مطیع الرحمان نظامی کو بھارتی شہہ پر پھانسی

Motiur Rahman Nizami

Motiur Rahman Nizami

تحریر : مہر بشارت صدیقی
بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر مولانا مطیع الرحمان نظامی کو پھانسی دیدی۔ مطیع الرحمن نظامی کو 1971ء میں پاکستان سے محبت اور افواج پاکستان کی حمایت کرنے پر جنگی جرائم کے نام نہاد ٹربیونل نے تشدد بڑھانے سمیت 16 الزامات پر سزائے موت سنائی تھی۔ وہ متحدہ پاکستان میں اسلامی جمعیت طلبا کے ناظم اعلی اور البدر تنظیم کے کمانڈر تھے۔ مطیع الرحمان نظامی نے صدر سے رحم کی اپیل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ انکی عمر 71 برس تھی۔ مطیع الرحمن کی اہل خانہ سے پھانسی سے پہلے آخری ملاقات کرائی گئی، پھانسی کے وقت جیل کے اردگرد پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی۔ ڈھاکہ سمیت بڑے شہروں میں سکیورٹی ہائی الرٹ رہی۔ مطیع الرحمان نظامی کی پھانسی سے بنگلہ دیش میںایک بار پھر نظریہ پاکستان زندہ ہو گیا ہے۔مطیع الرحمان کو پاکستان سے محبت کے جرم میں پھانسی دی گئی۔ان کی شہادت پر پوری پاکستانی قوم میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

حکومت پاکستان او آئی سی اور سلامتی کونسل سمیت ہر فورم پران کی پھانسی کے خلاف آواز بلند کرے’ خاموشی اختیار کرنا کسی صورت درست نہیں ہے۔ ہمیں اپنے ان محسنوں کی قدر کرنی چاہئے ۔ بھارتی شہ پر پاکستان سے محبت کرنے والوں کو پھانسیاں دی جارہی ہیں۔ پہلے عبدالقادرملا کو پھانسی دی گئی’ پھر مولانا غلام اعظم کو پھانسی کی سزا سنائی گئی جو جیل میں وفات پاگئے اور اب جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر مولانا مطیع الرحمن نظامی کو پھانسی دی گئی ہے۔ یہ انتہائی تکلیف دہ امر ہے’ حکومت پاکستان کو اس مسئلہ پر ہر فورم پر آواز بلند کرنے کا فریضہ سرانجام دینا چاہیے وگرنہ اس سے مایوسیاں پھیلیں گی۔

بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت اس بات سے سخت خوفزدہ ہے کہ لوگ ایک بار پھر نظریہ پاکستان کی بنیادوں پر متحد و بیدار ہو رہے ہیں اور ان کے دلوںمیںبھارت کے خلاف شدید نفرت پیدا ہو رہی ہے۔ بھارت بھی واضح طور پر یہ دیکھ رہا ہے کہ آخر یہ دھوکے اور ظلم و ستم کب تک چلے گا ‘ وہ وقت دور نہیں ہے کہ جب اس خطہ میں اس کے خلاف تحریک مزید زور پکڑے گی اور ہندو کے گہرے اثرات ختم ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیشی حکومت بھار ت سرکار کے اشاروں پر یہ گھنائونا کھیل کھیل رہی ہے۔جن عدالتی فیصلوں کی بنیاد پر مطیع الرحمن نظامی اور دیگر 21 افراد کو سزائیں اور 4 افراد کو پھانسی دی گئی ہے، ان فیصلوں میںسینکڑوں بار پاکستان کا نام استعمال کرکے بے بنیاد الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

National Assembly

National Assembly

یہ امر قابل تشویش بھی ہے اور پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے براہ راست دھمکیوں کے مترادف بھی۔ نیز بنگلہ دیش میں جاری یہ انتقامی کارروائیاں 09 اپریل 1974ء میں ہونے والے پاکستان، بنگلہ دیش اور انڈیا کے سہ فریقی معاہدہ کی واضح اور سنگین خلاف ورزی ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے عوام نے بھاری تعداد میں ووٹ دے کر مطیع الرحمن نظامی سمیت کئی قائدین کو پارلیمنٹ کا رکن منتخب کرکے ان کو نہ صرف محب وطن قرار دیا ہے بلکہ یہ ان پر بھرپور عوامی اعتماد کا مظہر بھی ہے۔امیر جماعة الدعوة پروفیسر حافظ محمد سعید کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی قائدین کی پھانسیوں پر ملک بھر کی مذہبی و سیاسی جماعتوں کو متحد ہو کرحکومت پر دبائو بڑھانا چاہیے کہ وہ اس ظلم و بربریت پر خاموشی اختیار نہ کرے بلکہ بنگلہ دیش کو اس ظلم سے روکا جائے۔ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی قائدین کو پھانسی کی سزائوں پر حکومتی خاموشی بہت بڑا جرم ہے۔

بنگلہ دیش میں جن قائدین کو پھانسیاں دی گئیں ان کا جرم صرف یہ تھا کہ جب بھارت نے اگر تلہ سازش کے تحت مجیب الرحمن جیسے غداروں کو کھڑ اکیااور مشرقی پاکستان پر باقاعدہ فوج کشی کی تو ان بزرگوںنے دفاع پاکستان کیلئے پاک فوج کے ساتھ مل کر بھارتی فوج کا مقابلہ کیاتھا۔ آج بنگلہ دیش پر اسی مجیب الرحمن کی بیٹی کی حکومت ہے جو اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستان کا نام لینے والوں کو جیلوں میں ڈال رہی ہے اوربھارت کی ہمنوا بن کر انہیں پھانسیاں دی جارہی ہیں۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے مولانا نظامی کی شہادت کو بے گناہ انسانیت کا خون قرار دیتے ہوئے کہا کہ مولانا نظامی کا اکلوتا گناہ متحدہ پاکستان کی حمایت تھا۔

حکومت پاکستان اور عالمی برادری اپنا فرض نبھانے میں ناکام رہی۔عالم اسلام اور انصاف کے عالمی اداروں سے رابطہ کرکے خون نا حق بہنے سے بچایا جاسکتا تھا۔بنگلا دیش میں بے گناہ بہائے جانے والے خون میں حسینہ واجد اور مودی برابر کے شریک ہیں ،جبکہ حکومت پاکستان بے حسی کا شکار ہے۔حکومت کا یہی وطیرہ رہا تو بنگلا دیش میں جاری مظالم کا دائرہ پورے خطے تک پھیل جائے گا۔بنگلہ دیش میں مولانا نظامی کی شہادت جنوبی ایشیا میں اسلامی انقلاب کا راستہ ہموار کرے گی۔

Bangladesh

Bangladesh

بنگلا دیشی حکومت نے انتقامی کاروائی کرتے ہوئے طے شدہ سازش کے مطابق نام نہاد وار ٹربیونلز کے ذریعے مولانا نظامی کو سزا سنائی اور بین الاقوامی برادری کی مذمت کے باوجود مولانا نظامی کو پھانسی دے کر بھارت کو خوش کیا۔ اس شہادت پر اہل بنگلا دیش اور امت مسلمہ شدید رنج و غم میں مبتلاہے۔سینیٹر سراج الحق نے مولانا مطیع الرحمن نظامی شہید کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ امت مسلمہ کے قابل فخر قائد اور امت کا درد رکھنے عظیم عالم دین تھے۔انہوں نے زندگی بھر اسلام کی سربلندی کے لئے جدوجہد کی۔وہ اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ رہے ،جماعت اسلامی کی شوری کے رکن رہے اورانہوںنے بنگلا دیش میں تحریک اسلامی کو پروان چڑھانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ دنیا بھر میں ان سے محبت اور عقید ت رکھنے والے موجود ہیں۔

مولانا مطیع الرحمن نظامی ظالم کے آگے سرنہ جھکانے والے ٹھوس کردار کے مالک تھے۔مولانا نظامی بنگلا دیش حکومت میں وزیر بھی رہے۔پنجاب اسمبلی میں بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے امیر کو پھانسی دینے کے خلاف مذمتی قرار داد جمع کروا دی گئی۔ قرارداد اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید نے جمع کروائی ہے۔ قرار داد میں حکومت سے ان پھانسیوں کے معاملے کو عالمی انسانی حقوق کے اداروں میں اٹھانے کا مطالبہ کیا گیا۔ قرار داد میں کہا گیا کہ جماعت اسلامی کے امیر کو پاکستان سے محبت کے جرم میں پھانسی دی گئی۔ نام نہاد ٹربیونل کے ذریعے سیاسی مخالفین کو پھانسی دینا قابل مذمت ہے۔

سینیٹر سراج الحق نے سنسنی خیز انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ بنگلہ دیشی حکومت آئندہ مزید سینکڑوں بنگلہ دیشیوں پر جنگی جرائم کے مقدمات قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔بنگلہ دیشی حکومت کے فیصلے نہ صرف دونوں برادر ملکوں کے تعلقات کو تباہ کرنے کا باعث بن رہے ہیں بلکہ اس سے امت مسلمہ کے اندر بھی نفرت و اختلاف کی خونی لکیر کھینچی جارہی ہے۔ اس حوالے سے پاکستان حکومت کو آگے بڑھ کر کردار ادا کرنا چاہیے۔

Mehr Basharat Siddiqi

Mehr Basharat Siddiqi

تحریر : مہر بشارت صدیقی