یکم مارچ : عالمی یوم شہری دفاع

Defense

Defense

تحریر : ریاض احمد ملک بوچھال کلاں
دفاع ایک فطری اور انفرادی عمل ہے۔ روزمرہ زندگی میں جس طرح کے حادثات رونما ہوتے ہیں خواہ وہ اتفاقی ہوں یا قدرتی اُن سے بچاؤ ہی دُوسرے لفظوں میں شہری دفاع ہے۔ مگر دور جدید کے جنگی تقاضے ماضی سے یکسر مختلف ہیں۔ اس ایٹمی دور نے دنیا کو بہت سی الجھنوں سے دوچار کر دیا ہے۔ ایٹم بم، ہائیڈروجن بم کا تصور کیجئے کہ اِن سے دنیا کو کتنا بڑا خطرہ لاحق ہے۔ یہ انسانی جبلت ہے کہ انتہائی خطرے کی صورت میں اپنی حفاظت کے لیے کوئی نہ کوئی قدم ضرور اٹھاتا ہے۔ جب انسان کے سر پر دھوپ پڑتی ہے تو چھاؤں کی تلاش میں نکلتا ہے۔ تلوار سے مقابلہ ہو تو ڈھال بنا لیتا ہے۔ بندوق اور توپ کا مقابلہ ہو تو قلعہ تعمیر کر لیتا ہے۔

شہری دفاع حکومت کی سرپرستی میں عوام کی ایک ایسی منظم جماعت ہے جو زمانہ امن میں ارض و سماوی آفات کی صورت میں اور زمانہ جنگ میں بمباری کی صورت میں اہل وطن کی مددگار ہوتی ہے اور اُن میں جنگ جیتنے کا جذبہ اور حوصلہ پیدا کرتی ہے۔

ملکی دفاع کا استحکام صرف سرحدوں تک محدود نہیں بلکہ آج کے سائنسی دور میں اس کا دائرہ شہروں، قصبوں اور بازاروں تک پہنچ چکا ہے۔ انسان کا وجود اور دفاع لازم و ملزوم ہیں، انسان کی سانس اس کی آس سے بندھی ہوئی ہے اور یہی آس اسے دفاع کا درس دیتی ہے۔ شہروں کو ہوائی حملوں سے بچاؤ کے لئے ”شہری دفاع” کی رضا کارانہ تنظیمیں پوری دنیا میں کام کر رہی ہیں، ان مقاصد کی تکمیل کیلئے ہر سال یکم مارچ عالمی یومِ شہری دفاع کے طور پر منایا جاتا ہے۔

شہری عوام کو سب سے زیادہ خطرہ دشمن کی بمباری سے ہوتا ہے جس کے نتیجے میںکسی ملک کے مرد عورتیں بچے بوڑھے جنگ کے اثرات سے اُتنے ہی دوچار ہوتے ہیں جتنے کہ محاذ جنگ پر لڑنے والا سپاہی، سینکڑوں بلکہ ہزاروں لوگ زخمی اور ہلاک ہو جاتے ہیں، بے گھر اور بے سہارا ہو جاتے ہیں، نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ میدان جنگ میں زخمیوں کی چیخ پکار اور گولہ بارود کی دل و دماغ کو کھا جانے والی آواز میں قیامت کا نقشہ پیش کرتی ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ دشمن کے جہازوں کو روکنے کی ذمہ داری ہماری مسلح افواج پر عائد ہوتی ہے جس میں وہ کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے لیکن پھر بھی دشمن کے چند جہاز ہماری سرحد میں داخل ہو کر شہری آبادی کو ٹھکانہ بناتے ہیں، اس موقع پر ہم تربیت یافتہ ہوں گے تو دشمن کے جہازوں سے گرائے گئے بمبوں کے نقصانات کو کم کر سکتے ہیں۔

شہری دفاع کی اہمیت کے بارے میں برطانیہ کے مسٹر چرچل نے یہ کہا تھا کہ پہلی جنگ عظیم میں اگر دشمن ایک بم گراتا تھا تو سینکڑوں لوگ زخمی یا ہلاک ہوتے تھے اور دوسری جنگ عظیم میں اگر دشمن سو بم گراتا تھا تو چند لوگ زخمی یا ہلاک ہوتے تھے، اس کی بڑی وجہ یہ ہی تھی کہ پہلے لوگوں میں شعور نہ تھا کہ دوران حملہ کیا کرنا چاہیے، پھر لوگوں میں شعور پیدا کیا گیا کہ دوران حملہ بجائے چھتوں کے اوپر چڑھنے کھلے میدانوں میں جانے کسی پناہ گاہ، حفاظتی کمرے یا خندق میں جایا جائے تاکہ دشمن کے حملے سے محفوظ رہ سکیں اور روشنی کو بھی تحدید کیا جائے تاکہ دشمن کو کوئی ٹارگٹ نہ مل سکے۔ اس طرح لوگ زیادہ سے زیادہ محفوظ ہو سکتے ہیں۔

فرانس کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے کہ اُس کی فوج بہت بہادر تھی اُس کے پاس اسلحہ بھی اعلیٰ قسم کا تھا لیکن جرمن کے مقابلے میں زیادہ دیر نہ ٹھہر سکے جس کی وجہ فوج کے ساتھ ساتھ شہری عوام کسی بھی آنے والی مصیبت سے نمٹنے کے لیے تیار نہ تھے جس کے نتیجہ میں ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئے اور فوج کی مضبوطی بھی اُن کے کام نہ آ سکی۔

تنظیم شہری دفاع زمانہ امن اور زمانہ جنگ دونوں صورتوں میں بڑی اہمیت کی حامل ہے، زمانہ امن میں ارض و سماوی آفات مثلاً زلزلہ، سیلاب، آگ کے حادثات، بوسیدہ مکانات کا گرنا، ملے کے نیچے دب جانے والے افراد کو نکالنا اور اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے شہریوں کی حفاظت کرنا، شہریوں کو مختلف شعبہ جات مثلاً فائر فائٹنگ، ریسکیو، فرسٹ ایڈ اور بم ڈسپوزل کی تربیت دینا اور عوام کا حوصلہ بلند رکھنا وغیرہ اہم امور ہیں۔ حالیہ دہشت گردی میں پاکستان بھر کے سینکڑوں شہری دفاع کے سینکڑوں رضا کار متاثرہ علاقوں میں جا کر انسانوں کی جان بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ 2005ء کے زلزلہ اور 2010ء کے حالیہ سیلاب میں بھی تنظیم شہری دفاع کے رضا کاران کے کتنے لوگوں کی جان بچائی، تربیت یافتہ لوگ ہی یہ کارنامہ سر انجام دے سکتے ہیں اور موجودہ حالات میں شہری دفاع کے رضا کاروں کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کو بھی تربیت دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ بھی اس تنظیم میں شامل رضا کار ان کی طرح لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کے لیے تیار ہوں اور وقت آنے پر اس حاصل کردہ شہری دفاع کی تربیت کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے شہریوں کی جان بچا سکیں اور جذبہ قومی و ملی سے سرشار ہو کر دکھی انسانیت کی خدمت کر سکیں۔

ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ شہری دفاع کی تربیت حاصل کرے جو کہ وقت کا اہم تقاضا ہے، شہری دفاع کی تربیت انسان کے اندر خود اعتمادی پیدا کرتی ہے اور ممکنہ خطرات سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ بخشتی ہے۔ شہری دفاع کا رضا کار اللہ کا سپاہی ہے اور بغیر کسی معاوضے یا مراعات کے کام کرتا ہے، اپنے وطن عزیز کی سلامی اور بقا کے لیے میدان عمل میں آنا عین عبادت ہے۔ شہری دفاع کی تربیت ملکی دفاع کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے، شہری دفاع کی تربیت عمل اور خدمت کا دوسرا نام ہے۔

آئیے شہری دفاع کے عالمی دن کے موقع پر ہم سب مل کر عہد کریں کہ شہری دفاع کی تربیت حاصل کر کے دُکھی انسانیت کی خدمت اور اپنے عزیز وطن کو درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کریں گے اور اپنے وطن کو عظیم سے عظیم تر بنائیں گے۔

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

Riaz Malik

Riaz Malik

تحریر : ریاض احمد ملک بوچھال کلاں