ملائیشیا میں مالشیے

Kuala Lumpur

Kuala Lumpur

تحریر: احمد سعید
آج کو الا لمپور میں پانچواں دن تھا ساتواں بھی ہوتا تو کوالالمپور میں ہی ہوتے کیونکہ آٹھ دن کیلئے کوالالمپور آئے تھے۔ تھائی لینڈ اور سنگا پور کے بعد میرا خیال ہے ہم تھک گئے تھے یا شاید ہم نہیں صرف میں ہی تھکا تھا بیگم کے ساتھ سارا سارا دن گزارنے کے بعد ۔ اس لیے ملائیشیا کی زیادہ جگہیں نہ گھوم سکا جیسا کہ ملاکا، لنکاوی وغیرہ۔ لنکاوی کی ویسے بھی انٹرنیٹ پہ تصویریں دیکھ کے خود سے کہا کہ سمندر ہی ہے اور سنتوسا میں کیا تھوڑی لڑکیاں دیکھ ہو گئی ہیں (نہ چاہتے ہوئے بھی) کوالالمپور میں بوجھے بوجھے ہم اس لیے بھی تھے کہ صنف نازک سے جتنی نازک گفتگو میری بنکاک اور سنگاپور میں رہی یہاں تو اس کا ایک چوتھائی بھی نہ رہا۔

کوالالمپور میں ہم سوس گارڈن ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ یہ چائنا ٹاؤن میں ہے یہاں سے ”بکت بنتاک ”پانچ منٹ کی پیدل ڈرائیو پہ ہے۔ سنگاپور سے کوالالمپورہم بس پر آئے۔” بیچ روڈ گولڈن مائلز” سے بس نے روانہ ہونا تھا۔ کوئی ڈھیڑھ گھنٹہ پہلے پہنچ کر ہمیں یوں محسوس ہوا کہ ابھی سنگاپور کی بڑی تعداد پھول کی پتیاں ہم پر پھینکے گے اور ہمیں ہار پہنائیں گے کہ آپ اس قدر وقت کی قدر کرتے ہیں۔ پھر خیال آیا کہیں آکر یہ نہ کہہ دیں کہ آپ (پاکستانی) یا تو وقت سے بہت پہلے آجاتے ہیں یا وقت سے بہت بعد، خیر ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔

Bus

Bus

”بس” نے را ت ساڑے ساتھ بجے روانہ ہونا تھا۔ تین منٹ پہلے بس پہنچ چکی تھی اور چار منٹ بعد چل بھی چکی تھی۔ بس ابھی آدھی بھی نہ بھری، میں یہی سوچتا رہا کہ راستے سے سواریاں اٹھانی ہوں گی پر ایسا کچھ نہ ہوا۔ پھر میں نے ایسا ویسا سوچنا کچھ کم کیا کہ میری سوچیں نہ کہیں ڈرائیور صاحب کے پاس ارسال ہو جائیں اور وہ راستے سے سواریاں اٹھانے کی بجائے مجھے ہی بس سے نہ اٹھا دیں۔ سنگاپور سے ملائیشیا بس کے ذریعے آپ کی بس نہیں ہو جاتی کیونکہ بس کے ذریعے چیک ان اور چیک آؤٹ ہونا بہت آسان ہے۔ ائیر پورٹ کی طرح آپ مارے مارے نہیں پھرتے۔

ہم چیک ان ہونے کے کوئی پندرہ بیس منٹ بعد چیک آؤٹ بھی ہوگئے تھے۔ اور پھر کوالالمپور تک کسی نے کچھ نہ پوچھا اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی ہمیں منہ نہیں لگانا چاہتا تھا۔ ہاں البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی ہم سے بات نہ کرنا چاہتا ہو۔ کیونکہ میں نے یہ حالات چائنا ٹاؤن میں دیکھے کہ پاکستان، انڈین اور بنگلا دیش کے لوگوں سے چائنیز جان چھڑاتے ہیں کیونکہ ہم لوگ ہر چیز کی قیمت پوچھنے کے عاد ی ہیں اور وہ ہم سے عاری ہیں۔ ہم نے تو جو چیز نہیں خریدنی ہوتی سب سے پہلے اس کی قیمت پوچھتے ہیں۔

Malaysia

Malaysia

ملائیشیا کے چائنا ٹاؤن میں چائنیز، کورین تھائی سارے کے سارے پٹھان ہیں۔ چیز بتاتے سوکی ہیں اور دیتے دو کی۔اس لیے آپ کو ایک مفت نسخہ بتائے دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر اپ نے وہاں سے جوتے کھانے ہیں یعنی خریدنے ہیں اور وہ آپ کو سو رنگت قیمت بتاتے ہیں۔ تو آپ تین پہ تقسیم کر کے حتمی ریٹ لگا دیں۔ اگر چالیس بتائیں تو دو پہ تقسیم کریں۔ اس طرح باقی چیزوں کو اُن کی قیمت کے حساب سے تقسیم کریں۔ یہ آزمودہ نسخہ ہے آرام نہ آئے تو مجھے شکوے کا فون کر سکتے ہیں۔

پیسے جتنے کم لگا دیں گے اتنے ہی آپ کے بچنے کے مواقع بڑھ جائیں گے۔ ایک بار آپ نے ان کی قیمت خرید سے بھی کم پیسے لگا دئیے تو فوراً آپ کو وہ قیمت بتا دیں گے۔ جس سے نیچے شاید وہ اپنے باپ کو بھی نہ دیں۔ اس لیے بار بار کہنا ان کو بے کار ہے۔ میرا بھی بار بار سمجھانا آپ کو بے کار ہے کیونکہ کرنی تو آپ نے اپنی ہی ہے۔ یہ اصلی جری بوٹیوں سے تیار شدہ نسخہ (Jinsing) صرف چائنا ٹاؤن میں ہی کار آمد رہے گا۔ ہر جگہ نہ چلاتے پھرئیے گا۔ بعد میں مجھے ملامت کرتے پھریں۔

اگر آپ چاہتے ہوں کہ مجھے (مجھ سے مراد آپ ہیں) مچھلیوں کی ایسی بدبودار خشبو آئے کہ سانس لینا دشوار ہو جائے تو جس دن کوالالمپور میں بارش ہو اس کے فوراً بعد چائنا ٹاؤن کا رخ کریں۔ طبیعت ہشاش بشاش ہو جائے گی۔ کالج میں ہاسٹل کا زمانہ یاد آجائے گا جب آپ دو دو ماہ کپڑے نہیں دھوتے تھے او ر ان سے بھینی بھینی خشبو ئیں آہستہ آہستہ پورے ہاسٹل میں پھیل جاتی تھیں۔ ملائیشیاء سے پاکستان واپسی پر جہاز نے” تھائی لینڈ” چار گھنٹے رکنا تھا اگر چار دن رکنا ہوتا تو ایک بار پھر بارونق بازار اور بارونق چہروں کے دیدادر ہو جاتے۔ خیر
”وہ نہ ہمارے قسمت کہ وصالِ یار ہوتا”

واپسی کا سفر شروع تھا اور یاد آیا کہ پھر وہی اڑتی دھول ٹوٹی سڑکیں شور شرابا رشتہ داروں کی چغلیاں (Gossip)، کس کے گھر جانا ہے کس کے نہیں۔ کس نے شادی پہ بلایا کس نے نہیں اور کیوں نہیں؟ پر اپنے لوگ جیسے بھی ہوں ہوتے اپنے ہی ہیں جیسے کبھی کبھار انسان اپنوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور اپنوں کے ساتھ بھی نہیں۔انہی باتوں میں گم تھا کہ اچانک سامنے بیٹھی ہوئی دو دو شیزاؤں پر نظر پڑ گئی۔ اب پڑ گئی تو سو پڑ گئی۔ وہ اپنے اپنے لیب ٹاپ پہ اتنی محو تھیں کہ مجھے گماں ہوا جیسے ان کے آن لائن پیپر چل رہے ہیں۔

Mass Communication

Mass Communication

میں تو کبھی بورڈ کے امتحانات میں بھی اتنا محو نہ ہوا۔ گردن اِدھر ُادھر گھومتی ہی رہتی ۔ کبھی کوئی نظم کی آمد تو کبھی غزل کی۔ مجھے یاد ہے ”ماس کمیونیکیشن” کا پہلا سمسٹر تھا۔ پانچ سوالوں میں چار مجھے آتے تھے دو کے بعد اچانک ایک نظم کی آمد ہوئی اور میں نے بلا تاخیر Question Paper کے پیچھے وہ نظم لکھنا شروع کر دی۔ آمد بڑھتی گئی ہم آمد سے آگے برآمد تک پہنچ گئے کہ ہمارے استادِ محترم کو شک گزرا کہ میں اردو میں Queston Paper پہ پیپر حل کر رہا ہوں اور میں بھی بلا خوف و خطر لکھ رہا تھا۔ ویسے بھی نقل مارنے پر پابندی ہوتی ہے۔ نظم یا غزل پہ آج تک نہ سنا نہ دیکھا ،سر نے سمجھا بوٹی لگا رہا ہے۔حالانکہ ہمارے پورے خاندان کی پچھلی پشتوں نے کبھی بوٹی نہیں لگائی۔ البتہ میرے بڑے بھائی اور والدہ محترمہ کو بوٹے لگانے کا بہت شوق ہے۔

سر نظم کا سن کر بہت حیران ہوئے۔ میں سمجھا، اس لیے حیران ہوئے ہیں کہ احمد سعید نظمیں بھی لکھتا ہے ؟پر جب میرے نمبر آئے تب ان کے حیران ہونے کا اصل سبب معلوم ہوا۔ وہ دونوں لڑکیوں میں سے اب ایک نہیںتھی ، اس نے یقیناً اپنا پرچہ ختم کر لیا تھا۔ دوسری اسی انہماک سے جاری و ساری تھی ۔ دونوں لڑکیوں میں ایک گوری اور جانے والی سانولی تھی، گوری آسٹریلیا کی یا برازیل کی دکھائی دیتی ۔ لیکن برازیل کی اسے میں تب تک نہیں کہہ سکتا تھا جب تک اسے جاتے ہوئے پیچھے سے نہ دیکھ لیتا۔ سنا ہے برازیلی لڑکیوں کو آپ جاتے ہوئے دیکھیں تو فوراً پہچان جاتے ہیں۔ سانولی لڑکی یا تو پاکستانی تھی یا انڈین۔ ان دونوں کے علاوہ نہیں ہوسکتی۔ پاکستان کی طرف ووٹ زیادہ ہیں (ووٹ ڈالنے والا میں ہی ہوں)۔ دونوں غضب کی خوبصورت تھیں۔ کافی دیر تاکنے جھاکنے کے بعد میں اِس نتیجے پر پہنچا کہ جیت پاکستانی کی ہی ہوئی ہے۔ اصل میں میرا تاکنے کا اصل مقصد ہی یہ تھا کہ گوری اور سانولی رنگت کو Define کرسکوں۔ ورنہ میرے سامنے دو لڑکے جن میں ایک گورا اور ایک کالا ہوتا تو میں ان کو تاکتا رہتا۔ (یہ بیان بیگم کے ڈر سے دیا گیا) جو لمبی تان کے سور رہی تھیں۔

چار گھنٹے کے بعد جہاز لاہور کی جانب رواں ہونا تھا۔ بس لکھنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ کیونکہ پندرہ دن تھائلینڈ ، سنگاپور اور ملائیشیا رہنے کے بعد جیب کافی ہلکی دکھائی دے رہی تھیں۔ ائیر پورٹ پر چیزیں بھی کافی مہنگی تھیں لیکن یہ شکر کہ بیگم سوئی ہوئیں تھیں ورنہ چیزیں کتنی بھی مہنگی ہوں اور جیب کتنی بھی ہلکی اس نے تو اپنا کام دکھا دینا تھا۔ جیسا کہ ہمارے ساتھ” بُکت بِنتانک ” میں ہوا۔ شاپنگ کیلئے کوالالمپور میں سب سے بڑی جگہ ہے۔ اور پھر ہمارا ہوٹل بھی بالکل اس کے پاس، آنکھ کھلی تو شوپنگ سنٹر میں۔ شاپنگ سنٹر تو رات دس بجے بند ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ البتہ مالشیے (مساج والے) اور مالشنیں (مساج والیاں) رات گئے تک مساج سنٹر کھلے رکھتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ ”دل کی گلیاں بڑی ویران ہیں آئے کوئی ” باربھی رات گئے تک کھلے رہتے ہیں۔ بار میں لوگ بار بار آجا رہے تھے مگر میں ایک بار بھی نہ جاسکا، پینے پلانے کا عادی جو نہ تھا۔ ”ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھے” بس یہ ساریں یادیں سمیٹ کر واپس پاکستان پہنچ گئے۔

تحریر: احمد سعید