مغرب نے حج کو انسانی رواداری کی بہترین مثال قرار دیا

Hajj

Hajj

مکہ مکرمہ (جیوڈیسک) اسلامی انتہا پسندی، دہشت گردی اور شیعہ ، سنی مسلکی اختلافات کے نتیجے میں دنیائے اسلام میں جاری کشت وخون کے نتیجے میں جہاں پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں منفی سوچ کے فروغ میں اضافہ ہوا ہے وہیں حج اس باب میں ہوا کا ایک تازہ جھونکا ہے جس نے مغرب کو بھی اسلامی رواداری کو تسلیم کرنے پرمجبور کیا ہے۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق اہل مغرب جو مسلمانوں کو صرف جنگ وجدل اور شدت پسندی کی علامت کے طور پرپیش کرتے ہوئے اسلام فوبیا کا شکار ہیں حج جیسے عالمی اجتماع کے فواید کو تسلیم کرنے لگے ہیں۔

مغربی دنیا کے دو سرکردہ محققین مائیکل الیکزیو اور اسٹیفن جیمیکوف نے مشترکہ طور پر ایک رپورٹ مرتب کی ہے جس میں حج کے انسانی سماج پرمرتب ہونے والے اثرات کا باریک بینی سے تجزیہ کیا گیا ہے۔ ’’مکہ مکرمہ، دین اور نئی بنیادوں پرسماجی صف بندی ‘‘ کے عنوان سے تیار کردہ رپورٹ میں اس سوال پربحث کی گئی ہے کہ آیا شعائر اسلام بالخصوص حج جیسا عالمی اجتماع انسانی رواداری میں کوئی کردار ادا کرسکتا ہے؟۔ ماہرین نے خود ہی اس سوال کا جواب اثبات میں دیا ہے اور تسلیم کیا ہے کہ ہرسال کرہ ارض کے مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والے، ہمہ نوع زبانیں بولنے والے، سیاہ فام اور سفید فام، مختلف مسلکی نظریات کے حامل دو ملین افراد کا ایک جگہ ایک ہی لباس، ایک ہی تلبیہ اور ایک ہی انداز میں شعائر ادا کرنا دنیا میں انسانی رواداری کی سب سے بڑی اور منفرد مثال ہے۔

بلاشبہ حج کے اجتماع سے سماجی، معاشی، مذہبی اور انسانی و اسلامی رواداری کے اسلامی فلسفے پرمہر تصدیق ثبت ہوتی ہے کیونکہ دنیا کا کوئی دوسرا مذہب اس طرح کی عالمی رواداری کی کوئی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ حج کا اجتماع اس بات کا پیغام ہے کہ اولاد آدم میں مذہب، رنگ، نسل اور مسلک کی بنیاد پرکوئی فرق نہیں اور تمام انسان برابر ہیں۔ نیز یہ کہ حج کا اجتماع اسلام اسلام اور دنیا کے دیگرخطوں میں پائی جانے والے مسلکی تنازعات کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے پوری انسانیت کو ایک لڑی میں پرونے کی دعوت پیش کرتا ہے۔

مستشرقین تسلیم کرتے ہیں کہ حج کا اجتماع جہاں ایک طرف اسلامی دنیا میں پائے جانے والے مذہبی اور مسلکی اختلافات کو قبول کرتا ہے وہیں یہ اجتماع مذہب اور مسلک کی بنیاد پر نفرت، تکفیری نظریات اور انتہا پسندی کو مسترد کرتا ہے۔ حج یہ پیغام دیتا ہے کہ اسلام کے مختلف طبقات و نظریات کے حامل افراد ایک عقیدے کی بنیاد پرایک جگہ جمع ہوسکتے ہیں۔ ان کا طریق عبادت ایک دوسرے سے مختلف ہوسکتا ہے مگراس کے باوجود انہیں دائرہ اسلام سے باہر قرار نہیں دیا جاسکتا۔

اس رپورٹ میں حج کے سماجی، سیاسی، اخلاقی اور نفسیاتی پہلوؤں پر بھی پوری تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ حج صرف ایک مذہبی فریضہ ہے مگر جب اسے سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی جائے تو اس کے نتیجے میں یہ فریضہ متاثر ہوگا۔ اس طرح اس فریضے کے ادائی کے نتیجے میں انسانوں بالخصوص مسلمانوں کو حاصل ہونے والے سماجی اور نفسیاتی فوائد بھی متاثر ہوں گے۔ کیونکہ کوئی بھی عازم حج بیت اللہ روانگی کے قصد سے قبل اپنے دل کو صرف عبادت کے لیے خاص کرتے ہوئے نیت میں اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی کا عزم لے کر سفر حرم کو روانہ ہوتا ہے۔ اگر اس فریضے میں کہیں بھی سیاسی سوچ کی آمیزش ہوئی تو فریضہ حج کا اصل مقصد فوت ہوجاتا ہے۔