میڈیا اور منفی خبریں

Media

Media

تحریر: سجاد گل
دو چیزیں ایسی ہیں وہ جتنا بھی شور کر لیں لوگ ان پر اعتماد نہیں کرتے، پہلی چیز میڈیا اور دوسری چیز طاہر القادری، چونکہ ہمارا آج کا موضوع میڈیا ہے نہ کہ طاہر القادری لہذا ہم میڈیا پر بحث کا آغاز کچھ یوں کرتے ہیں ،بالعموم یہ تائثر پایا جاتا ہے کہ بات کچھ اور ہو تی اورمیڈیا زبیدہ آپا کی طرح مرچ مصالحے لگا کر اسے کچھ اور ہی بنا دیتاہے ، کچھ لوگ میڈیا پر یوں بھی تبصرہ کرتے ہیں کہ ہمارا پاکستانی میڈیا صرف منفی خبریں چلاتا ہے اگر میڈیا چاہے تو منفی خبر کو مثبت بنا کر بھی پیش کر سکتا ہے،لہذا میڈیا کی خبر کا کوئی بھروسہ نہیں ،میں بھی ان لوگوں کی صف میںہی کھڑا ہوں جن کے یہ نیک خیالات ہیں، کوئی شک نہیں کہ پیش کرنے والے پر منحصر ہے کہ وہ بات کوکس انداز میں پیش کرتا ہے۔

لازمی تو نہیں کہ خبر ایسے ہی چلائی جائے کہ کراچی والے جو پانی پیتے ہیں وہ نہایت غلیظ اور مضر صحت ہے، اس میں مردہ جانور پڑے ہوتے ہیں، اب اسی خبر کو مثبت انداز میں یوں بھی پیش کیا جا سکتا ہے کہ ،خوشخبری ۔۔۔کراچی والے جو پانی پیتے ہیں اس میں پروٹین اور حیاتین بھی ملے ہوتے ہیں،کیوں کہ اس پانی میں حلال جانوروں کاگوشت ملا ہوا ہوتا ہے(ضروری نہیں کہ لوگ اس حلال گوشت کی تفصیل بھی لیں کہ یہ کس طرح ملا ہوتا ہے)نوٹ فرمائیں کہ یہ خبر ہم نے آپ تک پہلی بار پہنچائی ہے ”ہر خبر،مثبت خبر” ۔اسی طرح بارش ہوتی ہے تو میڈیا کی جانب سے شورمچ جاتا ،بارش باعث زحمت بن گئی،سندھ کے نواحی گائوں گھوٹھی میں دو مکانوں کی چھتیں گِرنے سے چار افراد ہلاک چھ زخمی جن میں دوکی حالت تشویشناک ہے،سڑکوں پر پانی ہی پانی مکینوں کا باہر نکلنا محال،اب اسی خبر کو مثبت انداز میں یوں بھی پیش کیا جاسکتا ہے۔

Rain

Rain

الحمداللہ آٹھ ماہ بعد سندھ میں ابرِ رحمت کی رِم چھِم،لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، فصلوں کو بارش سے بہترین فائدہ،دو خاندانوں کو اضافی فائدہ یہ ہوا کہ ان کے مکانوں کی راجہ داہر کے زمانے کی پرانی چھتیں گِرگئیں، اگر یہ چھتیں بارش سے نہ گِرتیں تو مالکان مزدوروں کو اجرت ادا کر کے یہ کام کرواتے ،موت برحق ہے ہر انسان کو آنی ہے،اور موت کو کوئی بہانا چاہئے ہوتا ہے یہ بارش دو افرادکی موت کا بہانابھی بنی ،یہ دو افراد غمِ دنیا سے نجات پا کر ،دودھ اور شہد کی نہروں والی جنت میں داخل ہو گئے،اللہ تعالیٰ جب بھی کسی انسان کوکسی تکلیف مین مبتلا کرتا ہے تو اسکے بدلے اسکے گناہ معاف کئے جاتے ہیں، بارش کی وجہ سے چارزخمیوں کے کچھ گناہ اور دو کے مکمل گناہ معاف ہونے کی امید ظاہر کی جا رہی ہے اور وہ سڑکیں جن پر دھوپ شائیں شائیں کرتی پھر رہی ہوتی تھی۔

آج وہی سڑکیں ایک جھیل کی طرح رومینٹک منظر پیش کررہی ہیں ، ”معتبر خبر مثبت خبر”لاہور میں تین ساڑھے تین بچے گھر سے بھاگ کیاگئے میڈیا نے آسمان ہی سر پر اٹھا لیا،غفلت کی انتہا ہو گئی بادامی باغ لاہور سے درجنوں بچے اغواہ،انتظامیہ بھنگ پی کر سو رہی ہے،اغواہ شدہ بچوں کے والدین کے بہتے آنسو دیکھ کر ہمارا کیمرہ مین بھی رو پڑا،اگر یہ خبر مثبت انداز میں پیش کی جائے تو یوں ہوگی،بڑے گھروں کے بگڑے ہوئے تین ساڑھے تین بچے گھر سے بھاگ گئے،متعلقہ تھانہ ان سے ایسے تنگ تھا جیسے پاکستان انڈیا سے،گھر والوں کے ساتھ ساتھ پورے محلے نے سکھ کا سانس لیا اور خوشی میں بنگڑے ڈالے اور مٹھائیاں تقسیم کیں،خوشی میں ہمارے کیمرہ مین اور کورج ٹیم کو بھی ایک ایک کلو” بٹ سویٹ” کی برفی کا تحفہ دیا گیا۔

Charas

Charas

خوشی سے جیو،مثبت خبر دیکھا کے جیو” پنجاب کے کسی گائوں میںچند شرفاء چرس بیچتے پکڑے گئے،میڈیا نے یہ خبر ایسے چلائی جیسے مریخ کے باشندے پکڑ لئے ہوں،لالا جی یہ خبر ایسے بھی دی جائے سکتی تھی،کہ درویشوں کا ایک گروہ رونما ہوا ہے جو پریشان حال،دکھی،دل جلوں ،اور محبت میں ہارے لوگوں کا واحد سہارا ہے،ان لوگوں کے پاس کالے رنگ کی ایک ایسی دوا ہے جو سیگریٹ میں ڈال کر پینے سے دنیا جہاں کے دکھ درد بھول کر انسان مست ہوجاتا ہے،اور بغیر PIAمیں بیٹھے ہوا میں اڑنا شروع ہو جاتا ہے،آیا مزہ خبر کا ،جی جناب ”مزے کی خبر مثبت خبر”۔ امید ہے ان مثالوں سے آپکو یقین ہو گیا ہو گا کہ ہمارا میڈیا کس قدر مصالحہ جات کا استعمال کرتا ہے،اچھی بھلے شریف لوگوں کی خبر ایسے انداز میں پیش کرتا ہے کہ انکی مٹی پلید ہوجاتی ہے۔

میں تو کہتا ہوں میڈیا کوایسی کوئی خبر چلانی ہی نہیں چاہئے جس سے مایوسی بددلی اور پریشانی پھیلے،روڈ ایکسیڈنٹ ہو یا موت حادثے کی خبر یہ بھی کوئی خبر ہے ،ہرجاندار نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے جب مرنا ہی ہے تو موت کیسی بھی ہوکسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے ،ایک اخبار کے ایڈیٹر ہمارے بہت اچھے دوست ہیں انہوں نے ہمیں ایک بات بتائی تھی کہ جناب ،کسی کتے نے آدمی کو کاٹ دیا تو یہ خبر نہیں ہے،خبر یہ ہے کہ کسی آدمی نے کتے کو کاٹ دیا ہو،بس جناب ہمارا خیال بھی یہی ہے کہ خبر کو خبر ہی بنا کر پیش کیاجائے نہ کہ چکن تکہ یا سپائیسی سیخ کباب،اگر میڈیا نے اپنی یہ روش نہ بدلی تو عمران خان کی طرح لوگوں کامیڈیا سے بھی اعتبار اٹھ جائے گا۔

Sajjad Gul

Sajjad Gul

تحریر: سجاد گل

Pakistani Media

Pakistani Media