تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے

PTI Protest

PTI Protest

تحریر: پروفیسر رفعت مظہر
یہ مکافاتِ عمل ہی توہے کہ آج تحریکِ انصاف کواُسی بادِمخالف کے تھپیڑوںکا سامناہے جو دھرنوں کے ایام میں نوازلیگ کے خلاف چلی اورخوب چلی۔ نوازلیگ تواپنا دامن بچاکر نکل آئی کہ کسی ”امپائر”کی انگلی کھڑی نہ ہوسکی لیکن جن پے درپے طوفانوںکا سامنااب تحریکِ انصاف کوہے اُن سے شایدوہ نکل نہ سکے ۔جس سونامی کاذکرکپتان صاحب کی زبان پر”ورد”کی طرح جاری تھا، اب وہی سونامی تحریکِ انصاف کوگھیرے ہوئے ہے ۔حقیقت یہی ہے کہ اپنی شخصیت کاسحر توڑنے کے ذمہ داربھی کپتان صاحب خودہی ہیں۔قوم نے تودشتِ سیاست کے اِس نَووارد کے وجودکو عطربیزہوا کاتازہ جھونکاجان کروالہانہ استقبال کیا

لیکن جلدہی بھیدیہ کھلاکہ جسے وہ بادِشمیم ونسیم سمجھ بیٹھے تھے وہ توایسی بادِسموم ہے جو چلے توصحنِ چمن اُجڑکے رہ جاتاہے ۔جب اہلِ عقل ودانش پرعیاں ہواکہ خاںصاحب کی تگ ودو کامحورومرکز مسندِاقتدار ہے اورحصولِ مقصد کے لیے وہ ”جنگ اورمحبت میںسب جائزہے”جیسے فارمولے پرعمل پیراہیں تواُن کاردِعمل بھی شدیدتر تھا۔ نتیجہ یہ کہ 2013ء کے انتخابات میںنتائج خاںصاحب کی توقعات کے بالکل برعکس ،جنہیں اُن کاقلب وذہن تاحال قبول کرنے کوتیار نہیں۔ دھرنوںکے ایام میںخاںصاحب کی شخصیت کایہ پہلوبھی کھل کرسامنے آگیاکہ نوجوانوںکے یہ محبوب رہنماء ضدی ،اناء پرست اورنرگسیت کا شکارایسے شخص ہیں

جن کی ”کتابِ سیاست”میںیہ درج کہ جھوٹ اتنے تواترسے بولوکہ سچ کاگماں ہونے لگے ۔”دھرناسیاست” میںبُری طرح ناکام تحریکِ انصاف کودھرنوںسے جان چھڑانااُس وقت مشکل ہوگئی جب مولاناقادری اپنے عقیدت مندوںکے ہمراہ دھرنوںکو خیربادکہہ کراپنے ”دیس”سدھارے اوراپنے ساتھ ہی تحریکِ انصاف کی محفلیںبھی سونی کرگئے۔ پھرانتہائی کربناک ”سانحۂ پشاور”ہوا جس کی آڑمیں خاںصاحب نے نہ صرف دھرنے ختم کیے بلکہ کچھ عرصے بعداُسی پارلیمنٹ میںجا بیٹھے جس کے خلاف وہ ایسی غیرپارلیمانی زبان استعمال کیاکرتے تھے جسے لکھتے ہوئے بھی قلم مارے شرم کے تھرتھرانے لگتاہے۔

Election

Election

خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میںپاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی دھاندلی ہوئی۔ اِن خونی انتخابات میںستائیس افرادلقمۂ اجل بنے اورشایدہی کوئی ”وارڈ”ایسا بچاہو جہاںدھاندلی کے ریکارڈنہ ٹوٹے ہوں۔ریٹرننگ آفیسراور پریزائیڈنگ آفیسرکو لکھ کردیا کہ وزیرِاعلیٰ پرویزخٹک کے بھائی لیاقت خٹک کے حلقے کی پولنگ رات بارہ بجے تک جاری رہی، خیبرپختونخوا کے وزیرعلی امین گنڈاپور بیلٹ بکس لے کرفرار ہوئے ۔بہلٹ بکس جلائے گئے ،پولیس والے سرِعام ٹھپے لگاتے رہے اوریہ سب کچھ الیکٹرانک میڈیاکے کیمروںنے قوم کودکھلابھی دیا۔ خود کپتان صاحب نے یہ تسلیم کیاکہ دھاندلی ہوئی اِس لیے وہ فوج کی نگرانی میںدوبارہ انتخابات کروانے کوتیار ہیں۔ خیبرپختونخوا حکومت نے اسی سلسلے میںاے پی سی بلوائی جس میںاے این پی ، جمعیت علمائے اسلام ،پیپلزپارٹی اورنوازلیگ نے شرکت سے انکارکر دیا

کیونکہ اُن کامطالبہ ہے کہ پہلے حکومت مستعفی ہوکیونکہ اِس حکومت کی موجودگی میںشفاف انتخابات ممکن نہیں۔ تحریکِ انصاف کی اتحادی جماعت اسلامی حکومت کے مستعفی ہونے کامطالبہ تونہیں کررہی لیکن دھاندلی کے خلاف سب سے تواناآواز بھی اُسی کی ہے۔ اب عمران خاںصاحب کہتے ہیں”حکومت سے مستعفی ہونے کامطالبہ بدنیتی پرمبنی ہے ۔ہم سے استعفے مانگنے والوںنے نوازشریف سے استعفیٰ کیوںنہیں مانگا؟۔ 2013ء کے انتخابات میںدھاندلی ہوئی تووفاقی حکومت مستعفی کیوںنہیں ہوئی ؟۔ ہم نے جوڈیشنل کمیشن کے فیصلے تک حکومت سے مستعفی ہونے کونہیں کہاجبکہ اے این پی ، جمعیت علمائے اسلام اورپیپلزپارٹی والے کہہ رہے ہیںکہ KPK حکومت مستعفی ہوجائے ”۔ عرض ہے کہ 2013ء کے انتخابات ایسی نگران حکومتوں کے تحت ہوئے جوپیپلزپارٹی کی منتخب کردہ تھیں، چیف الیکشن کمیشن تحریکِ انصاف کی مرضی سے منتخب ہوا ،عدلیہ ریٹرننگ آفیسرز تحریکِ انصاف کے مطالبے پردینے کے لیے تیارہوئی اورالیکشن سے پہلے تحریکی حلقوںکی جانب سے کسی قسم کی کوئی شکایت سامنے بھی نہیںآئی ۔یہی وجہ ہے کہ خاںصاحب نے میاںنواز شریف صاحب کوالیکشن میںبھرپور کامیابی پرمبارکباد بھی دی۔

دوسری طرف خیبرپختونخوا میںنگران نہیںبلکہ منتخب حکومت تھی جس کے ”زیرِسایہ” دھاندلی کے اگلے پچھلے سارے ریکارڈٹوٹ گئے ۔نگران توالیکشن کرواکر اپنے گھرچلے گئے لیکن کے پی کے حکومت تاحال برسرِاقتدار ہے اِس لیے ”آزمودہ راآزمودن جہل است”کے مصداق اِس حکومت کے ہوتے ہوئے بلدیاتی انتخابات کادوبارہ ڈول ڈالا جاناجہالت ہی ہے۔ خاںصاحب نے یہ بھی بالکل غلط کہاکہ اُنہوںنے جوڈیشل کمیشن کے فیصلے تک حکومت کومستعفی ہونے کونہیں کہا کیونکہ وزیرِاعظم صاحب نے توقوم سے خطاب کرتے ہوئے 12 اگست 2014ء کوہی جوڈیشل کمیشن کے قیام کااعلان کردیاتھا جسے تحریکِ انصاف نے تسلیم نہ کرتے ہوئے اسلام آبادکے ڈی چوک میں126 روزہ دھرنادیا۔

Attack on PTV

Attack on PTV

دھرنے کے دوران پارلیمنٹ ہاؤس ،وزیرِاعظم ہاؤس اورپی ٹی وی پرقبضے کی کوششوں کے علاوہ امپائرکی انگلی کھڑی ہونے کاانتظار بھی کیاجاتا رہا۔ جوڈیشل کمیشن کافیصلہ اسی ہفتے متوقع ہے اورہمیں یقین ہے کہ منظم دھاندلی ثابت نہیںہو سکے گی کیونکہ کنٹینرپر کھڑے ہوکر کچھ کاغذات کوہوا میںلہراتے ہوئے جذباتی نوجوانوںکو ورغلانااور بات ہے اورٹھوس ثبوت پیش کرنایکسرمختلف ۔تحقیقاتی کمیشن ٹھوس ثبوت مانگتاہے جس میںتحریکِ انصاف تاحال بری طرح ناکام ہے ۔اسی لیے کہاجا سکتاہے کہ اِس میدان میںبھی تحریکِ انصاف کوہزیمت کاسامنا ہی کرناپڑے گا۔ تحریکِ انصاف کاوجود قوم کے لیے اِس لیے ضروری ہے کہ حکمرانوںکو راہِ راست پررکھنے کافریضہ اپوزیشن ہی سرانجام دیتی ہے اوراگر اپوزیشن مضبوط ہوتو حکمران کبھی من مانی نہیںکر سکتے۔

بدقسمتی سے خاںصاحب سمیت اکابرینِ تحریکِ انصاف کی غلط پالیسیوںکی وجہ سے اُفقِ سیاست پراُبھرتی ہوئی یہ جماعت اپنی مقبولیت متواترکھوتی چلی جارہی ہے جس کا واضح ثبوت ملک کے طول وعرض میںہونے والے ضمنی انتخابات ہیںجن میںتحریکِ انصاف کوزیادہ تر ہزیمت کاسامناہی کرناپڑا ۔حال ہی میںہونے والے ننکانہ صاحب اورمنڈی بہاؤالدین کے قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میںتحریکِ انصاف کونون لیگ کے مقابلے میں 35 ہزارسے زائد مارجن پرشکست ہوئی ۔منڈی بہاؤالدین کی نشست توتحریکِ انصاف کی خالی کردہ تھی پھربھی نوازلیگ کے امیدوار کو77 ہزارسے زائدووٹ ملے جبکہ تحریکِ انصاف کے امیدوار کوصرف 40 ہزار ۔گلگت بلتستان کے انتخابات میںنوازلیگ نے واضح کامیابی حاصل کرتے ہوئے 27 میںسے 14 نشستیںجیت لیں

جبکہ پیپلزپارٹی کاصفایا ہوگیا اور اُس کے سابق وزیرِاعلیٰ گلگت بلتستان بھی ہار گئے ۔ تحریکِ انصاف کوبھی ہزیمت کاہی سامناکرنا پڑااور اس کے حصے میںصرف ایک نشست ہی آسکی ۔2013 ء کے انتخابات کے بعد ہونے والے ضمنی الیکشنز اورگلگت بلتستان کے الیکشن سے تو یہی ظاہرہوتا ہے کہ نوازلیگ کی مقبولیت کاگراف متواتر بڑھتاچلا جارہا ہے اِس لیے کیایہ بہتر نہ ہوگا کہ محترم خاںصاحب ”منظم دھاندلی” کاشور مچانے کی بجائے قومی دھارے میںشامل ہوکر اپنی صلاحیتیں ملک وقوم کی بہتری کے لیے وقف کردیں۔

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر: پروفیسر رفعت مظہر