میرا مان نہ توڑنا (ایدھی)

Edhi

Edhi

تحریر: شاہ بانو میر
عمر بھر محنت تگ و دو بھیک مانگنی پڑی تو بھیک مانگی شرم محسوس نہیں کی اور میرے ملک کے لوگوں نے بھی جی بھر کے مجھے ہمیشہ دیا”” ایدھی “” جناب ایدھی صاحب کو آمنے سامنے دیکھنے کا اعزاز مجھے اللہ پاک نے دیا جب وہ 2009 میں فرانس کے شہر پیرس میں مختصر دورہ پر بیٹیوں کے ساتھ تشریف لائے ـ انہیں یونیسکو کی جانب سے ایوارڈ دیا گیا تھا جس میں سفارتخانہ پاکستان کا اہم کردار تھا ـ ہم سب ہال میں دم سادھے ان کی سادہ سی شخصیت کو دیکھ کر پھر ہال اور ہال میں موجود بین القوامی اداروں کے کے لوگ صحافی کیمرہ مین کو دیکھ کر سوچ رہے تھے “”اللہ جسے چاہے عزت دے “” اس عظیم الشان آڈیٹوریم میں انسانی خدمات کیلئے انہیں چنا گیا اور مدن جیت ایوارڈ 50 ہزار ڈالر دیا گیاـ

جب یہ آئے تو بتایا کہ پہلی بار وہ کسی بیرونی ادارے سے چیک لے رہے ہیں ورنہ وہ پاکستانیوں پر ہی انحصار کرتے ہیں ـ وہ ہال جس میں ہمیشہ بین القوامی بڑی شخصیات کو بلایا جاتا تھا ـ پُرشکوہ ہال اور بین القوامی میڈیا جس کو صرف سکرین پر ہمیشہ دیکھا وہ سب ان کیلئے چوکس تھے لمحہ لمحہ ان کو کیمروں میں مقید کرنے کیلئے ـ ہال میں ان کی سماجی انسانی خدمات پر مبنی ڈاکو مینٹری دکھائی گئی ـ سناٹا خاموشی ہر نفس ساکت سکرین پے دہشت گرد کی رٹ لگانے والے دیکھ رہے تھے کہ اسی ملک کا یہ عظیم سپوت ہال میں موجود بڑے نامی گرامی اداروں کے بڑے ناموں کو اپنے کاموں سے بتا رہا تھا کہ اُس کا ملک اور اس کے شہری تو خود دہشت گردی کا شکار ہیں ـ بم دھماکوں کے بعد بکھرے ہوئے انسانی اعضاء کو بغیر کراہت کے ہچکچاہٹ کے ایدھی صاحب سر جھکائے چن چن کر اکٹھا کر رہے ہیں ـ لاشوں کو ایمبولینس میں ڈال رہے ہیں ـ

پھر سین کٹ ہو کر نیا منظر سامنے آتا ہے ـ جھولے میں بے نام و نشان بچوں کواٹھا کر پیار کر رہے ہیں ـ منظر تبدیل ہوتا ہے مریض جاں بلب ہیں اور انہیں دوائی پلا رہے ہیں ـ بچوں کے سکول کا معائنہ کر رہے ہیں ـ انہیں سیر و تفریح کروا رہے ہیں ـ ذہنی مریضوں کو تسلی و تشفی دیتے ہوئے دکھا رہے ہیں ـ وہی کھانا جو مراکز میں سب کھا رہے ہیں وہی کھانا یہ بھی کھا رہے ہیں ـ تشدد کی جانے والی خواتین کو انسانی خدمت میں خود کو وقف کر کے پریشانی سے نجات کا مشورہ دے رہے ہیں ـ ایک منظر سب کو حیران کر گیا جب وہ بھیک مانگ کر کسی بڑے خرچے کیلئے رقم لوگوں سے براہ راست حاصل کر رہے تھے ـ

UNESCO's Hall

UNESCO’s Hall

یونیسکو کا یہ عظیم الشان ہال بالکل ایفل ٹاور کے عقب میں واقع ہے جو جدید فن تعمیر کی اپنی مثال آپ ہے یہ ہال گھپ اندھیرے میں جگنو جیسے انسان کے روشن کاموں کی تفصیل دکھانے کے بعد روشنیوں سے دمک اٹھا اور ساتھ ہی ساتھ اپنی سیٹوں پر کھڑے ہو کر تمام ناظرین نے ان کی خدمات پر دل کھول کر تالیاں بجا کر اس عظیم انسان کو بتایا کہ ہم آپ کی خدمات کے تناظر میں جان گئے کہ پاکستانی عظیم انسانی خدمات بھی سر انجام دیتے ہیں ـ اس ادارے کے توسط سے ایسی تعظیم ایسی بلند ہستی پاکستان کو ان کے کام کے صلہ میں عطا فرمائی جس کی مثال نہیں ملتی ـ آج وہ ہم میں نہیں ہیں وہ اس دنیا سے جا چکے ہم سب بہت دلگیر بھی ہوئے اور بہت انہیں دعاؤں سے نوازا انکی بہترین آخرت اور ان کے کام سے ان کی مغفرت اللہ پاک سے طلب بھی کی اور پھر ہم سب حسب معمول مصروف ایسے ہوئے کہ ہم سب بھول گئے کہ دنیا سے ایدھی صاحب رخصت ہوئے ان کے اداروں میں زندگی کی حرارت پانے والے انسان نہیں وہ انسان جو ہم سب کے رحم و کرم پر تھے آج وہ کس خوف میں مبتلا ہیں ـٌ

اہم واقعہ بالکل اس چیونٹی کی طرح کہ جس کو حضرت سلیمان نے پوچھا کہ سالانہ کیا کھاتی ہو ؟ چیونٹی نے جواب دیا 2 چاول کے دانے حضرت سلیمان نے 2 چاول کے دانے”” بِل”” میں رکھ کے”” بِل”” بند کر دیا ـ 1 سال بعد پتھر ہٹا یا دیکھا کہ”” بِل “”میں ایک دانہ چاول ابھی بھی موجود ہے ـ حیرت زدہ ہو کر چیونٹی سے سوال کیا تم نے تو کہا تھا کہ تم 2 دانے کھاتی ہو پھر 1 دانہ بچ کیوں گیا؟ پہلے رزق میرا اللہ دیتا تھا اس لئے بے پروائی سے کھا کر ختم کر دیتی تھی ـ جانتی تھی کہ وہ مجھے میرا مقرر رزق ضرور دے گاـ

 Abdul Sattar Edhi

Abdul Sattar Edhi

لیکن پچھلی بار ذمہ ایک انسان(حضرت سلیمان ) نے لیا میں نے سوچا اس کی مرضی ہو تو آئے اور مرضی ہو تو نہ آئے اس لئے احتیاط سے استعمال کیا ـ سوچئے سوچئے سوچئے یہی ہم نے بھی تو نہیں کیا؟ ایدھی صاحب کی زندگی میں جن جن اداروں کی یا افراد کی یا علاج معالجے کی یا غذا کی یا لباس کی ذمہ داری لی ہوئی تھی اور ان کی وفات کے بعد اس سے پہلو تہی اختیار کی آج پھر سے ویسے ہی انجام دینا شروع کریں جیسا ایدھی صاحب کی زندگی میں دیتے تھے ـ آج ہی ان دروازے کی طرف دیکھتی ہوئی مایوس سوالیہ نگاہوں کو اپنے ذمہ دار ہونے کا ثبوت دے کر امید واپس کریں اور اپنی بُھلائی ہوئی ذمہ داریاں سر انجام دینا شروع کریںـ کسی ایک انسانی جان کو بچا کر آپ پوری انسانیت کو بچاتے ہیںـ

آئیے پر امید پاکستان کے پُرامید شہریوں کو اپنی ذات سے نئی زندگی کی توانائیاں پھر سے لوٹا دیں ـ
فرشتوں سے بہتر ہے انساں ہونا مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ خوراک کیلئے لباس کیلئے دوائیوں کیلئے تعلیم کیلئے ننھے بچوں کی غذا کیلئے سردی کیلئے لحاف الغرض ایک انسان کو جو جو ضروریات لازمی چاہیے وہ انہیں مہیا کرنے کا جیسا ذمہ پہلے لیا تھا وہ ادارے وہ لوگ ایدھی صاحب کی تڑپتی روح کے سامنے جوابدہ ہیں ـ یہ ادارے کسی انسان کی عمر بھر کے ثمر ہیں ان کی نشانی ہیں ان کی تاریخ ہیں انہیں مٹنے نہ دیں ان کے جانے سے انسانیت کو رخصت نہ کریں ـ جزبوں کو بیدار کریں سوچ کو زندہ کریں اپنی پُرتعیش زندگی کے اخراجات میں کچھ کٹوتی کر کے براہ کرم ان نمدیدہ نگاہوں میں ختم ہوتی امید کو پھر سے زندہ کریں ـ

پاکستان آپ سب پر ایدھی صاحب کو کیسا مان تھا اسکی “” میں “” چشم دید گواہ ہوں خود ان کے منہ سے الفاظ سنے یہاں پیرس 2009 نومبر میں جب وہ تشریف لائے ـ وہ جس مان سے آپکو پُکارتے تھے آئے آج کان لگا کر فضا میں موجود ان کی پُکار کو سنیں جاگیں اور جگائیں انسانیت کی اس ٹمٹماتی شمع کی لو کو پھر سے اپنے تعاون سے روشن اور تیز کر دیں ـ فضا میں کہیں سے صدا آ رہی ہے کہ سنو پاکستان میں گیا ہوں میرے اداروں میں موجود لوگ زندہ ہیں اور قیامت تک آپ سب کی مدد کے منتظر رہیں گے ـ آپ سب میرا فخر ہو میرا مان ہو
سنو میرا مان نہ توڑناـ

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر: شاہ بانو میر