میں ملالہ نہیں ہوں

Malala Yousafzai

Malala Yousafzai

تحریر: میر افسرامان کالمسٹ
میں ملالہ نہیں ہوں نام ہے اس کتاب کا جس کی رونمائی نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں آل پاکستان پرائیویٹ اسکولز فیڈریشن (اے پی پی ایس ایف) نے کی ہے۔ ہم نے تو صرف خبر کے طور پر سنا ہے کتاب کا مطالعہ نہیں کیا۔ یہ کتاب نام نہاد نوبل انعام یافتہ ملالہ کے باطل خیالات کے خلاف لکھی گئی ہے۔

اس کتاب میں کہا گیا ہے میںم لالہ نہیں ہوں میں مسلمان ہوں میں پاکستانی ہوں۔کتاب کے مصنف مرزا کاشف علی ،صدر آل پاکستان پرایئویٹ اسکولز فیڈریشن نے کہا کہ کتاب لکھنے کا مقصد حقائق بیان کرنا ہے اسلام کے مخالف پروپیگنڈے کا جواب دینا ہے اسلام کے چہرے کو مسخ کرنے کی بونڈی کوشش کا توڑ کرنا ہے۔ ملالہ کی کتاب کو مخالف اسلام اور مخالف پاکستان ہونے کی وجہ سے پرائیویٹ اسکولز میں آنے سے بند کر دیا گیا ہے۔

اللہ کا شکر ہے کہ زندہ ضمیر لوگ اب بھی موجود ہیں جو امریکی غلام حکومت کو چیلنج کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔ملالہ کی کتاب میں اسلام کا مذاق اُڑایا گیا ہے۔ اسلام اور پاکستانی کلچر کا مذاق اڑایا گیا۔ یہ کتاب جو ضیا الدین یوسفزئی اورپاکستان دشمن این جی اوز کی مہیا کردہ مواد کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہے۔ کتاب لکھنے والی ایک صحافی کرسٹینا لیمپ عورت ہے۔ ١٩٨٩ء میں بلوچستان کے شہر پشین میں ایک بلوچ سردار جو پیپلز پارٹی کا وزیر بھی تھا اس عورت کو ہر پارٹی میں اپنے ساتھ رکھتا تھا ۔ اس نے بے نظیر کے پہلے دور حکومت میں بطور صحافی پاکستان میںکام کیا تھا ۔پیپلز پارٹی کے کئی وزرا کے ساتھ اس کے ذاتی مراسم تھے۔

Malala Yousafzai Book

Malala Yousafzai Book

دنیا میں یہ مشہور تھا کہ یہ عورت خبر نکالنے میں ماہر ہے اور کسی اخلاقی حد کو عبور کر کے بھی خبر نکال لیتی ہے۔ ایک انگریزی اخبار کے مطابق پیپلز پارٹی کے ایک مرکزی راہ نما کے پاس خاص خبر تھی۔ لیکن وہ شیئر کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ وہ خبر اس عورت نے حاصل کر لی صرف۔ ایک رات وزیر کے ساتھ رہنے اور صبح چائے پی کر واپس آگئی۔ سرداروں اورخانوں کے ساتھ کاک ٹیل پارٹیوں میں شریک ہوتی رہی ہے۔ کئی وزارء اس کی زلف کے اسیر رہے ۔اسی آڑ میں اوبی لادن(اسامہ بن لادن) کے نام سے پی آئی اے میں سفر کی کوشش کرتے ہوئے پکڑی گئی تھی۔ تاکہ پاکستان کو دنیا میں بدنام کیا جائے کہ اُسامہ بن لادن تو پاکستان میں ہوائی بھی سفر کرتا رہا ہے۔ کرسٹینا لیمب کو کئی بار ناپسندیدہ سر گرمیوں میں ملوث ہونے کے سبب مختلف ادوار میں پاکستان بدر کیا گیا اب بھی اس کا نام ناپسندیدہ شخصیات میں شامل ہے اس لیے وہ پاکستان کے خلاف ہے اور اس کتاب میں زہر اُگلا ہے اس کا لندن میں قادیانیوں کے ایم ٹی اےmta ٹی وی چینل کے دفتر میں آناجانا رہتا ہے اس ٹی وی کی نشریات ایشیائی سیٹ٣۔ایسٹset3.east کے ذریعے براہ راست ملا کنڈڈیویژن میں دکھائی جاتی ہیں تاکہ ملالہ کو مشہور کیا جائے۔

لندن میں کتاب لکھوانے سے پہلے قادیانی جماعت کے خلیفہ مرزا مسرو ر سے ضیاالدین یوسف زئی کی ملاقات میں کیا طے ہوا وہ اس کتاب میں صاف نظر آتا ہے۔ اس کتاب کو ایک سازش کے تحت کچھ امریکی فنڈڈ پاکستانی میڈیا اور کچھ اسلام بیزار روشن خیال اور لبرل صحافی حضرات نے خوب مشہور کیا۔ ہمارے ایک لبرل صحافی جو ماما قدیر کا انٹرویو تو نجی ٹی وی میں نشر کرتے ہے نام نہادگم شدہ پاکستانیوں کی وکالت بھی کرتے ہیں ان کو بلوچستان میں ریل کی پٹریاں اُکھاڑ کر بے گناہ لوگوں کو شہید کرنا نظر نہیں آتا۔وہ برمگھم جا کر ملالہ کا انٹر ویو بھی کرتے ہیں اور ایک ڈمی جو کہ مغرب نے اسلام کے خلاف کھڑی کی ہے کو خوب پزیرائی دیتے ہیں۔

Nobel Peace Prize winner Malala Yousafzai

Nobel Peace Prize winner Malala Yousafzai

مغرب نے انعامات کی بارش کر کے ملالہ کو سکندر اعظم سے بھی بڑا کر کے دکھا یا ہے۔ سوات کے مقامی لوگوں سے پوچھیں تو معلوم ہو گا کہ ملالہ نے عورتوں کے لیے تعلیم کی مد میںکچھ بھی تو نہیں کیا۔ ہاں ملالہ کا والد مغرب کا ایجنٹ ضرور تھا۔مغرب نے اسلام دشمن تسلیمہ پروین اور سلمان راشدی کی لسٹ میں ایک اور اضافہ کر دیا ہے۔ملالہ مغرب کی پسندیدہ شخصیت ہے مغرب اسے اسلام کے خلاف ا ستعمال کر رہا ہے۔ ملالہ بھارت کے مسلم دشمن وزیر اعظم اور شیو سینا کی پسندیدہ ہے۔ ملالہ کی طرح اس سے قبل عورتوں کے ساتھ پاکستان میںظلم کے حوالے سے امریکا نے مختیاراں مائی کو بھی خوب استعمال کیا ڈکٹیٹرمشرف نے اس کو امریکا جانے کی اجازت دی اور اس نے امریکا کے شہروں شہر اسلام اور پاکستان کو خوب بدنام کیا ۔ مظفر گڑھ کا ممبر قومی اسمبلی مختیاراں مائی کے اجتماہی آبریزی کے کیس کو جھوٹا کہہ چکا ہے۔ امریکا ایک ایسی کوشش سوات میں ایک لڑکی کو کوڑوں کی سزا کے حوالے سے بھی کر چکا ہے۔

ویڈیو میں دکھایا تھا کہ ایک باپردہ خاتون کو ایک شخص کوڑے مار رہا ہے اور وہ چلا رہی ہے پھر اتنے سخت کوڑے کھانے کے بعد ایک دم سے اُٹھ کھڑی ہوئی جیسے اس کو کوئی تکلیف ہی نہیں ہوئی ۔ اس واقعہ کو پاکستانی میڈیا بغیر تحقیق کے خوب اُچھالا تھا۔پھر یہ کیس عدالت میں گیا جہاں عدالت نے اسے جھوٹا قرار دیا اللہ کا کرنا کہ اس کیس کو بنانے والے نے خود اقرار کیا کہ پانچ لاکھ کے عوض یہ جھوٹا عمل میں نے کیا۔ صاحبو!یہ ساری کہانیاں مغرب اپنے عورتوں کے اسلام قبول کرنے کو روکنے کے لیے کر رہا ہے۔مغرب کی عورت کو دُکھیا،مظلوم ، مجبور اور شمع محفل بنا دیا ہے۔اس کو مغرب نے پیسے کمانے والی مشین بنا دیا ہے مغرب کا کوئی بھی پروڈکٹ اس وقت تک نہیں فروخت ہو سکتا جب تک ایک نیم عریں عورت کو اس پروڈکٹ کے ساتھ نہ دکھایا جائے۔

کتنا ظلم ہے کہ عورت کارخانوں میں کام کرے، مزدوری کے بعد رات کوڈائس پارٹیوں میں بھی شامل ہو۔عورت جب سولہ کی ہوتی ہے تو ماں باپ اِسے کہتے ہیں جائو جاب تلاش کرو اور اپنے خرچ کے لیے پیسے کمائے وغیرہ وغیرہ۔ جب کہ اب بھی مسلمان گھرانوں میں عورت کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ وہ ماں،بیٹی،بہن اور بیوی کے روپ میں خوش رہتی ہے۔اسلام میں اُس پرمعاش کمانے کی ذ مہ داری نہیں ہوتی۔معاش کی ذمہ د اری مرد پر ہے۔ اسلام کی اس خوشگوار چیز کو دیکھ کر مغرب کی عورت اسلام قبول کر رہی ہے جس میں سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر کی سالی اور مشہور برطانوی صحافی مریم ریڈلے شامل ہے۔ جو مغرب کو ناگوار گزر رہا ہے۔اس لیے مغرب اسلام کے خلاف پروپگنڈہ کرتا ہے کہ اسلام میں عورتوں کو آزادی نہیں اسے گھر میں بیٹھا کر رکھا جاتا اس پر تشدد کیا جاتا ہے۔

ضرورت تو یہ تھی کہ مغرب اپنی عورت کے ساتھ روا رکھا گیا ظلم بند کرے عورت کو ماں،بیٹی، بہن اور بیوی کو وہ سہولت مہیا کرے جو اسلام میں ہیں۔ مگر مغرب نے جھوٹا پروپیگنڈہ شروع کیا ہوا ہے۔ اپنے جھوٹے پروپگنڈے کو ثابت کرنے کے لیے، بیرونی فنڈ سے مغرب کی ہزاروں این جی اوز پاکستان میں کام کر رہی ہیںپھر اس جھوٹے پروپگنڈے کو مزیدثابت کرنے کے لیے ملالہ جیسے مصنوعی واقعات کا ڈرامہ بھی رچا کر اس کا سہارا لیتا ہے لیکن دنیا اور خاص کر مغرب کی پڑھی لکھی عورتیں اتنی بے وقوف نہیں جتنا مغرب سمجھ رہا ہے اس کا الٹا اثر پڑھ رہا اور مغرب کی عورتیں تیزی سے اسلام قبول کر کے رحمت والے دین اسلام میں شامل ہورہی ہیں جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے۔

Women in Islam

Women in Islam

صاحبو! دکھ تو اس پر ہوتا ہے پاکستان کے بگڑے ہوئے کالے انگریز، اسلام بیزار ،مغرب پرست،روشن خیال،لبرل طبقہ ،مغرب فنڈد میڈیااور سب سے بڑھ کر امریکی پٹھو حکمران مغرب کے جھوٹے پروپگنڈے میں شامل ہوجاتے ہیں ۔اپنے اسلامی معاشرے کو برا ثابت کرنے میں مغربی ایجنٹوں کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔ تعلیمی نصاب سے قرآن کی جہاد سے متعلق آیات نکالتے ہیں صحابہ اکرام کے نام نکال کر آج کل کے نام نہاد سوشل ورکرز کا نام ڈالتے ہیں۔ علامہ اقبال کے اشعار کو نکال کر مغرب کی نکالی کرتے ہیں ملک کی مادری زبان اردو کے بجائے انگریزی کو ذریعہ تعلیم بناتے ہیں۔برطانوی امداد کے تحت پہلی جماعت کے طالبعلموں کے لیے انگریزی لازمی قرار دیتے ہیں۔

یہ تو بھلا ہو پاکستان کے سابق چیف جسٹس صاحب کاکہ وہ ٧٣ کے آئین کی دفعہ کے تحت اردو کو قومی اداروں میں لازم کر گئے ہیں خود بھی اردو میں تقریر کی اور حکمرانوں کو بھی اس امر کا پابند کیا کہ پاکستان کے ہر ادارے میں اردو کو استعمال کیا جائے۔ موجودہ چیف جسٹس صاحب نے بھی سینیٹ کے اجلاس میںاردو میں خطاب کیا۔ صدر پاکستان جناب ممنوں حسین صاحب نے بھی ایک وزیر سے اردو میں حلف لیا یہ اچھی روایت قائم کی گئی ہے۔اسلام کے دشمنوں نے مسلم امت پر ہر طرح سے حملہ شروع کیا ہوا ہے ہمیں مولی گاجر کی طرح کاٹ رہے ہیں دنیا میں ہر طرف مسلمان کا خون بہہ رہا ہے اس میں امریکا پٹھوحکمران برابر کے شریک ہیں۔ پیرس میںجعلی دہشت گردی کر کے مغرب میںمساجد پر حملے کئے جا رہے ہیں۔

اس لیے مسلمانوں اور خاص کر پاکستانی عوام کو ہوشیار رہنا چاہیے اور مغرب کے ملالہ جیسے پروپگنڈے میں نہ آنا چاہیے بلکہ اس کا مناسب توڑ کرنا چاہیے جیسے آل پاکستا ن پرائیویٹ اسکولزفیڈریشن(اے پی پی ایس ایف) کے صدر جناب مرزا کاشف علی صاحب نے” میں ملالہ نہیں ہوں” لکھ کر کیا ہے۔ ہم نے بھی ملالہ کو جھوٹا اور مغرب کا ایجنٹ ثابت کرنے کے چھ اقساط تحریر کی تھیں جو پاکستانی اخبارات میں شائع ہوئی تھیں۔

میں تمام پاکستانیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس کتاب کا مطالعہ کریں اس کتاب کو وسیع پیمانے پر پاکستان میں پھیلائیں ۔ ہمارا دین اسلام امن و سلامتی کا دین ہے اس میں خواتین اور اقلیتوں کے حقوق ہیں اس لیے ہمیں کسی بھی کمتری میں مبتلا ہوئے بغیر اسلام پر ڈٹ جانا چاہیے اس میں دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے اللہ مسلمانوں کی حفاظت فرمائے آمین۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر: میر افسرامان کالمسٹ
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان اسلام آباد سی سی ہی