انسان کو نوید دو کہ انسان مر گیا

Humanity

Humanity

تحریر: ماورا طلحہ
الفاظ تلخ ہے مگر حقیقت سے جدا نہیں ہے یہ وہ حقیقت ہے جس کا اطلاق پوری دنیا پہ ہوتا ہے۔ دنیا کے ہر ملک میں انسانیت آخری سانسیں لے رہی ہے اور انسانیت کو مار کر سر عام تماشا بنا دیا گیا ہے۔جس طرح خطرناک قیدی کو سر عام پھانسی دی جاتی ہے اسی طرح انسانیت کو سرعام لٹکا دیا گیا ہے۔ آجکل انسانیت بھی اس انارکلی جیسی ہے جسے ظالم بادشاہ نے دیوار میں چنوا دیا ہے۔ انسانیت محبت کی ان دیو مالائی کہانیوں کی طرح ہے جو کبھی کامیاب نہیں ہوء اور تاریخ کا اک باب بن گئ۔مجھے یہ کہنے میں بلکل عار محسوس نہیں ہو رہا کہ” انسانیت بھی ایک دفعہ کا ذکر بن چکی ہے۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے والی کہانیاں سبق آموز ہوتی ہے مگر انسانیت کی کہانی صدیوں سے دلدوز ہے اور آج تک ہے اور شائد تا ابد رہے گی کیونکہ جب ہوس پرست ،دولت کے پجاری اور بیمار ذہنیت کے لوگ مطلق العنان بن جاتے ہیں تو عقل و خرد سے بے بہرہ ہو جاتے ہیں۔ہوش وحواس شائد گروی رکھ کر آتے ہیں۔آج اپنے ارد گرد دیکھیے حق مانگنا جرم بن چکا ہے۔آواز اٹھانے کی پاداش میں پھولوں سی جوانیاں قبر کے اندھیرے کے سپرد کی جا رہی ہے۔حق لینا ایسا جرم بن گیا ہے جس کی سزا موت کے سوا کچھ نہیں ہے۔بہنوں بیٹیوں کی عزتیں سرعام نیلام کی جاتی ہے۔شیرخوار بچے گائے بکریوں کی طرح کاٹے جا رہے ہیں ظلم کی وہ داستانیں رقم کر رہے ہیں جن پر تاریخ بھی شرم سار ہو گء اور شائد تاریخ لکھنے والے بھی یہ تلخ حقیقت بیان کر سکے۔

Life

Life

“جس تن لاگے وہ تن جانے ” آپ لوگ لمبی لمبی باتیں کر کے اپنے فرائض سے منہ نہیں موڑ سکتے۔کبھی محسوس کرے خود کو ایسے جہاں میں جہاں موت کا رقص طاری ہو، جہاں زلتوں کا جام بے دام بکتا ہو، جہاں کھیلنے کے لیے عزتیں دی جاتی ہیں ،جہاں دیدہ بنا جرم اول ہے، جہاں پناہ گاہیں شکار کا میدان بن چکی ہیں، جہاں کی سرسبز ہریالی خون سے تر چکی ہے، جہاں کے پہاڑ ماتم زدہ ہیں، جہاں کا فلک بھی سرخ ہے اور جہاں کی زمین بھی تنگ کر دیا گئی ہے۔تب آپ کو احساس ہو گا کیسے طاقت کے نشے میں مست ہو کر جانوروں کی طرح انسانی زندگیوں سے کھیلا جا رہا ہے۔مجھے اس بات پر شرمندگی ہوتی ہے کہ کل کا مورخ کیا لکھے گا،اس کی زبان پر کیا کہانیاں ہو گی،وہ اس قوم کو مردہ قوم کہے گا جس کے اسلاف نے ماضی کے مورخوں کو انگدشت بیاں کر دیا تھا۔جن کے اقوال ان کے اعمال سے جڑے تھے۔۔

یہ وہ قوم ہے جس کے بزرگوں نے صرف اک بہن کی فریاد پر میلوں کا سفر کیا تھا اور آنے والا جوانی کے آغاز پر تھا۔مستقبل میں اس قوم کی تعریف یہ ہو گی محمد بن قاسم کو ماننے والے بزدل تھے ان میں انسانیت مر چکی تھی۔آپ جان چکے ہوں گے کہ میں کن لوگوں کے درد بیان کر رہی ہوں،کن کے دکھوں سے پردہ اٹھا رہی ہوں۔کشمیر جل رہا ہے ،مسلمان جل رہے ہیں،ان کے خواب ان کی خواہشات ان کی آرزوئیں سب جل رہا ہے اور ہمارے عیش وعشرت میں مست حکمران اپنی عیاشیوں میں مست ہے۔اپنے دولت کے انباروں پہ بیٹھ کر دولت نوازنے والوں کے آگے “میں،میں”کرتے رہتے ہیں۔جن لوگوں سے آپ سالوں سے مانگ رہے انہیں آپ کی اوقات کا پتہ ہے اس لیے آپ چاہے سلامتی کونسل میں تقریریں جھاڑے یا کسی اور پلیٹ فارم پر آپ کی بات ذرہ برابر بھی تاثیر نہیں رکھتی۔آپ لوگ خودی کے فلسفہ کو فراموش کر چکے تھے اسے آپ یہ حق نہیں رکھتے کہ اپنے حق کے لیے الفاظ اٹھائے۔مجھے یہ بات ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہے جب میں ان انسانیت کے ٹھکیداروں کا دوغلہ رویہ دیکھتی ہوں۔

USA Attack

USA Attack

امریکہ نے 9/11 کے حملوں کا بدلہ آدھی دنیا سے لیا جب کہ آج یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ڈرامہ سپر پاور کا خود ساختہ تھا۔دنیا پر قبضے کے جنون نے امریکہ کے حکمرانوں کو پاگل کر رکھا ہے۔مگر یہ ایک عمومی رائے ہے مگر میرے خیال میں وہ مسلمانوں سے خوف زدہ ہے۔اس قوم سے جو غفلت کی نیند بہت اطمینان سے سوئی ہوئی ہے کیونکہ اس نے طاقت کے نشے میں صرف مسلمانوں پر حملے کیے ہیں۔فرانس پر حملے ہوتے ہیں تو پوری دنیا میں تھرتھلی مچ جاتی ہے۔چند لوگوں کے دکھ میں پوری دنیا پاگل ہوئی جاتی ہے مگر اے عقل کے اندھوں تم لوگوں کو وہ ہزاروں مظلوم نظر نہیں آتے جو بنا کسی قصور سے مارے جا رہے ہیں۔کشمیر، فلسطین، بوسینیا، چیچنیا، سائریا،شام، عراق یہاں جو ظلم کا بازار گرم ہے اس سے پہ عالمی ٹھکیداروں کی آنکھیں بند ہیں۔

اللہ اللہ کر کے اگر ہمارے بیعقل حکمران مسئلہ کشمیر پر بولے ہیں تو وہ صدائے بے بنیاد ثابت ہوئی ہے اور اس پر مہان بھارت ہمیں جنگ کی دھمکیوں سے ڈرا رہے ہیں۔شائد انہیں اپنے جنگی جنون کو آزمانے کا بہت شوق ہے یا اپنی فوجی طاقت پہ حد سے زیادہ یقین ہے مگر سرحدوں کی طرف رخ کرنے سے پہلے ماضی کے اوراق پلٹ لیں تو ان کے جنگی جنون کے منہ پر جو چانٹا پڑے گا اس سے انہیں مستقبل کے لیے لائحہ عمل بنانے میں مدد ملے گی۔میری ان سب باتوں کا مقصد صرف انسان کو نوید دینی تھی کہ تم لوگ مر چکے ہو اور تم سے منسلک انسانیت بھی مر چکی ہے۔دنیا جن خطوط پر جا رہی ہے وہاں صرف تباہی رقم ہے اور اس تباہی کا آغاز انسان کی موت سے ہوتا ہے اور موجودہ حالات کی صدا یہ ہی ہے”انسان کو نوید دو کہ انسان مر گیا۔

Mawra Talha

Mawra Talha

تحریر: ماورا طلحہ