طبی سہولیات و عملے پر تیمارداروں کی طرف سے تشدد کا رحجان

Patients Waiting of Civil Hospital

Patients Waiting of Civil Hospital

تحریر : محمد عرفان چودھری

”ٹیکے لگا رہا ہے سو ہے وہ بھی ڈاکٹر
پڑیاں بنا رہا ہے سو ہے وہ بھی ڈاکٹر
ورزش کروا رہا ہے سو ہے وہ بھی ڈاکٹر
اُلو بنا رہا ہے سو ہے وہ بھی ڈاکٹر”

جیساکہ مضمون کا نام ہے اُس حساب سے ڈاکٹر صاحب کا تھوڑا سا تعارف کروانا ضروری تھا ویسے تو سبھی ڈاکٹر ایک جیسے نہیں ہوتے مگر جوں جوں جدیدیت بڑھتی جا رہی ہے ویسے ویسے ڈاکٹر بھی اب جدید ہوتے جا رہے ہیں جدید ہونا کوئی بُرائی نہیں اگر جدیدیت علاج معالجے میں ہو ،ہمارے ہاں ذرا کام اُلٹا ہے جیسا کے گنگا اُلٹی بہتی ہے اِسی طرح یہاں پاکستان میں ڈاکٹر ذرا اُلٹی طرز کے ہوتے چلے جا رہے ہیں۔

سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹر حضرات بڑی معذرت کے ساتھ ایسے ہوتے ہیں جیسے کہ مُنہ میں زبان کی جگہ کانٹے اُگا رکھے ہیں سرکاری خرچ پر پڑھنے والے سرکاری ڈاکٹر جب اپنے پرائیویٹ کلینک میں ہوتے ہیں تو گویا ان کا مزاج ایسا ہوتا ہے کہ جیسے دُنیا کی جتنی بھی میٹھی چیزیں ہیں وہ اُنہوں نے کھائی ہوئی ہیں مریض کو اِتنی تسلی سے چیک کرتے ہیں کہ مریض کی آدھی بیماری چیک کرنے سے ہی ختم ہو جاتی ہے اور اس کے بر عکس سرکاری ہسپتالوں میں بطور ڈیوٹی مریض کی نبض تک دیکھنا گوارا نہیں کرتے جس کی تازہ مثال حال ہی میں رُونما ہونے والے چند واقعات ہیں جس نے ہر با شعور شخص کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے ہے جس میں سب سے پہلا واقع لاہور کے جناح ہسپتال میں پیش آیا جہاں قصور کی رہائشی ساٹھ سالہ بزرگ خاتون زہرہ بی بی نے قصور کے مضافاتی علاقے کے ہسپتال عارف میموریل سے رجوع کیا جہاں سے اُسے لاہور جنرل ہسپتال ریفر کر دیا گیا پھر جنرل ہسپتال سے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی ریفر کیا گیااُس کے بعد وہاں سے بھی اُسے سروسز ہسپتال ریفر کیا گیا مگر بات یہاں ختم نہیں ہوئی زہرہ بی بی کو سروسز ہسپتال سے جناح ہسپتال کی جانب ریفر کر دیا گیا اور یوں قصور کے عارف میموریل ہسپتال سے بخار میں تپتی زہرہ بی بی ریفر ہوتے ہوتے لاہور کے جناح ہسپتال کے ننگے فرش پر ٹھنڈی ہو گئی، اِسی طرح لاہور کے مشہور و معروف شیخ زید ہسپتال میں مریضہ کو زمین پر لٹا کر اُس کا علاج کیا گیا اور دوسری جانب گوجرانوالہ میں گُردے کے ڈائیلیسز کروانے کے لئے آنے والا مریض دس گھنٹے تک علاج کا انتظار کرتے کرتے خالق حقیقی سے جا ملا بالکل زہرہ بی بی کی طرح ایک مریض سروسز ہسپتال سے ریفر کئے جانے کی بناء پر راستے میں ہی دَم توڑ گیاقارئین کرام یہ کسی ایک زہرہ بی بی کی بات نہیں ہے جو صحت جیسی سہولتوں سے محروم معاشرے میں آدمیت کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔

چند دن پہلے لاہور ہی کے جنرل ہسپتال میں ایکسیڈنٹ زدہ شخص علاج کی غرض سے ہسپتال آیا جس کا علاج ینگ ڈاکٹروں نے گھونسوں اور مُکوں سے کِیا یہ کو ئی ڈھکی چھُپی بات نہیں آپ اور ہم میں سے روز کسی نہ کسی کو سرکاری ہسپتال میں جانے کا اتفاق ہوتا ہوگا وہاں دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا ہم کسی باہر کے مُلک میں ہیں صرف اس حد تک جیسا کے باہر کے لوگ اپنے کام کاج میں اتنا مگن ہوتے ہیں کہ اُن کو کسی سے بات کرنے کے لئے پہلے وقت لینا پڑتا ہے بلکل اسی طرح پاکستان کے سرکاری ہسپتالوں میں ہوتا ہے کے نرسیں کسی کونے میں بیٹھی دُنیا و مافیہما سے بے خبر موبائل میں یوں گُم ہوتی ہیں کہ مریض بیماری سے کراہ رہے ہیں تیماردار مدد کے لئے در بدر بھٹک رہے ہیں مگر مجال ہے کہ کسی نرس یا کسی ڈاکٹر کے سَر پر جُوں رینگ جائے، جوں رینگے بھی تو کیسے کے نرس اور ڈاکٹر حضرات انگلش اینٹی لائیس شیمپو جو استعمال کرتے ہیں کرنے دیں اُن کو استعمال کہ یہ اُن کا ذاتی معاملہ ہے ہم نے تو یہاں بات کرنی ہے طبی عملے اور تیمارداروں کے مابین ہاتھا پائی اور تشدد کے بڑھتے ہوئے رحجان کی تو مکرمی کسی بھی چیز کی بُنیاد یا اُس کی حساسیت جاننے کے لئے انسان کو اُس جگہ پراپنے آپ کو رکھنا پڑتا ہے تو اِسی بات کو لیتے ہوئے کچھ ذاتی تجربات بیان کرنے ضروری ہیں اس لئے بات کرتے ہیں۔

 Civil Hospital

Civil Hospital

پاکستان کے زندہ دلانِ شہر لاہور کے کچھ مشہور و معروف سرکاری ہسپتالوں کی جن میں سے ایک دِل کا ہسپتال ہے دِل کے معاملے کے لئے دِل کے ہسپتال جانے کا اتفاق ہوا یہ دِل کا معاملہ میرے اپنے والد گرامی کے ساتھ پیش آیا کے اُن کا دِل بیٹھ گیا فوری طور پر کارڈیالوجی ہسپتال کا رُخ کیا جس میں مریض کو بٹھانے کے لئے جگہ نہیں تھی خیر جیسے تیسے کر کے پرچی بنوائی اور دِل کی ایکو گرافی کرنے والی لائن میں لگ گیا کوئی آدھ گھنٹے بعد باری آئی تو پرچی ہاتھ میں تھما کر ایک سال کی تاریخ دے دی گئی حالانکہ میں نے تو سُن رکھا تھا کہ دِل کے معاملوں میں دیر نہیں کرنی چاہیئے سو تھوڑی تگ و دو شروع کی تو معلوم ہوا کے اگر پندرہ ہزار نقد جمع کروا دیے جائیں تو فوراََ دِل کا معاملہ حل کیا جا سکتا ہے آپ بتائیں کے ایسی بات پر بندہ عملے کی ٹھکائی نہ کرے تو پھر کیا کرے کیونکہ اُن کے دیے ہوئے وقت کے مطابق تو مِرزا صاحب کا شعر ہی آتا ہے :

”آہ کو چاہیئے اِک عُمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تیری زُلف کے سَر ہونے تک”

سو دِل کے معاملے کو چھوڑا اور انتظار کرنے لگے زُلف کے سَر ہونے تک کا۔ دوسرے واقع میں والد گرامی صاحب کو فالج کا اٹیک ہو گیا فوری طور پر لاہور ہی کے جناح ہسپتال میں لے گئے ایمر جنسی سے ایک روپے کے عوض پرچی بنوائی اور کوئی پون گھنٹہ انتظار اور بھاگ ڈور کرنے کے بعد ایمر جنسی میں موجود طبی عملے نے والد صاحب کو داخل کرنے کا مشورہ دیا سو داخل کروا دیا مگر لیٹنے کے لئے بستر نا پید خیر منت و سماجت کے بعد دوسرے مریض کے ساتھ ہی جگہ مِل گئی پھر اس کے بعد سلسلہ شروع ہوا ٹیسٹوں کا اُس کے لئے سٹریچر ناپید نرس سے پوچھا تو جواب ملا کہ سٹریچر خود ہی ڈھونڈ لو خود کیسے ڈھونڈ لیں؟ ہم ہسپتال آئے تھے نا کے بیوی کے میکے! چچا ہمارے ذرا ہم سے زیادہ تجربہ رکھتے تھے سو ایک وارڈ بوائے کی جیب میں سو کا نوٹ ڈالا تو سٹریچر مل گیا جس پر ہم نے والد صاحب کو پورے ہسپتال کی سیر کروائی میَں اس کو سیر ہی کہوں گا کہ پورا ہسپتال جو گھومنا پڑا خیر کچھ ٹیسٹ ہوئے کچھ رہ گئے کہ مشینری نہیں ہے اس لئے موجودہ ٹیسٹ بڑے ڈاکٹر صاحب کو دکھائے گئے کے وہ مزید مریض کو ہسپتال میں رکھنے کے اصرار پر ہوں گے یا گھر لے جانے کی اجازت دیں گے یقین کیجئے بڑے ڈاکٹر صاحب یوں تھے جیسے بڑے تھانیدار ہوتے ہیں۔

بڑی بے اعتنائی سے کہنے لگے کے دماغ کی شریان پھٹ گئی ہے ہم کچھ نہیں کر سکتے آپ دُعا کریںذرا خود سوچئے کے جوان بیٹے کو بوڑھے باپ کی صحت کے بارے میں یوں کہا جائے تو اُس کا کیا حال ہوگا؟ وہ اُس ڈاکٹر کا سَر نہیں پھاڑے گاتو پھر کیا کرے گا؟ دُعا اور اللہ کی رضا سے تین دن اناڑی پریکٹیشنروں جو کے والد گرامی صاحب پر مختلف تجربات کرتے رہے والد صاحب کو چھُٹی دے دی گئی اور واپسی پر بِلا تگ و دو کئے وارڈ بوائے کی جیب میں سو کا نوٹ ڈالا اور وہیل چئیر پر بٹھا کر ہسپتال کو خیر باد کہا۔ تیسرے واقع میں بیٹی کے پیٹ میں تکلیف ہوئی تو فوری طور پر لاہور کے چلڈرن ہسپتال میں لے گئے دن سے لے کر رات گئے تک بیٹی کے مرض کی تشخیص نہ ہو سکی بڑی کرب میں مبتلا کر دینے والی حالت تھی بیٹی درد سے چیخ رہی تھی اور ڈاکٹر نرس تھے کے یوں تکتے جیسے کسی بکری کا بچہ میَں میَں کر رہا ہو کوئی توجہ نہیں بچی کو لٹانے کے لئے بستر نہیں خوش قسمتی سے ایک سفارش کام آ گئی اور بچی کو نرس روم میں ڈرپ لگا کر دوائیاں لکھ کر ڈسچارج کر دیا گیا مگر پھر بھی مرض جوں کا توں رہا اور بعد میں پرائیویٹ ہسپتال سے اپینڈکس کا آپریشن کروانا پڑا جو کے سرکاری ہسپتال کے چکر میں پھٹ چُکی تھی ذرا سی دیر اور ہوتی تو شائد وہ زندہ نہ رہتی جس طرح لاہور کی ماہ نور پانچ لاکھ روپے لگانے کے باوجود مرض کی تشخیص سے محروم رہی اور جب کینسر کے مرض کی تشخیص ہوئی تب تک بہت دیر ہو چُکی تھی آپ بتائیں کے بھلا ایسے حالات میں تیماردار ڈاکٹروں اور طبی عملے پر تشدد نہ کرے تو پھر کیا کرے؟ اِن ساری باتوں کو بیان کرنے کا مقصد صرف ڈاکٹر یا طبی عملے کی ساکھ کو نقصان پہنچانا نہیں ہے بلکہ یہ باور کروانا ہے کے اللہ تعالیٰ نے آپ کو انسانیت کی مدد کے لئے چُنا ہے تو آپ کو چاہیئے کے اپنی ذمہ داری کو احسن طریقے سے بخوبی بنھائیں اور اپنے کام کو عبادت سمجھ کر کریں جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ :

جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اُس نے پوری انسانیت کی جان بچائی۔
اس کے ساتھ ساتھ حکومت کے لئے بھی چند سفارشات ہیں جن کو مدِ نظر رکھتے ہوئے شائد ڈاکٹر اور تیمارداروں کے درمیان جو لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں اُن کو ختم کیا جا سکے جن میں سے چند درجہ ذیل ہیں:
-1حکومت کو چاہیئے کہ وہ ڈاکٹر اور طبی عملے کو وہ تمام سہولتیں مبہم پہنچائے جو کے کسی انسان کی جان بچانے کے لئے ضروری ہے۔
-2ہسپتالوں میں نرسوں اور دیگر طبی عملے کے موبائل رکھنے پر فی الفور پابندی لگائی جائے۔
-3طبی عملے کو ریفریشر کورسز کروائے جائیں تا کہ وہ انسان اور جانور میں فرق کو جانچ سکیں۔
-4تمام ٹیسٹ کرنے والی مشینوں کو ٹیسٹ کیا جائے تا کہ مرض کی صحیح طور پر تشخیص ہو سکے۔
-5مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیشِ نظر ہسپتالوں میں نئے وارڈ اور بستروں کا بندو بست کیا جائے۔
-6ہر ضلع کی سطح پر نئے ہسپتال تعمیر کئے جائیں تا کہ مریضوں کو دور دراز کے علاقوں میں نہ جانا پڑے۔
-7نئے آنے والے ڈاکٹروں کو یونیورسٹیوں میں ہی مکمل ڈاکٹر بنا کر ہسپتال میں علاج کرنے کے لئے بھیجا جائے تا کہ وہ کسی مریض پر تجربے کر کے اُس کی جان لینے کے مرتکب نہ ہوں۔
-8 سب سے اہم بات آئے دن ینگ ڈاکٹر جو ہسپتالوں میں ہڑتال اور غنڈہ گردی کرتے ہیں فی الفور ان کے لائسنس کینسل کر دیے جائیں تا کہ جب وہ خوداپاہجوں کی سی زندگی گزاریں گے تب شائد اُن کو دوسرے کے کرب و درد کا احساس ہوگا۔

اس کے ساتھ ساتھ تیمارداروں پر بھی کچھ اخلاقی ذمے داریاں لاگو ہوتی ہیں کہ ایک مریض کے ساتھ دس دس لوگوں کی بجائے ایک یا دو فرد ہونے چاہیئے تا کہ ایمرجنسی یا کسی اور وارڈ میں بلا وجہ کا رش نہ ہو تا کہ ڈاکٹر اور دیگر طبی عملے کو علاج کرنے میں دُشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے، طبی عملے کے ساتھ اخلاقی طور پر پیش آئیں کیوں کہ وہ ہمارے لئے مسیحا کا درجہ رکھتے ہیں۔

بلاوجہ چھوٹے بچوں کو اپنے ساتھ ہسپتالوں میں لے جانے سے گریز کیا جائے تا کہ بچوں کی چیخ و پُکار سے مریض اور معالج کو کوفت کا سامنا نہ کرنا پڑے یوں ہم اِن تمام باتوں پر اگر عمل کریں تو میں یقین رکھتا ہوں کے ڈاکٹر، طبی عملہ اور تیمارداروں کے درمیان جو اختلافات اور لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں وہ انشاء اللہ عزوجل ختم ہو جائیں گے اور تمام مریضوں کو ایک جیسی علاج و معالجے کی سہولت ملے گی خواہ وہ سرکاری ہسپتال میں ہو یا پرائیویٹ میں۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو آمین!

Mohammad Irfan Chaudhry

Mohammad Irfan Chaudhry

تحریر : محمد عرفان چودھری
ڈپٹی سیکریٹری کو آرڈینیشن
پاکستان فیڈرل یُونین آف کالمسٹ
+92-313-4071088