ہے مگر اب وہ میری نازیہ نہیں رہی اور نہ ہی میں اُس کا ریاض ہوں وہ اِس ٹائم خوش ہے میں بھی خوش ہوں۔اس کہانی میں جیتنے بھی لوگ ہیں آج بھی زندہ ہیںمیں بھی زنددہ ہوں۔

یاد ہے یاد ہے بس یاد ہے وہ
بس یاد آتی ہے وہ ہر سانس لینے کے بعد
ہنساجاتی ہے مجھے رولانے کے بعد
بہت دیر تک سوچتا ہوں میں اُسے
ہر بار اُسے بھلانے کے بعد
نہ وہ بے وفا تھی نہ میں بے وفا ہوں
بس بے فکر تھے ہم دنیا میں آنے کے بعد
ہزاروں باتیں تھی جو کہنی تھیں اُن سے ہم کو
یاد آیا ہم کو اُنکے جانے کے بعد
بسی ہے وہ آج بھی ہم میں ریاض خوشبوکی طرح
دل میں وہ آج بھی ہے لمحے بیت جانے کے بعد

Muhammad Riaz Bakhsh

Muhammad Riaz Bakhsh

تحریر : محمد ریاض بخش