بحیرہ روم میں حادثہ: گیارہ مہاجرین ہلاک دو سو لاپتہ

Mediterranean Boat Accident

Mediterranean Boat Accident

لیبیا (جیوڈیسک) اے ایف پی کے مطابق اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے ان حادثوں میں بچا لیے گئے پناہ گزینوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ مہاجرین کی کشتیاں الٹ جانے کے یہ واقعات لیبیا کے ساحلوں کے قریپ پیش آئے۔

رپورٹوں کے مطابق لیبیائی ساحلوں سے جمعے کے روز علی الصبح ایک سو بتیس تارکین وطن ربڑ کی ایک کشتی میں سوار ہو کر بحیرہ روم کے راستوں سے اٹلی کی جانب روانہ ہوئے تھے۔ تاہم سفر شروع کرنے کے چند گھنٹوں بعد ہی کشتی میں ہوا کم ہونے لگی اور بالآخر یہ کشتی الٹ گئی۔ دوسری کشتی میں ایک سو بیس تارکین وطن سوار تھے جن میں سے تیس کے قریب عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔

اطالوی کوسٹ گارڈز نے اس واقعے کی اطلاع ملنے کے فوراﹰ بعد بحیرہ روم میں حادثے کی جگہ کے قریب موجود ڈنمارک کے مال بردار بحری جہاز کو اس کشتی کی جانب روانہ ہونے کی اپیل کی۔ ڈینش بحری جہاز کے عملے نے پچاس کے قریب تارکین وطن کو ڈوبنے سے بچا لیا۔ بچ جانے والے پناہ گزینوں کو اتوار کے روز یونانی جزیرے سلسلی پر پہنچا دیا گیا۔

بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے نمائندوں نے پیر آٹھ مئی کو حادثے میں بچ جانے والے پناہ گزینوں سے ملاقات کر کے صورت حال جاننے کی کوشش کی۔ ان افراد کے مطابق حادثے کے بعد لاپتہ ہونے والوں میں درجنوں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔

لیبیا میں ریڈ کراس نے بتایا ہے کہ ملک کے ساحلی علاقے زاویہ کے قریب اتوار کے روز ہی دس تارکین وطن کی لاشیں ملی تھیں جب کہ ایک بچے کی لاش آج پیر کے روز ملی۔ اتوار کے روز ہی لیبیا کے ساحلی محافظوں اور مچھیروں نے مزید سات تارکین وطن کو سمندر میں ڈوبنے سے بچا لیا تھا جن میں ایک عورت بھی شامل تھی۔

گزشتہ دو روز کے دوران بحیرہ روم میں کی جانے والی متعدد امدادی کارروائیوں کے دوران چھ ہزار سے زائد تارکین وطن کو ریسکیو کر لیا گیا۔ ان میں سے اکثر کو واپس لیبیا کے ساحلوں تک پہنچا دیا گیا تاہم بین الاقوامی پانیوں سے نکالے گئے سینکڑوں تارکین وطن کو اٹلی بھی لے آیا گیا ہے۔

حالیہ مہینوں کے دوران سمندری راستوں کے ذریعے لیبائی ساحلوں سے اٹلی کی جانب روانہ ہونے والے تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس کے مقابلے میں اس برس یہ راستے اختیار کرنے والوں کی شرح میں پچاس فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔