خطبات ولی: نوجوانوں کے لیے ایک نورانی تحفہ

Hazrat Maulana Wali Rahmani

Hazrat Maulana Wali Rahmani

تحریر : کامران غنی صبا
‘خطبات ولی’ امیر شریعت حضرت مولانا ولی رحمانی کے خطبات کا مجموعہ ہے جسے نوجوان ادیب و صحافی نور السلام ندوی نے ترتیب دیا ہے۔ مرتب نے اس کتاب میں حضرت ولی رحمانی کے کُل 14 خطابات جمع کیے ہیں جو مختلف مواقع سے مختلف مقامات پر دئیے گئے ہیں۔ مرتب نے سیکڑوں خطابات میں سے صرف 14 خطابات کا انتخاب کیا ہے جس سے ان خطابات کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ حضرت ولی رحمانی کی تقریروں کی خاص بات اُن کی سنجیدگی، بے باکی، دوراندیشی اور مدلل انداز بیان ہے۔ حالات کتنے بھی ناخوشگوار اور بظاہر بد سے بدتر کیوں نہ ہوں وہ نہ تو جذباتیت کا شکار ہوتے ہیں اور نہ ہی مایوسی کا۔ وہ ماضی کے حادثات و واقعات سے سبق حاصل کرتے ہوئے مستقبل کا لائحۂ عمل تیار کرنے کا طریقہ جانتے ہیں۔ فقہی مسائل کے ساتھ ساتھ مُلک کے آئین کی باریکیوں اور سیاسی اُتار چڑھائو پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔ابھی حال ہی میں ‘طلاق ثلاثہ’ کی آڑ میں شریعت میں مداخلت کی کوشش کی گئی تو حضرت ولی رحمانی نے قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے حکومت وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہ صرف شریعت کا دفاع کیا بلکہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے پلیٹ فارم سے پورے ملک میں تحفظ بیداری مہم کا ماحول بنانے میں اہم کردار بھی ادا کیا۔

‘خطبات ولی’ کے تمام تر خطبات موجودہ ملکی تناظر میں بہت ہی اہمیت کے حامل ہیں۔ شروع کے تین خطبات مدارس اسلامیہ کے تعلق سے ہیں۔ پہلے خطبہ کا عنوان ہے’اسلام مدارس سے زندہ ہے۔’ یہ خطبہ دارالعلوم دیوبند’میں دیا گیا ہے۔ اس خطبہ میں حضرت ولی رحمانی نے مدارس کے طلبہ کو احساس کمتری سے باہر نکلنے کی تلقین بہت ہی پر اثر انداز میں کی ہے۔ ان کے اس خطبہ کا یہ اقتباس دیکھئے:

”لوگ کہتے ہیں کہ مدرسہ میں فزکس بھی ہو، کیمسٹری بھی ہو، اور دنیا کا سارا علم ہو۔ میرے عزیزو! اس طرح کی باتیں اس لیے کہی جاتی ہیں کہ آپ کے پاس کچھ نہ ہو۔ یاد رکھئے، یہ دور specialization کا ہے، تخصص کا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ ایک شخص اگر تاریخ کا ماہر ہے تو اسے جغرافیہ کی خبر نہیں ہوتی، اگر پولیٹکل سائنس کا ماہر ہے تو میتھ میٹکس کی خبر نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔۔تھوڑا آگے بڑھئے، ڈاکٹر کی بھی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ کوئی ڈاکٹر میڈیسن کا ہے، وہ صرف دوائوں سے واقفیت رکھتا ہے، اگر معاملہ سرجری کا آ جائے تو کہیں گے صاحب! سرجن کے پاس چلے جائیے، میں تو فیزیشین ہوں۔۔۔۔۔”

اسی خطبہ میں آگے چل کر وہ مدارس کے طلبہ کو اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کرنے کی تلقین کرتے ہیں:

‘یاد رکھئے اور اس بات کو دل میں جگہ دیجئے، کہ ہم میں احساس کی کمی پائی جاتی ہے، جو بہت خطرناک ہے، یاد رکھئے، جو کم علمی لیاقت کی وجہ سے ہؤا کرتی ہے، وہ ہلکی ہوتی ہے اور جو کمی احساس کی وجہ سے ہؤا کرتی ہے، وہ بڑی ہی نہیں بہت بڑی ہوتی ہے۔ اس لیے اگر ہم نے ذہنی طور پر شکست کھالی کہ ہم نے یہ نہیں پڑھا وہ نہیں پڑھا ، اس لیے ہم بیکار ہیں، اور ہم نے فلاں چیز نہیں سیکھی اس لیے ہم ناکارہ ہیں،تو ہم میدان میں جم نہیں سکیں گے چاہے ہماری علمی لیاقت کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو۔”

مدارسِ اسلامیہ پر لگائے جانے والے الزامات میں سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ وہاں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ کئی بار ملک کے بڑے وزرا کی طرف سے بھی یہ سوال اٹھایا جاتا رہا ہے کہ مدارس دہشت گردی کا اڈہ ہیں، لہٰذا انہیں بند کر دینا چاہیے۔ حضرت ولی رحمانی اس الزام کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں:

‘اگر مدرسے کا ماحول اور مزاج دہشت گردی کا ہوتا، رائفل، پستول اور بندوق والا ہوتا، تو پچاس ساٹھ سال کے عرصہ میں کم از کم پچاس کیس بھی تو ٣٠٧ اور ٣٠٢ کے مدرسے والوں پر چلے ہوتے، آپ مجھے پچاس سال کی پچاس نہیں پچیس ہی مثال دکھا دیجئے۔ ۔۔۔۔۔ اس کے برعکس کوئی یونیورسٹی اس ملک میں ایسی نہیں ہے جہاں قتل نہ ہوتا ہو اور کوئی ایسی یونیورسٹی نہیں ہے جہاں ٣٠٢ اور ٣٠٧ کے کیسیز نہ چلتے ہوں۔”

مولانا ولی رحمانی مدارس کے ذمہ داران کو مشورہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ مدارس کا دروازہ برادران وطن خاص طور سے میڈیا والوں کے لیے کھول دیا جائے۔ ساتھ ہی جو اخبارات یا ٹی وی چینل مدارس کے خلاف زہر افشانی کرتے ہیں ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی بھی کی جائے۔ مولانا ولی رحمانی کہتے ہیں:

”یاد رکھئے! جمہویت میں اٹھے ہاتھوں کی قدر ہوتی ہے، گرے ہاتھوں کی کوئی قدر نہیں، آپ ایک جمہوری ملک میں رہ رہے ہیں، اپنا وزن اپنی تعداد میں محسوس کرائیے۔”

حضرت ولی رحمانی مسلمانان ہند کو متنبہ کرتے ہوئے ہیں کہتے ہیں کہ اگر مدراس کے خلاف ہونے والی منظم سازشوں کے خلاف ملک کے مسلمان متحد ہو کر نہیں اٹھ کھڑے ہوئے تو وہ دن دور نہیں کہ ہمارا تشخص بھی ختم ہو جائے گا۔

”بیعت کی حقیقت” کے عنوان سے حضرت مولانا ولی رحمانی نے 1999 میں خانقاہ رحمانی، مونگیر میں ایک پرمغز خطاب پیش کیا تھا۔ یہ خطبہ بھی اس کتاب میں شامل ہے۔ حضرت نے بہت ہی مدلل انداز میں بیعت کی حقیقت اور اہمیت پر روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے سورة الممتحنہ آیت نمبر ١٢ کی روشنی میں بیعت کو قرآن سے ثابت کرتے ہوئے اسے عین سنت رسولۖ قرار دیا ہے۔اسی خطبہ میں وہ فرماتے ہیں:

”یاد رکھئے! سارے علمائے کرام اپنی عملی زندگی کی شروعات یہیں سے کرتے ہیں، بیعت وہ بنیادی چیز ہے، جس کے بعد ہی آدمی میں دل سے اللہ تعالیٰ کا نام لینے کا شعور پیدا ہوتا ہے، اور اگر عالم دین ہے تو اُس کے لیے اِس کی ضرورت اور زیادہ ہوتی ہے، اس لیے کہ اگر علم کی ملاقات ذکر سے نہیں ہوگی تو سرکشی آئے گی، گمراہی پھیلی گی، اور اگر علم کی ملاقات ذکر سے ہوگی تو جھکائو آئے گا، اخلاص پیدا ہوگا، للّٰہیت آئے گی۔”

اصلاح معاشرہ کے سلسلہ میں مولانا کا خطاب بہت ہی پر اثر اور جامع ہے۔ اصلاح معاشرہ کی سمت میں پاکی اور صفائی کو وہ پہلی اور لازمی شرط قرار دیتے ہیں۔ ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ کسی جگہ مسجد سے متصل چوڑی سڑک کو بند کر کے کرسیاں لگا دی گئیں تھیں اور جلسہ ہو رہا تھا۔ مسجد کو چھوڑ کر سڑک پر جلسہ کا کیا جواز ہے؟ اس سوال کے جواب میں کچھ نوجوانوں نے جواب دیا کہ ‘حضرت ہم لوگ ناپاک رہتے ہیں، اس لیے مسجد میں نہیں جا سکتے، جلسہ سڑک پر کرنے کی وجہ یہی ہے۔’ مولانا کہ یہ الفاظ ہر اس شخص کے ضمیر کو جھنجوڑ سکتے ہیں جس کے اندار ایمان کی ایک ذرا سی جنگاری بھی باقی ہو:

”ذرا سوچئے اور غور کیجئے! ہنسنے کی بات نہیں ہے، رونے کا مقام ہے، جس نبی نے تعلیم دی کہ پاک رہو، صاف رہو، جس نے صفائی کی بھی تعلیم دی اور پاکی کی بھی۔۔۔ اسی نبی کے ماننے والے، ان کا شیدائی اور فدائی کتنا جھوٹا اورمکار ہے، کہ وہ اس پوزیشن میں نہیں رہتا کہ مسجد میں داخل ہو سکے، اگر اس مرحلہ میں موت آئے گی، تو کیا ہوگا؟ ناپاکی کی حالت میں اللہ سے جا ملے تو کیا جواب دیں گے، قیامت کے دن جب پوچھا جائے گا ، نبی ۖ کے امتی تھے، ناپاک آئے تھے، تو اس وقت ہم کیا منھ دکھلائیں گے۔”

اسی خطاب میں اصلاح معاشرہ کے سلسلہ میں اگلا قدم نماز کی اصلاح کو قرار دیتے ہوئے حضرت مولانا ولی رحمانی کہتے ہیں کہ نماز برائیوں سے روکتی ہے ۔ اس حدیث کی روشنی میں نماز پڑھنے کے باوجود اگر ہم برائی سے نہیں بچ پا رہے ہیں تو اس کا سیدھا مطلب یہی ہے کہ ہماری نماز رسولۖ کی بتائے ہوئے طریقے کے مطابق نہیں ہو رہی ہے۔ حضرت مولانا ولی رحمانی کا تعلق خانقاہ سے ہے لیکن ان کی وسعت فکر و نظر کا اندازہ کیجیے کہ نماز کی اصلاح کے لیے وہ ‘تبلیغی جماعت’ کے ساتھ وقت لگانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہتے ہیں:

”امام صاحب اور علماء سے پوچھ کر اپنی نماز کی اصلاح کر لینی چاہئے، تبلیغی جماعت کے ساتھ وقت لگانا چاہئے، اور اپنے نماز کی کمی کو بھی دور کرنا چاہئے۔۔۔”

شادی بیاہ میں غیر شرعی رسم ورسومات اورعام زندگی میں حرام خوری کو وہ اصلاح معاشرہ کی راہ میں بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہیں۔ اس سلسلہ میں حضرت مولانا ولی رحمانی نے اپنا جو تجربہ بیان کیا ہے وہ صد فیصد حقیقت پر مبنی ہے۔ مولانا کہتے ہیں:

”۔۔۔میرے یہاں خانقاہ رحمانی مونگیر میں ہر ماہ درود شریف کی مجلس ہوتی ہے، میں اس موقعہ پر مونگیر تقریباً ایک ہفتہ رہتا ہوں، اور اس ایک ہفتہ میں چار پانچ ہزار آدمی آتے ہیں، مل کر جاتے ہیں، کلمہ ، درود ، استغفار اور مسنون دعائیں سیکھتے ہیں، ذکر میں اپنا وقت لگاتے ہیں اور بہت سے لوگ تعویذ بھی لیتے ہیں۔ عام طور پر لوگ اپنا درد بیان کرتے ہیں۔۔۔۔ حضرت چھ اولاد ہوئی، ایک بھی نہیں بچی، تعویذ دے دیجئے، ساتواں بچہ بچ جائے۔ اولاد ہو رہی ہے تو ناک کٹی ہے، سر بڑا ہے، لنگڑا ہے، آنکھ سے معذور ہے۔ تجربہ اور علم کی روشنی میں کہتا ہوں، کہ جن شادیوں میں لڑکی والوں کو پریشان کر کے روپیہ حاصل کیا جاتا ہے، ان گھروں میں ایسے بچے پیدا ہوتے ہیں، اور لنگڑے لولہے ہوتے ہیں،کانے بہرے ہوتے ہیں، کمزور اخلاق اور کمزور کردار کے ہوتے ہیں، ہم نے چند سکوںکے لیے آنے والی نسلوں کو تباہ و برباد کرنے کا سامان کر رکھا ہے۔ سوچئے، ہم کیا کر رہے ہیں۔”

خطبات ولی میں شامل سبھی خطبات ہمیں دعوتِ غور و فکر دیتے ہیں۔ زبان اتنی عام فہم اور انداز اتنا دل نشیں ہے کہ اسکول کے طالب علم سے لے کر علماء اور اسکالرز تک ان خطبات کو پڑھ کر اپنی زندگی میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔ نوجوانوں کے لیے یہ کتاب کسی تحفہ سے کم نہیں ہے۔ نور السلام ندوی اد ب کے طالب علم ہیں لیکن اس کتاب سے ان کے قومی و ملی جذبے کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اِس کتاب کو اسکول ، کالجز، یونیورسٹیز اور مدارس کے طلبہ کو ایک بار ضرور پڑھنا چاہیے۔ ١٦٦ صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت صرف ١٥٠ روپئے ہے۔ سرورق اور طباعت بہت ہی نفیس اور دیدہ زیب ہے۔خطبات ولی کے مرتب نور السلام ندوی سے ان کے موبائل نمبر 9504275151 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

Khutbat-e-Wali by Noorus Salam Nadvi

Khutbat-e-Wali by Noorus Salam Nadvi

مبصر : کامران غنی صبا
(مدیر اعزازی اردو نیٹ جاپان،معاون مدیر سہ ماہی دربھنگہ ٹائمز و سہ ماہی تحقیق، ایسو سی ایٹ ایڈیٹر ماہنامہ کائنات)
رابطہ:9835450662
kamran2ghani@gmail.com