مارچ کی دو قراردادیں اور پاکستانی قوم

23 March Pakistan Day

23 March Pakistan Day

تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
کیا کسی کو اندازہ ہے کہ پاکستان کا قیام کن مشکلات اور قربانیوں کے نتیجے میں عمل میں آیا تھا؟آج کی ہماری نوجوان نسل ان قربانیوں سے واقفیت سے کیوں کتراتی ہے؟اس میں ہم سمجھتے ہیں کہ اُن لوگوں کا زیادہ قصور ہے جو نظریہء پاکستان کے مخالف اور مغرب زدہ ذہنیت کے مالک ہیں اور جن کو اسلام کے نام سے ہی خوف آتا ہے۔مگر ہمارے ان مغرب زدہ ذہنیت کے بھایؤں کو اسلام سے خائف ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔کیونکہ اسلام خلافِ فطرت اعمال کے علاوہ ،لبرل ہونے کے ساتھ سوشل نظام کا حامل بھی ان سے زیادہ ہے۔مگر عقل پر پڑے پردوں کو ہٹانے کی ضرورت ہے اور یہ کام ہے ذرا مشکل، مگر کر کے تو دیکھو! دو قومی نظریئے کی بنیاد پر حضرت آدم سے لیکر تمام انبیائے کرام اورمیرے نبی محترم محسن اعظم محمدﷺ تک تمام نے ہی انبیاء ؑ نے بھر پور عملی کام کیا ہے۔تو پھر دو قومی نظریہ میرے دوستوں ! آپ کو کیوں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔

ہندوستان کی سیکولر جماعت کانگریس نے کبھی بھی مسلمانوں کے حق میں آواز نہیں اُٹھائی تھی۔بلکہ اس آواز کو دبانے کی ہمیشہ اور بھر پور کوشش کی ہے۔کیا کوئی پاکستانی مسلمان اس حقیقت سے انکار کر سکتا ہے؟1937 میں کانگرس کو جب ہندوستان کے گیارہ میں سے آٹھ صوبوں کا اقتدار ملا تو کانگرس نے اذان،نماز گائے کے ذبیحہ تک پر پابندی لگا کر۔تما م اسکولوں میں مسلمان بچوں کوگاندھی کیپ پہنا کر اس کی تصویر کی پوجا شروع کروا دی تھی۔اس ظلم کی وجہ سے ہی مارچ 1940 میں قرار دادِپاکستان میں مسلمانوں کے لئے الگ آزاد و خود مختار مملکت کے قیام کامطالبہ کیا گیا تھا۔مختلف سالوں میں مارچ کے مہینے میں ہی دو قرار دادیں قیام پاکستان اور استحکامِ پاکستان کے لئے مسلمانوں کی بھاری اکثریت سے منظور کی گیءں۔مارچ کی دونوں قرادادیں وطنِ عزیز کے حوالے سے بہت اہم ہیں۔

پہلی قرار داد ،مسلم لیگ کے ستائسویں سالانہ اجلاس میں 23 مارچ 1940کو لاہور کے منٹو پارک موجودہ اقبال پارک میں منظور کی گئی۔ جس میں کہا گیا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کیلئے ایک آزاد اور خود مختار مملکت قائم کر دی جائے۔ کانگرس نے نا صرف اس قرار داد کی مخالفت کی بلکہ اس نے اپنی پرو پیگنڈامشنری کومسلم لیگ کے خلاف تیزتر کر دیا۔اس قرار داد کے پاس ہونے پر کانگرس کی صفوں میں تو جیسے طوفان امڈ آیا تھا،ہر جانب صفِ ماتم بچھ گئی تھی۔ہندو کانگرس تو اس کی مخالف تھی ہی۔ مگربعض مسلمان اور ان کی تنظیمیں بھی اس مخالفت میں پیچھے نہ تھیں جن میں خان عبد الغفار خان کی خدائی خدمتگار، عطاء اللہ شاہ بخاری کی مجلسِ احرار،خاکسار تحریک،جمیعت علمائے ہند کے ابولکلام آزاد،جن کا کہنا تھا ’’میں بنیادی طور پر پاکستان کے تصور کے خلاف ہوں میری نظر میں خدا کی زمین کو پاک اور نا پاک خطوں میں بانٹنے کا کسی کو حق حاصل نہیں ہے یہ تقسیم سراسر غیر اسلامی ہے‘‘ اور مومن کانفرنس بھی اسمخلفت میں برابر کی شریک تھی۔اس قرار داد کے خلاف گاندھی کے اخبار ہریجن نے خبر لگائی کہ ’’دو قومی نظریہ ایک جھوٹ ہے چونکہ میں اہنسا پر یقین رکھتا ہوں ….اس لئے میں چیر پھاڑ میں فریق نہیں بنونگا‘‘ ایک اور موقعے پر گاندھی نے کہا تھا کہ’’ہندوستان ہماری ماتا ہے ہم اپنی ماتا کے ٹکڑے نہیں ہونے دیں گے‘‘ پنڈت نہرو کا کہنا تھا کہ ’’ پاکستان کی ساری اسکیم احمقانہ ہے اور یہ چوبیس گھنٹوں سے زیادہ قائم نہ رہ سکے گا۔

اس قرار داد کے منظور ہوتے ہی ہندوپریس نے تو جیسے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا۔یہ بات سب کے علم میں ہے کہ تقسیم ہند کی اس قرار داد کو قرار دادِ لاہور سے تعبیر کیا گیا تھا مگر ہندو پریس نے طنزاََ اس کو ’’قرار دادِ پاکستان ‘‘ کا نام دیدیا تھا۔لہٰذا مسلمانوں نے ہندو پریس کے دیئے گئے نام’’قرار داد پاکستان ‘‘کو ہی من و عن تسلیم کر لیا۔اور یوں تقسیمِ ہند کی قرار داد ، قرار دادِپاکستان بن گئی۔کانگرس نے ابوالکلام آزاد اور خان عبد الغفار خان جیسے لوگوں کو بڑے سلیقے سے استعمال کیا۔مگر مولانا اشرف علی تھانوی کے کے قریبی ساتھیوں نے جن میں مولانا شبیر احمد عثمانی،مولانا ظفر احمد انساری اور مفتی شفیع جیسے علمائے کرام نے قرار دادِپاکستان کی بھر پور تائید و حمایت کر کے ہندوستان کے مسلمانوں کو منزل کی راہ پر گامزن کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ مغربی پریس میں اخبار گاجین لکھتا ہے کہ ’’یہ قرار داد انڈین نیشنلزم پر ایک کاری ضرب ہے‘‘ٹائمز لکھتا ہے کہ ’’مسلمانوں کا ایک قوم میں ڈھل جانا کانگرس کی غلط پالسیوں کا نتیجہ ہے….اس طرح ہندوستان کی وحدت ختم ہو جائے گی‘‘اسٹیٹسمن نے تو قرار داد کی حمایت میں باقاعدہ اداریہ بھی تحریر کیا تھا۔

دوسری قرار داد جس کو ’’قرار دادِ مقاصد‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔اس قرار داد نے پاکستان کے مسلمانوں کی قائد اعظم محمد علی جناح کے ویژن قرآن و سنت کے مطابق آئین ساز ی کے ضمن میں مستقل رہنمائی کی راہیں کھولدی تھیں۔ جسکا اینٹی اسلام الیمنٹ کو آج بھی صدمہ ہے۔اس قرار داد کا مسودہ تحریکِ آزادی کے مشہور رہنما علامہ شبیر احمد عثمانی نے مرتب کیا تھا،جس کو وزیرِ اعظم پاکستا ن شہید ملت نواب زادہ لیاقت علی خان نے پاکستان کی قانون ساز اسمبلی میں پیش کی اور 12 مارچ 1949ء کو مسلمان ارکان کی مکمل حمایت سے منظور کرلی گئی۔ مگر بعض غیر مسلم ارکان نے اسپر تنقید کی ان میں جوگندر ناتھ منڈل بھی شامل تھا جو قرار داد مقاصد کی منظوری کے قریباََ ڈیڑھ سال بعد ہندوستان بھاگ گیا تھا۔

قرار دادِ مقا صد میں اللہ کی تعریف و توصیف کے بعد کہا گیا تھا کہ جمہوریہ پاکستان کی نمائند مجلسِ قانون ساز فیصلہ کرتی ہے کہ آزاد و خومختار مملکتِ پاکستان کے لئے ایک دستورمرتب کیاجائے۔جس کے تحت اقتدارِاعلیٰ کامالک اللہ تبارک و تعالیٰ بلا شرکتِ غیرے ہے۔ جس نے اختیارِ حکمرانی نیابتاََاسی جمہور کو عطا کیاہے۔جس کی رو سے جملہ اختیارات حکمرانی منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کئے جائیں گے اور لوگوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو قرآن و سُنت کے مطابق گذار سکیں۔ اس کے تحت عقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہوگی ۔جو اپنی ثقافت کو ترقی دے سکیں گی اور پسماندہ طبقوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔پاکستان میں شامل علاقے اور بعد میں شامل ہونے والے علاقوں پر مشتمل پاکستان ایک وفاق ہوگا۔لوگوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت دی جاتی ہے۔ وفاق میں شامل علاقوں اور فضاء، بحر و بر کا تحفظ کیا جائے گا۔تاکہ اہلِ پاکستان فلاح و خوشحالی کی زندگی بسر کر سکیں۔

مارچ کے مہینوں میں پاس کی جانے والی دونوں قرار دادیں برِ صغیر کے مسلمانوں کے دل کی آواز تھیں۔ان ہر دو قرار داد نے ہماری منزلوں کا تعین کر دیا تھا۔مگر اسلامی نظام سے خائف لوگآج بھی دونوں قرار دادوں میں اپنی اپنی تعاویلیں پیش کر کے ہمارے نظام کو آدھا تیتر آدھا بٹیر بنانے پر مصر رہے ہیں۔انہیں یہ اندازہ ہی نہیں ہے کہ ہم نے ان دونوں قرار دادوں تک پہنچنے کے لئے کس قدر پاپڑ بیلے ہیں۔یہلوگ مسلسل پاکستان کے نوجونوں اپنے قول و فعل کے ذریعے ورغلانے کی ناکام کوششیں کرتے رہے ہیں۔

Shabbir Khurshid

Shabbir Khurshid

تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
03333001671
shabbirahmedkarachi@gmail.com