مدارس کی حالت زار

Madrassas

Madrassas

تحریر : سالار سلیمان
کچھ دن ہوئے کہ میں اپنے ایک دوست کے گھر گیا۔ آج خلاف توقع اس کا آٹھ سا ل کا بیٹا وہ طوفان نہیں اٹھا رہا تھا جو ا س کی پہچا ن تھی۔ اس نے دروازہ کھولا اور مجھے خاموشی سے ڈرائنگ روم میں بٹھا کر اپنے باپ کو بلانے چلا گیا۔ میں نے اپنے دوست کی ڈرائنگ روم آمد پر پوچھا کہ اس چھوٹے چیتے کو کیا ہوا ہے؟وہ خاموشی سے بیٹھا قالین کو گھورتا رہا۔ میں نے اپنا سوال دوبارہ سے دہرایا ‘ تو اس نے کچھ توقف کے بعد کہا کہ یار اس علاقے میں کوئی بھی ڈھنگ کا سکول نہیں ہے ۔میں اپنے بچے کو جاہل نہیں رکھنا چاہتا تھا’ سرکاری سکولوں کی حالت کا تمہیں بھی علم ہے اور پرائیوٹ سکولوں کے اخراجات بھرنے کی مجھ میں سکت نہیں ہے۔ میں نے اپنے اور جاننے والوں سے مشورے کے بعد اپنے بیٹے کو قریب کے مدرسے میں داخل کروا دیا۔ میں خوش تھا کہ میرا بیٹا اب پڑھ لکھ کر عالم دین بنے گا، یہ حافظ قرآن ہو گا اور میں ایک حافظ کا باپ کہلاوں گا، لیکن مجھے یہ علم نہیں تھا کہ میں اس فیصلے سے اپنے بیٹے کی معصومیت کا گلا گھونٹ رہا ہوں۔

میں اس کو مدرسے میں داخل کروا کر مطمئن تھا۔ لیکن چند ہی دنوں کے بعد میں نے اس میں تبدیلیاں نوٹ کرنا شروع کر دی۔ یہ بہت شوخ اور چنچل بچہ تھا لیکن اب اس میں بے انتہا سنجیدگی آ رہی تھی ۔یہ اونچی آوز سے ڈرنا شروع ہو گیا تھا ‘ یہ دروازہ زور سے بند ہونے پر سہم جاتا تھا، جس کے قہقہو ں سے پورا گھر گونجتا تھا ، وہ اب آکر کھانا کھاتا تھا، اپنا سبق یاد کرتا تھااور سو جاتا تھا۔ میں اس دوران میں ٹی وی دیکھتا تھااور کل کے دفتری امور کی پلاننگ کرتا تھا۔ میں نے اس کی ماں سے ایک دو دفعہ اس بات کا ذکر کیا لیکن وہ بھی میری طرح مخمصے کا شکار تھی۔ ہم دونوں کو علم نہیں تھا کہ ہماری اکلوتی اولاد سنجیدہ کیوں ہے۔

ہم مذا قکی کوشش کرتے تو وہ چڑچڑا ہو جاتا تھا۔ میں نے ایک ڈاکٹر سے وقت لیا کہ اس کو ڈاکٹر کو بھی دکھاتے ہیںاور میں نے یہ پروگرام بنا لیا تھا کہ اس مرتبہ رمضان کے بعد عید کی چھٹیوں میں کسی نہ کسی طرح میں اپنے بچے کو مری کی سیر پر لے جاؤ گا تو یہ بہتر ہو جائے گا۔ میں جب بھی اس سے مدرسے کا ذکر کرتا تھا تو یہ خاموش ہو جاتا تھا۔میری کم عقلی کہ میں سمجھ ہی نہ سکا کہ مجھے اپنے بچے کو کیسے ڈیل کرنا ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے جب اس کی ماں اس کو نہلا رہی تھی تو اس نے اسکی پیٹھ کر لال نشان دیکھے ، وہ بیچاری ان کو دیکھ کر دہک سے رہ گئی تھی ۔ میرے بیٹے کو مدرسے جاتے ہوئے دو ماہ ہو چکے تھے اور یہ پہلی مرتبہ تھا کہ اس کی پیٹھ لال تھی۔ ماں نے اس کو نہلا کر پیار سے پوچھا تو بچہ تو شاید پہلے ہی بھرا پڑا تھا، اس نے ماں کی گود میں سر دیا اور آنسووں کے ساتھ ساری بات بتلا دی۔

Madrassas in pakistan

Madrassas in pakistan

امی۔۔۔! مجھے مدرسے سے اٹھا لیں ۔ میں یہاں نہیں جاوں گا۔ قاری صاحب روز بچوں کو پلاسٹک کے پائپ سے مارتے ہیں’ کبھی وہ پائپ سر میںلگتا ہے ‘ کبھی کمر پر اور اکثر پیٹھ پر لگتا ہے ، میں روز سبق یاد کر کے جاتا ہوں اور بچ جاتا ہوںلیکن پھر بھی ہر روز تین چار تھپڑ کھانا میرا بھی معمول تھا۔ پھر ایک دن قاری صاحب نے پیار سے مجھے اپنے پاس بلایا اور کہا کہ میں اچھا بچہ ہوں ‘ سبق یاد کر کے آتا ہوں’ پیارا بچہ ہوں اور اس دوران قاری صاحب مجھے چومتے بھی جا رہے تھے ۔ انہوں نے مجھے اپنی گود میں بٹھالیا اور کہا کہ اب سبق پڑھولیکن میں ان کی گود میں ٹھیک طرح سے بیٹھ نہیں پا رہا تھا’ میں ان کی گود سے اٹھا ہی تھا کہ انہوں نے زور دار تھپڑ مارا اور میں دور جا گرا۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے مرغا بنا دیا۔ جب دوپہر میں کھانے کا ٹائم ہواتو میں نے اپنے ایک دوست سے اس کا ذکر کیا کہ آج قاری صاحب کو زیادہ غصہ آیا ہوا ہے اور انہوں نے مجھے پہلے پیار کیا اور بات میں پٹائی کے بعد مرغا بنا دیا ، میرے دوست نے مجھے بتایا کہ اب تم بھی قاری صاحب کے مہمان بنو گے ،میں نے پوچھا کہ یہ کیا ہے تو اس نے مجھے بتا یا کہ قاری صاحب کو جو بھی بچہ اچھا لگتا ہے ‘وہ عصر کے بعد چھٹی سے پہلے ان کے حجرے میں ان کا مہمان بنتا ہے ۔ اس کے بعد کی تفصیل لکھتے ہوئے مجھے شرم آ رہی ہے لیکن اس بچے نے اس کو وہ تفصیل بتا دی۔

عصر کے بعد قاری صاحب نے اس بچے کو اپنے حجر ے میں جا کر سبق یاد کرنے کا کہا تو اس نے صاف انکار کر دیا۔ قاری کی غیرت نے جوش مارا اور اس نے اس معصوم کی کمر لال کر دی۔ میرے دوست کا کہنا تھا کہ آج اس واقعے کاآٹھواں دن ہے اور میں اب بچے کو مدرسے نہیں بھیج رہا ۔ میں خاموشی سے اس کی داستان سنتا رہا۔میں جانتا تھاکہ وہ جو بھی کہ رہا ہے ٹھیک کہ رہا ہے ۔میں نے اس سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ تم پولیس تک نہیں گئے ہو؟ اس نے کہا کہ میں پولیس کے پاس جانے سے پہلے قاری سے ملنے کیلئے گیا تھا تودیکھا کہ وہاں پر تھانے کا ایس ایچ اوپہلے ہی موجود تھا ۔میں نے قاری سے پوچھا کہ آپ نے میرے بیٹے پر تشددکیوں کیا ہے تو اس نے لاپرواہی سے کہاکہ جب وہ سبق یاد نہیں کرے گا تو ایسے ہی سکھانا ہوگا، تمہیں مسئلہ ہے تو اپنے بچے کو نہ آنے دو۔ میں بعد میں ایس ایچ او سے بھی ملا’ اس نے مجھے کہا کہ آپ ان چکروں میں نہ پڑیں، یہ بظاہر کمزور سے نظر آنے والے بہت طاقتور ہیں اور اگر میں ان کے خلاف کاروائی کروں گا تو یہ سب آنکھیں اور دماغ بند کے اکٹھے ہو جائیں گے’ یہ سب غلط ہو کر بھی ٹھیک ہونگے ‘ان کی جانب سے اوپر تک دباؤ کے نتیجے میں کم از کم میری ٹرانسفر ہوگی اور اس کے بعد نا جانے کیا کچھ ہوگا۔ اب مجھے بتاو کہ میں کیا کرتا؟؟ یہ مسئلہ اس ایک گھر کا نہیں ہے ‘ بلکہ ہر اس گھرانے کا مسئلہ ہے جہاں پر بچے مدرسے میں جاتے ہیں۔ ان مدرسوں میں کیا کچھ ہوتا ہے وہ آ پ اور میں سب ہی جانتے ہیں۔

معاف کیجئے گا کہ لیکن یہی مدارس ہیں جنہوں نے اسلام کو فرقوں اور مسالک میں تقسیم کیا ہو اہے ۔یہی وہ جہالت کی فیکٹریاں ہیں جہاں پر قرآن اور حدیث جیسے مقد س علم کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کیا جاتاہے۔ یہی وہ مدارس ہیں کہ جن کے مالکان تو پوش علاقوں میں گھروں اور گاڑیوں کے بھی مالکان ہیں ‘بچوں کے نام پر امداد لیکر خود کھاتے ہیںاور ڈھونگ رچایا ہوا ہے کہ ان سا پارسا اس دنیا میں کوئی نہیں ہیں۔ذرا مضاربہ کیس کھلنے دیں اور دیکھیں کہ کیسے شرفاء بے نقاب ہونگے ‘ یہی وہ لوگ ہیںجو اسلامی دنیامیں اتفاق صرف اس لئے نہیں چاہتے ہیں کہ اگر ایسا ہوگیا تو ان کی اپنی دکانداریاں ختم ہو جائیں گی ، جب مذہب بکے گا نہیںتو ان کے پیٹ کیسے بھریں گے ۔ انہوں نے مدرسوں کے بچوں کو اپنا ایندھن بنایا ہوا ہے ۔ میرے پاس ابھی بھی ایسی رپورٹس موجود ہیں کہ جس میں لاہور کے معروف پوش علاقے میں ایک فرقے یا مسلک کے قائم مدرسے کے نام پر کروڑوں روپے کا فنڈ آیا ‘لیکن وہ مدرسے کی حالت نہ سدھار سکاالبتہ اس کے مالکان کی حالت کو سدھار گیا۔

Public Education System

Public Education System

اسکے علاوہ بھی ایسی کئی مثالیں آپ کو معاشرے میں نظر آ جائیں گی’ کچھ اور مدارس کی رپورٹیں بھی ہیں۔ جب دین کمرشل ہو جائے تو کس بات کی بعید۔ اب ان مدار س میں اندرون خانہ کیا ہوتا ہے ‘ اس پر کسی اور دن تفصیل سے لکھوں گا۔ زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے، لیکن انشااللہ ان لوگوں کو جنہوں نے اسلام کوایسی حرکتوں سے نقصان پہنچایا ہے’ میں بے نقاب کروں گا۔ وہ مدارس اور وہ علوم خانے تو نہ جانے کب کے ختم ہوگئے جہاں سے جابر بن حیان، الخوازمی اور ان جیسے کئی سائنس دان نکلے تھے کہ جب لندن گھٹنوں گھٹنوں کیچڑ میں دھنسا ہوتا تھا تو قرطبہ اور غرناطہ کی سڑکیں رات میں بھی روشن تھیں۔موجودہ سسٹم کے تحت اگر آپ سمجھتے ہیں کہ بچوں کو مدارس میں بھیج کر دین کی کوئی خدمت کی جا رہی ہے تو میری بات لکھ کر جیب میں ڈال لیں کہ نا صرف یہ بچے کے حال پر ظلم ہے بلکہ اس کا مستقبل بھی تباہ و برباد کرنے والی بات ہے اور اس سے معاشرے کی کوئی بھی خدمت نہیں ہو رہی ہے۔

ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی صاحب کا انٹرویو پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ایکسپر یس میں اپنے انٹرویو میں انہوںنے کہا تھا کہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی دینی مدارس کو ختم ہو جانا چاہئے تھا۔ یہ ایک بے کار نظام ہے ، دہشت گردی ایسے ختم نہیں ہوگی ، یہ وہ طبقہ ہے جس کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ آپ اسلام کے خلاف چلتے ہیں ۔ پھر ان میں ایک انتقامی جذبہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ اسکولوں کے بچوں کو پڑھ لکھ کر ڈاکٹر اور انجینئر بنتا ہوا دیکھتے ہیں اور یہ بیچارے مسجد کے امام کے علاوہ کچھ نہیں بن پاتے ہیں۔ ایسے لوگوںکی تعداد لاکھوں میں ہے ۔مدارس کے نظام کی ایک تاریخ ہے ‘ اسے سمجھنا چاہیے۔پاکستان بننے کے بعد ان مدارس کو ختم ہو جانا چاہئے تھا اور ان کو عام رسمی نظا م تعلیم کا حصہ بنا کر وہی سہولتیں دینی چاہئے تھی ۔آپ دیکھئے کہ ترکی نے اس نظام کر ختم کر دیا ہے۔

ترکی والوں کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے مدرسوں کو سرکاری تعلیمی نظام میں ضم کر دیا ۔جہاں ان کو مذہبی اور عصری ہر طرح کی تعلیم دی جاتی ہے ۔یہ مدارس دارصل انگریزوں کے خلاف جدوجہد میں بنائے گئے تھے ،اس جدوجہد کے رہنما مذہبی لوگ تھے اور مدارس ان کی پناہ گاہیں تھی تھیں، لیکن اب تو ان کی ضرورت ہی نہیں۔ نظام الملک والے نصاب کی تو آج کوئی حاجت ہی نہیںہے ۔ مدارس کو شروع ہی میں زور دینا چاہئے تھا کہ وہ سارے نظام تعلیم کو اسلامی بناتے ‘دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دیگر علوم کی تحصیل کی جانب بھی توجہ دینی چاہئے تھی۔ میری رائے یہ ہے کہ دینی مدارس کو عصری تقاضوں کے مطابق جدت کی جانب لایا جائے۔ان کو تمام سہولتیں اور پیشہ وارانہ تربیت دیں تاکہ یہ معاشرے کا مفید حصہ بن جائیں۔

کاش ہمارے ارباب اختیار ڈاکٹر صاحب کے الفاظ پر کان دھر لیں اور مدارس کی اصلاحات کریں تاکہ حال نہ سہی’ مستقبل تو محفوظ ہو جائے ۔ میں مغربی نظام تعلیم سے بھی خائف ہوں کہ یہ غلاموں کی نسل پیدا کر رہا ہے اور یہ ہمارے روایات ‘ تہذیب و تمد ن کا قاتل ہے ۔میری رائے میں پاکستان میں صرف ایک ہی نظام تعلیم درست طریقے سے چل سکتا ہے ۔یعنی ایسا نظام تعلیم جس میں دین و دنیا دونوں کی تعلیم دی جائے ۔ ایک ڈاکٹر بننے والا مسلمان اپنی بیٹی کا نکاح خود پڑھا سکتا ہو’ ایک انجینئر جمعہ کا خطبہ دے سکتا ہو’ ایک سائنس دان نماز جنازہ کی امامت کی استعداد بھی رکھے اورمعیشت دان اسلامی معیشت کے اسرار و رموز سے بھی آگاہ ہو۔ کچھ ادارے ان ہی ارادوں کے کے ساتھ میدان عمل میں نووارد ہیں ‘ اللہ ان کو کامیابی سے ہمکنار کریں۔

Salaar Sulaman

Salaar Sulaman

تحریر : سالار سلیمان