میڈیا کی اجارہ داری

Media

Media

تحریر : محمد آصف اقبال
“آپ سب کو پتہ ہے کہ ہمارا ٹی وی بیمار ہو گیا ہے۔ پوری دنیا میں ٹی وی میں ٹی بی ہو گیا ہے۔ ہم سب بیمار ہیں۔ میں کسی دوسرے کو بیمار بتا کر خود کوڈاکٹر نہیں کہ رہا ہوں۔ بیمار میں بھی ہوں۔ پہلے ہم بیمار ہوئے اب آپ بیمار ہو رہے ہیں۔ آپ میں سے کوئی نہ کوئی روز ہمیں مارنے پیٹنے اور زندہ جلادینے کا خط لکھتا رہتا ہے۔ اس کے اندر کا زہر کہیں ہمارے اندر سے تو نہیں پہنچ رہا ہے۔ میں ڈاکٹر نہیں ہوں۔ میں تو خود ہی بیمار ہوں۔میرا ٹی وی بھی بیمار ہے۔ڈبیٹ کے نام پر ہر دن کا یہ شور شرابہ آپ کی آنکھوں میں روشنی لاتا ہے یا اندھیرا کر دیتا ہے۔ آپ شاید سوچتے تو ہوں گے۔ڈبیٹ سے جوابدہی طے ہوتی ہے۔لیکن جوابدہی کے نام پر اب نشاندہی ہو رہی ہے۔ ٹارگیٹ کیا جا رہا ہے۔

اس ڈبیٹ کا آغاز ہوا تھا مدّوں پر سمجھ صاف کر نے کے لیے۔لیکن جلد ہی ڈبیٹ عوامی رائے کی موت کا کھیل بن گیا۔عوامی رائے ایک طرفہ رائے کا نام نہیں ہے۔عوامی رائے میں کئی رائے ہوتی ہیں۔مگر یہ ٹی وی ڈبیٹ عوامی رائے کے تنوع کو ختم کر رہا ہے۔ایک فکر کی حکومت کو قائم کرنے میں جٹ گیا ہے۔جن اینکروں اور ترجمان کے اظہار کی کوئی حد نہیں ہے،وہ اس آزادی کی حد طے کرنا چاہتے ہیں۔کئی بار یہ سوال خود سے اور آپ سے کرنا چاہیے کہ ہم کیا دکھا رہے ہیں اور آپ کیوں دیکھتے ہیں۔آپ کہیں گے آپ جو دکھاتے ہیں ہم دیکھتے ہیںاور ہم کہتے ہیں کہ آپ جو دیکھتے ہیں ہم دکھاتے ہیں۔اسی میں کوئی نمبر ون ہے تو کوئی میرے جیسا نمبر ٹین۔کوئی ٹاپ ہے تو کوئی میرے جیسا فیل۔

اگر ٹی آر پی ہماری منزل ہے تو اس کے ہمسفر آپ کیوں ہیں۔کیا ٹی آر پی آپ کی بھی منزل ہے۔اسی لیے ہم آپ کو ٹی وی کی اس اندھیری دنیا میں لے جانا چاہتے ہیں۔جہاں تنہا آپ اس شور کو سن سکیں،سمجھ سکیں،اُس کی امیدوں اور خوف میں جی سکیں،جو ہم اینکروں کی جماعت روز پیدا کرتی ہے۔آپ اس چینخ کو پہچانئے،اس چلاہت کو سمجھئے ،اسی لیے میں آپ کو اندھیرے میں لے آیا ہوں”۔یہ گفتگو اُس پروگرام کا کچھ حصہ ہے جو این ڈی ٹی پر دکھائے جانے والے پروگرام ‘پرائم ٹائم ‘سے لیا گیا ہے، جسے ایک سینئر جرنلسٹ رویش کمار پیش کرتے ہیں۔

Economics

Economics

معاشیات کا یہ اصول بارہا سنا جا چکا ہے کہ بازار میں جس چیز کی مانگ ہوتی ہے وہی فراہم کی جاتی ہے۔لیکن کیا آپ اور ہم بازار کے اس اصول کو نہیں جانتے جسے اجارہ داری کہتے ہیں۔جہاں ڈمانڈ کچھ بھی ہو،اس سے صرف نظر ، بازار میں موجود چیزیں ہی لو گ خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں۔رویش کمار کی یہ بات کہ کئی بار یہ سوال خود سے کرنا چاہیے کہ ہم جودکھا رہے ہیں وہ آپ کیوں دیکھتے ہیں؟دراصل اسی اجارہ داری کا حصہ ہے جہاں لوگ دیکھنے پر مجبور ہیں،اور ان کی مرضی نہیں چلتی۔اور کئی مرتبہ دکھانے والے بھی مجبور ہوتے ہیں۔وہ جو دکھانا چاہتے ہیں،ارادہ اور مواد فراہمی کے باوجود ،مختلف پالیسیوں کے پابند ہوتے ہیں۔انہیںوہی کچھ کہنا اوردکھانا پڑتا ہے جو راست یا بلاوسطہ ان کے مالک چاہتے ہیں۔یہ مالک بھی دو طرح ہیں۔ایک ،فنڈ فراہم کرنے والے افراد و گروہ تودوسرے سیاسی لیڈران،ذمہ داران اور بچولیے جو اِن دکھانے والوں کی وقتاً فوقتاً مختلف شکلوں میں مدد کرتے ہیں۔لہذا عوام مجبورہیں کہ جو آپ دکھائیں گے وہی دیکھیں گے۔

البتہ لاتعدادنیوز چینلس کی موجودگی یہ موقع ضرور فراہم کرتی ہے کہ ہم اپنی پسند کا چینل چن سکیں۔لیکن چونکہ فی الوقت ملک ایک خاص رخ پر اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے ۔لہذا سستی اور کاہلی میں پڑے اہل ملک بھی اُسی بہائو میں بہنے کو تیار ہیں۔یہ وہ تیسری اور سب سے تشویشناک صورتحال ہے جس کا تذکرہ بھی رویش کمار نے کیا ہے۔یعنی یہ کہ آپ کہیں گے آپ جو دکھاتے ہیں ہم دیکھتے ہیںاور ہم کہتے ہیں کہ آپ جو دیکھتے ہیں ہم وہی دکھاتے ہیں۔ نیوز چینلس اور اس میں شائع ہونے والی خبریںاور ان خبروں میں وہ تمام ناپسند چیزیں دیکھنے اور سننے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم زندگی کے ہر مرحلہ میں حد درجہ سہل پسندی کے عادی ہو چکے ہیں۔خبروں کے نام پر شائع ہونے والی چیزیں گرچہ ہمارا وقت خراب اورہمارے ذہنوں کو بوجھل کرتی ہیں۔اس کے باوجود ہم انہیں دیکھتے اور سنتے ہیں۔بے مقصد ٹی وی ڈبیٹس سننا ہمارا مشغلہ بن گیا ہے۔اشتعال انگیزی جو کہیں نہ کہیں ہمارے رویوں میں خاموشی کے ساتھ چھپی بیٹھی ہے،ٹی وی ڈبیٹس ہمارے اندروں کو تسکین پہنچاتے ہیں۔

اور اگر ایسا نہیں ہے،کہ اشتعال انگیزی ہمارے رویوں میں چھپی نہیں بیٹھی توکیوں ہم اسی وقت کو یا اس سے بھی کچھ کم وقت میں اچھے مضامین نہیں پڑھتے؟کیوں ہم ٹی وی نیوز کی جگہ اخبارات کا مطالع نہیں کرتے؟اس کی دوبڑی وجوہات ممکن ہیں۔ایک سہل پسندی جس کے ہم عادی ہو چکے ہیں،وہ اس میں بڑی رکاوٹ ہے۔تو وہیں یہ بھی کہ ایک اخبار ہماری تسکین کے لیے شاید کافی نہیں ہے۔دوسری جانب ایک ٹی وی اسکرین پر موجود بے شمار چینلس دلچسپی کے لحاظ سے ہماری تسکین کا ذریعہ بنتے ہیں۔پس یہی وجہ ہے کہ اہل اقتدار یا حزب مخالف ان ٹی وی چینلس پر راست یا بلاواسطہ بے تحاشہ دولت صرف کرنے میں مصروف ہیں۔

Media

Media

موجودہ صورتحال کے پس منظر میں جس درجہ میں جو لوگ بھی اِن ٹی وی چینلس سے متاثر ہیں، انہیں اسی قدر زیادہ قوت اور تند دہی کے ساتھ میڈیا میں اپنے موقف کو رکھنے کے لیے تیار ہونا چاہیے۔جرنلزم کی بنیاد تو ہر زمانہ میں پرنٹ میڈیا ہی رہے گا۔لہذا پرنٹ میڈیا میں مراسلات ، مضامین،سروے رپورٹ،جائزے ،انٹرویو وغیرہ لکھنے اور انہیں تیار کرنے کی بھر پور و منظم کوششیں ہونی چاہیں۔کوشش کے نتیجہ میں ملک کو ایک ایسی بڑی تعداد جرنلسٹ حضرات کی حاصل ہوگی جو میڈیا میں اپنی حصہ داری و شراکت داری میں اہم کردار ادا کرے گی۔نیز اس عمل سے ملک و اہل ملک سب ہی کو فائدہ ہوگا۔دوسری جانب ٹی وی چینلس کے لیے ایسے افراد تیار ہونے چاہیں جو مختلف ایشوز کے ماہرین کی حیثیت سے ٹی وی ڈبیٹس کا حصہ بنیں۔نیز اپنی صلاحیتوں اور علم کی روشنی میں ٹی وی ڈبیٹس کی موجودہ بدسے بدتر ہوتی صورتحال کوصحیح رخ پر لانے کی کوشش کریں۔کیونکہ عام طور سے ہوتا یہی ہے کہ جب متبادل نہ ہو تو پھر اجارہ داری ہوتی ہے۔

برخلاف اس کے بازار میں جب ضرورت سے زیادہ چیزیں موجود ہوں تو وہ وہاںمعیارقائم نہیں رہ پاتا۔ نتیجہ میںوقت صلاحیت دولت سب کچھ برباد ہوتی ہیں۔اور ایسی صور ت میں سوائے ساہوکار کے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ تقریباً یہی صورتحال آج ہم دیکھنے پر مجبور ہیں۔دوسری جانب یہ حقیقت بھی عیاں ہے کہ مال و دولت کی چمک ،افکار و نظریات اور معاملات و ریوں کو متزلزل کرنے کاذریعہ بنتی ہے۔یہ مال و دولت کی چمک ہی ہے جو کہیں ٹی آرپی بڑھا تی ہے تو کہیں اینکر حضرات کا اسٹیٹس اور بینک بیلنس۔نتیجہ میں نہ افکار نہ نظریات اور نہ ہی مثبت ریوں کی کوئی حیثیت رہتی ہے۔ان حالات میں سہل انگیزی ہر دوصورتوں میں خصوصاً ان افراد و گروہوں کو حد درجہ نقصان پہنچائے گی جو متاثر ہیں۔

خبریں پڑھنے اور سننے مین بھی نقصان اورانہیں نظر انداز کرنے میں بھی نقصان۔لہذا اگر آج آپ اس حالت میں نہیں ہیں کہ خود میڈیا کی بگڑتی صورتحال کے سدھا میں حصہ داری نبھائیں تو کم از کم قوم و ملت اور ملک کے مستقبل کو اس میدان کار میں متحرک کیجئے۔پھر اگر آپ نے ایسا کیا تو لازما عمل کے نتیجہ میں ملک اور اہل ملک سب ہی کو فائدہ ہوگا۔لہذا ہوش کے ناخن لیں اور صرف اپنے ہی بارے میں نہ سوچیں بلکہ ملک اور اہل ملک سب ہی آپ کی توجہ کے مستحق ہونے چاہیں۔کیونکہ اجتماعی سعی وجہد بہتری کی علامت ہے۔اورجب سب مل جل کر بہتری کی جانب میدان عمل میں قدم بڑھائیں گے تو لازماً اس کے فوائد بھی بہت جلد سامنے آئیں گے۔

Mohammad Asif Iqbal

Mohammad Asif Iqbal

تحریر : محمد آصف اقبال
maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.com

Media

Media